• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں فون کرتا یا انکی کال آتی، ان کا پہلا فقرہ یہی ہوتا ’’بھائی جان ایسا نہیں چلے گا ،فوراً پہنچو‘‘ اور پھر فالو اَپ ایسا ہو تا کہ فوراً پہنچنا ہی پڑتامگر یہ باتیں بعد میں پہلے یہ ملاحظہ کریں ۔
جنرل مشرف کی زیرصدارت کابینہ کے اجلاس میں زرعی قرضوں ، کسانوں کی حالت زار اور گندم کی فصل پر گفتگو کرتے وفاقی وزیرخوراک وزراعت شفقت جاموٹ کی بات کاٹ کر اچانک وزیرتجارت رزاق داؤد نے بولنا شروع کر دیا اور پھر جب وہ زراعت کی پسماندگی اور کسانوں کی غربت پر15منٹ تقریر کر کے خاموش ہوئے تو اسی اجلاس میں موجود وفاقی سیکرٹری خوراک وزراعت نے رزاق داؤد کو مخاطب کر کے کہا ’’حضور والا آج تو آپ نے محفل لوٹ لی، آپ کو تو وزیر تجارت کے ساتھ ساتھ وزیرِخوراک وزراعت بھی ہونا چاہئے ‘‘ لیکن گزارش یہ ہے کہ آج جہاں آپ نے اتنی معلومات فراہم کیں وہاں کیا آپ یہ بھی بتانا پسند کریں گے کہ جب گندم کی فصل پک کر تیار ہوتی ہے تو اس کا رنگ کس طرح کا ہوتا ہے‘‘ ۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ کابینہ کے اس اجلاس میں رزاق داؤد پھر دوبارہ نہیں بولے ۔ پھر چند ماہ بعد جب شوکت عزیز سمیت 5وزراء کی کو ششو ں اور سازشوں سے یہی وفاقی سیکرٹری ریٹائر کر دیئے گئے تو کچھ عرصہ بعد انہیں گورنر پنجاب خالد مقبول کا فون آتا ہے ، رسمی علیک سلیک کے بعد گورنر صاحب فرماتے ہیں کہ ’’آپ کو یہ سن کر خوشی ہو گی کہ میں آپ کو پنجاب کی ایک بڑی یونیورسٹی کا وائس چانسلر لگا رہا ہوں‘‘ گورنر صاحب کو جواب ملتاہے کہ’’ آپ کو بھی یہ سن کر خوشی ہو گی کہ میں اب اس حکومت کیلئے مزید کام نہیں کرنا چاہتا‘‘اور پھرجب ورلڈ کپ جیتنے کے 10سال پورے ہونے پر ایک بڑی تقریب کے انعقاد میںلگے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین توقیر ضیاء اسی سابق وفا قی سیکرٹری کو فون کرکے کہتے ہیں کہ ’’میری خواہش ہے کہ آپ بھی اس تقریب میں شریک ہوں ‘‘تو آگے سے جواب آتا ہے ’’میں اس لئے اس تقریب میں شرکت نہیں کروں گا کہ 1992ء کا ورلڈکپ جیتنے میں آپ کا کوئی کردار نہیں تھا ‘‘۔
یہ توصرف 3مثالیں ہیں ورنہ رزاق داؤد اور توقیر ضیاء کو لاجواب کرنے ، گورنر پنجاب کی آفر ٹھکرا نے اور ہر مرتبہ فون پر ’’بھائی جان ایسا نہیں چلے گا فوراً پہنچو‘‘ کہنے والے ڈاکٹر ظفرا لطاف کی اسسٹنٹ کمشنر ساہیوال سے وفاقی سیکرٹری تک کی 38سالہ سول سروس اور ٹیسٹ کھلاڑی سے چیئرمین کرکٹ بورڈتک کے 48سالہ سفر میں ایسی سینکڑوں مثالیں اور بھی ، یہ وہی ڈاکٹر ظفر الطاف کہ جن کے بارے میں پاکستان کے بابائے کرکٹ عبدالحفیظ کاردار یہ کہہ گئے کہ ’’ظفرالطاف نہ ہوتے تو پاکستان کرکٹ کی عمارت آج اتنی مضبوط بنیادوں پر کھڑی نہ ہوتی‘‘،وہی ظفرالطاف کہ جن کے حوالے سے اقوام متحدہ یہ کہے کہ ’’ زراعت اور زرعی برادری کیلئے ڈاکٹر صاحب کی خدمات بھلائی نہیں جاسکتیں‘‘، جنہوں نے بھٹو،ضیاء، بینظیر، نوازشریف اور مشرف کے ساتھ کام کیا مگر آخر میں سب نے انہیں ہی کام کرنے سے روک دیا ، جنہیں سچ بولنے کا صلہ یہ ملا کہ کبھی نیب نے انکی انکوائریاں کیں تو کبھی ان پر ایف آئی آر ہوئیں ،کبھی انہیں ضمانت کرانا پڑی تو کبھی انہیں انڈر گرائونڈ ہونا پڑا ، جو کراچی گروپ کی سازشوں اور اپنی نوکری کی وجہ سے فرسٹ کلاس کرکٹ میں رنز کے ڈھیر لگانے کے باوجود صرف ایک ہی ٹیسٹ کھیل پائے، جو کہا کرتے کہ کرکٹ ہی وہ واحد کھیل کہ جس میں انگلی شہادت فیصلہ کرے اور جہاں بال چھوڑنا بھی کھیل کا حصہ ،جو درجن بھر کتابوں کے مصنف اور لاکھوں کسانوں کے گاڈ فادر اور جنہیں دنیا سے رخصت ہو ئے 5دن گزر گئے لیکن ابھی بھی نہ انہیں مرحوم کہنے پر دل مانے اور نہ انکے یوں چھوڑ جانے پر دماغ راضی۔
مگر وہ کمال کے انسا ن تھے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سردیوں کے دن تھے اور ڈاکٹر صاحب وزارتِ خوراک وزراعت میں ایڈیشنل سیکرٹری ، ایک سہ پہر ان کا فون آیا ’’بھائی جان ایسا نہیں چلے گا ،فوراً دفتر پہنچو‘‘اور پھران کے دفتر پہنچ کر سلام دعا کے بعد میں ابھی بیٹھا ہی تھا کہ اچانک انکے وزیر خیر محمد جونیجو کمرے میں داخل ہوئے ، ڈا کٹر صاحب انہیں دیکھ کر کرسی سے اٹھے تو میں بھی کھڑا ہوگیا ، وزیر صاحب سے ہاتھ ملاتے ہوئے اچانک ڈاکٹر صاحب کی نظر مجھ پر پڑی تو بولے ’’ تم کیوں کھڑے ہوئے ہو‘‘میں نے کہا کہ’’ آپ کھڑے ہوئے ہیں اس لئے‘‘ ،کہنے لگے ’’ میر ا تو باس آیا ہے ، کیا تمہارا بھی باس آیا ہے‘‘، میں نے کہا ’’نہیں ‘‘ تو کہنے لگے ’’ تو پھر تشریف رکھیں اور زندگی میں کھڑا صرف ان کیلئے ہونا کہ جن کیلئے تمہارا دماغ نہیں دل کہے ‘‘ یہ کہہ کر وہ ہکا بکا کھڑے وزیر صاحب سے باتیں کرنے لگ گئے۔ پھر جب وہ وفاقی سیکرٹری تھے تو اکثر ایسا ہو اکہ ہم ان سے گپیں مار رہے ہیں اور کوئی وزیر، بیوروکریٹ یارکنِ اسمبلی آگیا، اب ماحول کو سرکاری اور سنجیدہ دیکھ کر ہم وہاں سے کھسکنے ہی لگتے کہ ان کی آوازآتی ’’ کہاں چلے ‘‘ ،ہم بتاتے کہ آپ میٹنگ کر لیں ہم دوبارہ آجائیں گے ،جواب ملتا ’’ براہ مہربانی بیٹھ جائیں یہاں کوئی پردے دار میٹنگ نہیں ہوگی ‘‘۔مجھے یہ بھی اچھی طرح یاد ہے کہ 5دسمبر 2007کی صبح ان سے ملنے گیا تو خلافِ توقع وہ بڑی جلدی میں دکھائی دیئے ،انہیں اس حال میں دیکھ کر میں نے پوچھا ’’ڈاکٹر صاحب آج یہ جلدیاں کیوں ‘‘ کہنے لگے ’’ بے نظیر بھٹو نے بلایا ہے وہ کچھ ایشوز پر بریفنگ چاہتی ہیں ‘‘ بی بی نے آپ کو بلایا ہے میں نے حیران ہو کر کہا تو مسکرا کربولے ’’کیوں میں کسی بی بی سے نہیں مل سکتا ‘‘اور پھر بی بی کی وفات پر ایک عرصہ تک دکھی رہنے والے ڈاکٹر صاحب نے دو ڈھائی سال کے بعد بتایا کہ اُس دن بریفنگ کے بعد بی بی نے کہا تھا کہ ’’ڈاکٹر صاحب تیار رہیں اب نہ صرف آپ میری زرعی ٹیم کو لیڈ کریں گے بلکہ آپ ہمارے سینیٹر بھی ہوں گے ‘‘ ۔ ابھی دو ماہ پہلے کی بات ہے کہ رات گئے فون کی گھنٹی بجی تواس وقت ڈاکٹر صاحب کی کال دیکھ کر فون اٹھا تے ہی میں نے گھبراکر پوچھا ’’ڈاکٹر صاحب خیریت ‘‘ قہقہہ مار کر بولے ’’ بھائی جان ایسا نہیں چلے گا ،کل گھر تشریف لائیں‘‘، اور پھر اگلے دن دوپہر کے وقت جب میں ان کے گھر پہنچا تو وہ کتابوں سے لبالب بھرے کمرے میں اپنے نواسے کے ساتھ کھیل رہے تھے ، رسمی علیک سلیک کے بعد نہ صرف نواسے کیساتھ کھیلتے کھیلتے ہی انہوں نے میرے ساتھ چائے پی بلکہ اسی دوران ہی پنجا ب کے ’’دودھ مافیا‘‘ کے ساتھ اپنی پرانی لڑائی کے تازہ قصے بھی سنا ڈالے،جب وہ سب کچھ سنا چکے تو میں نے کہا ’’ڈاکٹر صاحب دکھ کی بات تو یہ ہے کہ آپ ان سے لڑ رہے ہیں کہ جو اس قابل بھی نہیں کہ ان سے لڑا جائے ‘‘ اپنے نواسے کو گود میں بٹھا کر بولے ’’ بھائی جان جون ایلیا کا یہ شعر سن لیںاور یہی میرا جواب بھی سمجھیں ‘‘ :۔
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں
میں اس شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں
اُس دن ان سے باتیںکرتے ہوئے جہاں میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ اس فسادی سے میری آخری ملاقات ہوگی، وہاں نواسے کے ساتھ کھیلتے ڈاکٹر صاحب کو خداحافظ کہتے ہوئے میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اپنی دونئی کتابوں کی تقریب ِرونمائی کے پروگرام بنانیوالے ڈاکٹر صاحب کا اپنا پروگرام بھی فائنل ہوچکا ، مگر آخری لمحے کا نہ کسی کو پہلے پتا چلا اور نہ آئندہ پتا چل پائے گا اور پھر جیسے ہر ایک کا وقت مقرر ایسے ہی آخر کا ر ڈاکٹر صاحب کا بھی وقت مقررہ آن پہنچااور پھر 5دسمبر کی شام ٹی وی دیکھتے ہوئے موبائل کی گھنٹی بجنے پر صوفے سے اٹھ کر جب میں نے Chargingپہ لگا فون اٹھایا تو سینئر صحافی اوراپنے دوست رؤف کلاسرا کا یہ میسج کہ ’’ڈاکٹر صاحب فوت ہو گئے ہیں ‘‘ پہلی بار بے دھیانی ،دوسری بار حیرانی اور پھر کئی بار بے یقینی کے عالم میںپڑھا اور ہربار پڑھتے ہوئے دل یہی کہے جارہا تھاکہ یہ ڈاکٹر ظفرا لطاف نہیں کوئی دوسرا ڈاکٹر ہوگا،لیکن جب کنفیوژن بھری اس عجیب وغریب کیفیت سے نکلنے کا کوئی اور راستہ سجھائی اور سمجھائی نہ دیا تو میں نے کانپتے ہاتھوں سے ڈاکٹر صاحب کا نمبر مِلا کر فون کان سے لگایا اور پھر جیسے ہی اِدھر کسی نے رٹے رٹائے انداز میں یہ کہہ کر کہ ’’ڈاکٹر صاحب کا جنازہ کل ظہر کے بعد ہے‘‘ فون بند کیا تو اُدھر میرے ہاتھ سے بھی فون گرگیا اور پھر ڈوبتے دل اور بہتے آنسوؤں میں دیوار کے سہارے اپنے بے جان جسم کو صوفے کی طرف گھسیٹتے ہوئے میرے منہ سے بے اختیار یہ نکلا ’’بھائی جان ایسا نہیں چلے گا‘‘۔
تازہ ترین