• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سرکار کی طرف سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کی خوش خبری ملی۔ اس کے عوض دوسری 350اشیا پر5فی صدی، پانچ فی صدی والی اشیاء کو10فیصدی اور 10فیصدی والی کو 15فیصدی کر دینے کا اعلان ہواموجودہ ملی سال کے سات مہینوں میں اس ریگولیٹری اضافے سے 40ارب کی آمدنی ہو گی۔ جن اشیاء پر 5فی صدی ٹیکس عائد کیا گیا ہے یا 5فی صدی کا اضافہ کیا گیا ہے، ان کی تفصیل کچھ یوں ہے، درآمدی پھل اور سبزی دہی، مکھن، پنیر، ڈبل روٹی، ہر قسم کے مشروبات، کارن فلیکس،اچار،ٹماٹر،لیموں،، کیچ اَپ، سویاساس، سوپ، یخنی، جملہ قسم کے صابن، شیمپو، ٹوتھ پیسٹ، شیونگ کا سامان، قدرتی شہد، آم، آم کا گودا، کچا آم (کیری) کھویا، اسٹرابیری، بلیک بیری، امرود، ناشپاتی وغیرہ وغیرہ کیا اس وسیع اضافے کو منی بجٹ کہا جا سکتا ہے۔ یہ تو ’’منے بجٹ‘‘ سے بھی بڑھ گیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے ان اشیاء پر ٹیکس لگایا یا بڑھایا جن کو متوسط افراد استعمال نہیں کرتے، دوسرے جو لوگ بیرونی اشیاء استعمال کرتے ہیں۔ انہیں ان کی زائد قیمت بھی ادا کرنے پر تیار رہنا چاہئے۔ درآمدی اشیاء کی فہرست پر نظر ڈالنے سے ایک عجیب انکشاف ہوتا ہے کہ ہمارا اونچا طبقہ، مقامی کینو، کیری، ہر قسم کے پھل اور سبزی بھی درآمدی کھاتے ہیں۔ اس سے اس افسانے کی تصدیق ہوتی ہے کہ ہمارے ایک سابق وزیراعظم کے لئے پینے کا پانی پیرس سے آیا کرتا تھا۔
دراصل اس نکتے کو سمجھ لینا اور پلے باندھ لینا چاہئے کہ ہمارے عوام الناس ٹیکس کی ادائیگی سے گریز کرتے ہیں اور تنخواہ داروں کے علاوہ جائز آمدنی کے ایک بڑے حصے کو ٹیکس سےبچانے پر فخر کرتے ہیں، مدتوں سے سات لاکھ کے لگ بھگ ٹیکس گوشوارے داخل کرتے رہے ہیں۔ ایف بی آر کے اعلیٰ عہدہ دار ان میں تیزی سے تبادلوں کے باوجود دس لاکھ سے تجاوز نہ کرا سکے۔ ٹیکس کی نادہندگی کا عوام کو کیا دوش دیں۔ یہاں تو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان تک اس مرض میں مبتلا ہیں۔ وہ ارکان جنہوں نے 2013ء کے الیکشن میں اپنے ٹیکس کے گوشوارے داخل نہیں کئے۔ ان کی تعداد119 ہے۔ ان میں ن لیگ کے 54، تحریک انصاف کے 19، پی پی پی کے 13، جے یو آئی کے7، پختون خوا ملی پارٹی کے 3،جماعت اسلامی کے 3اور 15آزاد ارکان شامل ہیں۔ آج تک کسی نے نہیں پوچھا کہ آپ کے منہ میں کتنے دانت ہیں۔ وزیر خزانہ کا اصرار ہے کہ ریگولیٹری ٹیکس صرف درآمدی اشیاء اور لگژری آئٹم پر لگایا گیا ہے۔ اگر قدرتی پھل اور سبزیاں تعیشاتی اشیاء ہیں تو اندیشہ ہے کہ 2016-17کے بجٹ میں وہ کہیں چاول، گندم، نباتاتی گھی، تیل اور شکر کو تعیشاتی اشیاء کی فہرست میں شامل نہ کر لیں۔ودہولڈنگ ٹیکس کا تنازع اب تک طے نہیں ہوا۔ اب اس ماہ پھر کوشش کی جائے گی۔ کھلے بازار میں ڈالر 108روپے پر پہنچ چکا ہے، دوسری طرف اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو یہ تشویش ہے کہ اس کی قیمت اور نہ بڑھے، ساتھ ہی عوام کی زرمبادلہ کی جائز ضروریات میں رکاوٹ نہ پڑے اور عوام کو تعلیم، علاج معالجے اور سفر کی ضروریات کے لئے زرمبادلہ ملتا رہے۔ بینک نے زر مبادلہ کا لین دین کرنے والی تنظیموں کو ہدایت کی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ 7دسمبر تک جائز ضروریات فراہم کر دیں، دراصل اسی آڑ میں ڈالر کی قدر بڑھتی ہے۔ وزارت اور اسٹیٹ بینک ڈالر کے نرخ میں دو روپے کی کمی چاہتے ہیں۔
حکومت پاکستان اسٹیل ملز اور پی آئی اے کی نج کاری کے لئے بڑی بے تاب تھی، پی آئی اےنے تو متعدد جہاز حاصل کر لئے ہیں اور اپنی سروس بڑھا دی مگر اس کی نج کاری کا آرڈی نینس 6دسمبر کو جاری کر دیا۔ اس کو اس لئے جلدی تھی کہ معاملہ قومی اسمبلی میں آجا ئے گا۔ اب کارپوریشن کے تمام اثاثے منقولہ جائیداد نیو یارک اور پیرس کی جائیدادیں نئی کمپنی کو منتقل ہو جائیں گی، حکومت کے پاس محدود حصص رہیں گے۔ پرانے حصہ داروں کا کیا ہو گا۔ یہ ابھی مبہم ہے۔
اسلام آباد میں تاریخ کے پہلے بلدیاتی انتخابات اور ملک میں بارہ سال کے بعد تین قسطوں بالخصوص سندھ اور کراچی میں امن و امان کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچ گئے۔ جس کے لئے انتخابی کمیشن اور صوبائی محکمے قابل مبارک باد ہیں۔ انتخابات کی خصوصیت یہ رہی کہ جماعتی اداروں کے بجائے آزاد ارکان کا پلہ بھاری رہا۔ اب میئر کے انتخابات میں کشمکش ہو گی۔ اسٹیٹ بینک نے 6فی صدی شرح سود برقرار رکھی ہے۔ عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں ادنیٰ سطح پر ہیں۔ اس وقت پاکستان میں مقامی اور بیرونی سرمایہ کاروں کے لئے سرمایہ کاری کا بہترین موقع ہے۔ خصوصاً زراعت پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے اور ملک میں جن غذائی اشیاء جیسے دالیں، بناسپتی گھی کی پیداوار بڑھانے کی ضرورت ہے۔ جس سے نہ صرف ملکی ضروریات پوری ہوں گی۔ بلکہ زر مبادلہ کی بھی بچت ہو گی ملک میں پہلی مرتبہ زر کے مبادلات خارجہ 21؍ارب ڈالر کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ سرکاری سول ملازمین کے لئے ایک خبر ناگوار بھی ہو سکتی ہے۔ اور خوش گوار بھی۔ اس سے میری مراد دوران ملازمت انتقال کر جانے والے سول ملازمین کے ورثاء کے پیکج میں 300فی صد اضافہ ہے۔ جس کا اعلان وزیراعظم نے کیا۔ جس کے تحت گریڈ ایک سے 16تک کے ملازمین کے ورثاءکو 30 لاکھ،17گریڈ والے کو 50لاکھ، 18اور 19کے گریڈ کو 90 لاکھ، 20اور اس سے اوپر والے کو ایک لاکھ روپیہ ملے گا۔ مالی وسائل کی قلت کی وجہ سے ورثاء بڑی مصیبت میں زندگی گزارتے تھے۔ اب کم از کم ان کی اولاد کو تعلیم اور بیٹیوں کو شادی کے لئے مالی وسائل کا تردد نہیں کرنا یہ پیکجز زیادہ تر پولیس والے لے جائیں گے یہی نسبتاً زیادہ مستحق بھی ہیں۔
تازہ ترین