• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سولہ دسمبر لوٹ آیا ہے ۔ درد کا موسم لوٹ آیا ہے ۔
ٹھٹھرتی ہوئی شب سیاہ اور وہ بھی طویل تر
محسنؔ ہجر کے ماروں پہ قیامت ہے دسمبر
اس سرد رُت کی زخم خوردہ مائوں پر گزشتہ برس قیامت گزر گئی تھی ۔ ان کے بچے آرمی پبلک اسکول پشاور میں اپنے رخشاں لہوکے دینار لٹا کر تابوتوں میں گھر آئے تھے ۔ آسماں زمین پر ڈھے گیا تھا ۔ کسی درد مند دل سے آہ نکلی …’’ مائیں دروازے کو تکتی ہیں مگر اب بچے /سیدھے اسکول سے جنت کو چلے جاتے ہیں ‘‘…شاید ہم میں سے کوئی بھی ان حرماں نصیب بیبیوں کے کرب کو نہیں سمجھ سکتا۔ کوئی صلہ ان کے درد کا درماں نہیں ۔ کوئی لفظ ان کے غم کا ترجماں نہیں ۔ کوئی لغت اُن کے دِلوں سے اٹھنے والی ہوک کی وضاحت پر قادر نہیں ۔ کوئی بھی پیمانہ ان کے دکھ کی گہرائی ماپنے سے قاصر ہے ۔ کوئی تسلی ان کے زخموں کا مرہم نہیں ۔کوئی دلاسہ ان کے آنسوئوں کے آگے بند نہیں باندھ سکتا۔ کوئی پرسہ ان کی شامِ غریباں میں چراغ نہیں جلا سکتا کہ :
یہ کمسن پھول سے چہرے لحد کی گود میں سو کر
گھروں میں گھومتے سایوں کے پیکر چھوڑ جاتے ہیں
گھروں میں معصوم شہداء کے ہیولوں کا رقص بسمل اور ان کی مائوں کے خنجر کی طرح سینہ چیرتے بین …’’میرا لکھاں دا وِکدا سرہانہ، جے ہنجواں دا مُل پیندا‘‘…اور حراؔ رانا کہتی ہے :
شہر سارا ہی سبب پوچھنے آ بیٹھا ہے
ہم تری یاد میں یوں ہاتھ اٹھا کر روئے
سولہ دسمبر لوٹ آیا ہے ۔ زخموں کے ٹانکے کھلنے لگے ہیں ۔ یادوں کے عطر داں سے خوشبو کے مرغولے اٹھنے لگے ہیں ۔ ظلم کی بھینٹ چڑھنے والے پھول جیسے رفتگاں کے چہروں کے البم کھلنے لگے ہیں ۔ رگِ جاں سے جاں نکلنے کا موسم ۔تڑپنے ، سلگنے ، جلنے کا موسم۔ شاکرؔ شجاع آبادی ماتم کرتا ہے :
مونجھ دا تار سمندر آ گئے
دل وَت قہر دے اندر آ گئے
شاکرؔ درد وَدھانونڑ کیتے
وَت ایں سال دسمبر آ گئے
سولہ دسمبر لوٹ آیا ہے ۔ ضبط کے بندھن ٹوٹ رہے ہیں ۔ درد کی منہ زور لہریں اٹھ رہی ہیں ۔اشکوں کے موتی رُل رہے ہیں۔ قاتل رُت کی اُداسی دیواروں پر بال کھولے بین ڈال رہی ہے …’’تمہارے لمس کی خوشبو ہر ایک موسم میں /ہر ایک رُت میں تیری آہٹوں کی بارش ہے ‘‘…کیا کوئی درد مند دل سمجھ سکتا ہے کہ اس سرما میں جب کمسن شہداء کی مائوں نے گرم کپڑوں کے صندوق کھولے ہیں تو کیسے یادوں کے صندوق بھی کھلتے چلے گئے ہوں گے ؟ ہم اہل زمین کو تو خیر فرصت نہیں، البتہ اپنے معصوم فرشتوں کے گرم کپڑوں کو سینے سے لگائے حوا کی ان بیٹیوں کے نالوں سے آسماں ایسے ہی لرز گیا ہو گا ، جیسے پچھلے سال سولہ دسمبر کو ان کی آہوں سے دہل گیا تھا ۔ کم از کم ایک لحاظ سے تو وہ ضرور مطمئن ہوں گی کہ …’’دل دی روہی رَج کے وسیا ساون تیریاں یاداں دا‘‘
یونہی گرے نہیں برگ و شجر دسمبر میں
بچھڑ گیا تھا کوئی ہم سفر دسمبر میں
کسی کے ہجر سے گزرو تو پھر بتائیں گے
کہ کیسے چلتے ہیں ہم آگ پر دسمبر میں
سولہ دسمبر لوٹ آیا ہے …’’ اتنی یخ بستہ ہوائیں کبھی دیکھی نہ تھیں /موسم ہجر بھی اس سال دسمبر لایا‘‘…ہوائے زمستاں میں کوئی دیکھ سکتا ہے تو ہجر کے ماروں کی بے کسی دیکھے ۔ کوئی سن سکتا ہے تو اُجڑی مائوں کے نالے سنے ۔ کوئی محسوس کر سکتا ہے تو اپنے پیاروں کو کھو دینے والوں کے درد کو محسو س کرے کہ :
کیا کیا کھلے ہیں پھول اندر کی دھو پ میں
آ دیکھ مل کے مجھ کو ،دسمبر کی دھوپ میں
سولہ دسمبر لوٹ آیا ہے… ’’سنبھل نہیں پایا تھا دل/دسمبر پھر لوٹ آیا ہے ‘‘…اگلے دن اخبارات میں ایک تصویر چھپی ہے ۔ ایک ماں سانحہ پشاور میں شہید ہونے والے اپنے بچے کی تصویر پر ہاتھ پھیر رہی ہے ۔ اس کی آنکھوں میں موجزن کرب کا وہ سمندر ہے کہ دیکھا نہ جائے …’’ اس کا چہرہ رو برو ہے آج کل /آنکھ ہر پل باوضو ہے آج کل ‘‘…دیکھنے والی آنکھ ہو تو شہید بچے کی آنکھیں کہہ رہی ہیں :
مجھے یاد کر کے وہ رویا کریں گے
وہ اشکوں سے دامن بھگویا کریں گے
آنکھو ں میں کاٹیں گے فرقت کی راتیں
وہ کانٹوں کے بستر پہ سویا کریں گے
سولہ دسمبر لوٹ آیا ہے …’’ہوا پتوں سے سر ٹکرا رہی ہے /تِرے جانے کاماتم ہو رہا ہے ‘‘… اس منحوس دن وحشت ، سفاکیت، دقیانوسیت، جہالت اور درندگی نے ہماری روحوں کے تار ایک ہی جھٹکے میں جھنجھنا کر رکھ دیئے تھے ۔
اس ہولناک سانحے میں شہید بچوں کے ساتھ ان کی بہادر ٹیچرز کو خراج عقیدت پیش نہ کرنا بخل ہوگا۔ دہشت گرد افشاں احمد کی کلاس میں داخل ہونے لگے تو وہ ان کے سامنے تن کر کھڑی ہو گئی ۔ وحشیوں نے اس کے سرپر کلاشنکوف رکھ کر اسے پیچھے ہٹنے کو کہا تو اس نے اونچی آواز میں للکارا کہ تم میرے جیتے جی ان بچوں تک نہیں پہنچ سکتے۔ درندوں نے اس کے سر پر پٹرول چھڑکا تب بھی وہ للکارتی رہی کہ میرے مردہ جسم سے گزر کر ہی تم بچوں تک پہنچ سکتے ہو ۔ وہ خود تو آگ کے شعلوں میں تاریخ رقم کرتے کوئلہ ہو گئی مگر اس دوران کئی بچوں نے کھڑکیوں سے کود کر اپنی جان بچالی ۔ اسکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی آخری وقت تک بچوں کو بچانے کے لئے بھاگتی رہی ۔ دستی بموں اور گولیوں کے شور میں بچوں کو میزوں کے نیچے اور باتھ روموں میں چھپنے کے لئے اونچی آواز میں ہدایات دیتی رہی اور اس دوران ہی وحشت کی بھینٹ چڑھ کر امر ہو گئی ۔ ان خواتین شہداء کی عظمت کی نذر عقیدت کے چند پھول ، فیضؔ کے الفاظ میں :
’’ادھر بھی دیکھو …جو اپنے رخشاں لہو کے دینار…مفت بازار میں لٹا کر …نظر سے اوجھل ہوئے …اور اپنی لحد میں اس وقت تک غنی ہیں ‘‘۔
تازہ ترین