• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ میرے ہر کالم پر اپنا ردعمل دینےکے لیے جلد یا بدیر کال ضرور کرتےتھے۔ مجھے ان کی کال کا انتظار رہتا تھا کیونکہ ان کا تبصرہ عالمانہ اور مدبرانہ ہوتا تھا ۔ اگر وہ کال نہیں کرتے تھے تو میں انہیں کال کر لیا کرتا تھا کیونکہ ان کی چند باتوںسے مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ میں نے کئی کتابیں پڑھ لی ہیں۔ یہ سلسلہ کوئی دو سال سے جاری تھا ۔ دو تین ہفتوں سے ان کی کال نہیں آئی تھی ۔ میں نے کال کی تو وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا ۔ بدھ 9 دسمبر کو جب میں نے نیٹ آن کیا تو یہ افسوس ناک خبر ملی کہ ان کا انتقال ہو گیا ہے ۔ میں نے انہی کے سیل نمبر پر کال کی تو دوسری طرف سے کسی نے رندھی ہوئی آواز میں کہا کہ ’’ جی ہاں یہ خبر درست ہے ۔ ہم ان کی قبر پر مٹی ڈال رہے ہیں ۔ ‘‘ اس طرح وہ عشق کا سوز زمانے کو دکھاتے ہوئے خاک میں مل کر ابدی حیات پا گئے ۔ یہ بات ہے پیپلز پارٹی کے ایک جیالے سلطان محمود قاضی کی ، جن کے انتقال سے میرے خیال میں صرف پیپلز پارٹی کو ہی نہیں بلکہ پاکستان کی جمہوری قوتوں کا ایک بہت بڑا نقصان ہوا ہے ۔ امریکی دانشور ، مورخ اور فلسفی ول ڈیورانٹ کی کتاب ’’ نشاط فلسفہ ‘‘ میں دیےگئے ایک فلسفیانہ مناظرے کے اس نتیجے سے میں متفق ہوں کہ ایک سیاسی کارکن کسی ڈاکٹر ، انجینئر ، فلسفی ، وکیل ، سائنسدان ، دانشور ، ادیب ، صحافی ، تاجر اور صنعت کار سے بڑا آدمی ہوتا ہے ۔ سلطان محمود قاضی صرف ایک سیاسی کارکن ہی نہیں تھے بلکہ مٹی میں رچے ہوئے ، لوگوں میں بسے ہوئے ، باشعور ، ترقی پسند ، مخلص اور قربانیاں دینے والے کارکن تھے ۔ ہم جس معا شر ے میں رہتے ہیں اور جہاں ظلم ، ناانصافی ، استبداد و استحصال ، آمریت اور انتہا پسندی کے خلاف جہد مسلسل ہمارا معمول ہے ، وہاں سلطان محمود قاضی جیسے اگلے محاذوں پر لڑنے والے سپاہیوں کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے ۔ وہ اسلام آباد کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں کلرک تھے ۔ ایک مرتبہ چین کے وزیر اعظم چوئن لائی پاکستان کے دورے پر تشریف لائے تو انہیں اسی ہوٹل میں ٹھہرایا گیا ۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو جب وزیر اعظم چوئن لائی کے ساتھ ہوٹل میں داخل ہوئے تو لابی میں جا کر انہوں نے چوئن لائی کواچانک روک لیا اور کہا کہ آئیے میں آپ کو اپنی پارٹی کے ایک کارکن سے ملواتا ہوں ۔ وہ چھوٹے قد کے ایک نوجوان کے پاس پہنچے اور چوئن لائی سے ان کا تعارف کرایا ۔ یہ نوجوان سلطان محمود قاضی تھے۔ اسلام آباد کے قریب واقع پنڈ ملکاں میں جنم لینے والے سلطان محمود قاضی نے گذشتہ دنوں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’ میں ساری زندگی یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتا رہا کہ لوگ میرے ساتھ ہنس رہے ہیں یا مجھ پر ہنس رہے ہیں ۔ ‘‘ ان میں یہ احساس کمتری اس لیے تھا کہ ان کا قد چھوٹا رہ گیا تھا ۔ اپنے چھوٹے قد کی وجہ سے شاید وہ یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتے رہتے تھے کہ لوگوں کا ان کے ساتھ جو برتاؤ ہے ، وہ اصل میں کیا ہے ؟ اسی الجھن میں انہیں شاید زندگی کا وہ گر ہاتھ آ گیا کہ وہ لوگوں کو ہمیشہ بلند قامت نظر آئے ۔زندگی میں انہوںنے کبھی چھوٹے پن کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ پیپلز پارٹی سندھ کے رہنما لعل بخش بھٹو کہتے ہیں کہ سلطان محمود قاضی ہماری پارٹی کا عظیم اثاثہ تھے ۔ ان جیسے لوگوں کی وجہ سے ہماری پارٹی ابھی تک باقی ہے ۔ انہوں نے ایک اسکول ٹیچر کی حیثیت سے اپنی زندگی کا آغاز کیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو جب ایوب خان کی آمریت کے خلاف مہم چلا رہے تھے تو قاضی صاحب ہر جلسے اور ریلی میں جاتےتھے ۔ کسی نے ان کی شکایت کر دی تو انہیں سرکاری نوکری سے برطرف کر دیا گیا ۔ جمہوریت کےلیے یہ ان کی پہلی قربانی تھی ۔ وہ پیپلز پارٹی کے قیام سےپہلے ہی بھٹو کے ساتھ وابستہ ہوچکےتھے ۔ انہوں نے سیاست کسی عہدے یا منصب کےلیے نہیں کی بلکہ وہ ایک نظریاتی کارکن تھے اور شعوری طور پر آمریت اور سامراج مخالف تھے۔ انہوں نے نہ صرف لوگوں سے بہت گہرا رشتہ رکھا بلکہ سیاست ، فلسفہ اور تاریخ کا عمیق مطالعہ کیا ۔ وہ عالم فاضل آدمی تھے ۔ وہ بڑے مباحث اور مناظر تھے ۔ پیپلز پارٹی کے لوگ اپنے جلسوں اور ریلیوںمیں انہیں تقریریں کرانےکےلیے خصوصی طور پر استدعا کرکےلے جاتےتھے ۔ وہ لوگوں کے مقبول مقرر تھے۔ پارٹی کے اسٹڈی سرکلز میں بھی وہ لیکچر دیا کرتے تھے ۔ لعل بخش بھٹو کے بقول پارٹی کے تمام منشور اور آئین انہیں حفظ تھے ۔ وہ پارٹی کے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاسوں میں جب گفتگو کرتے تھے تو محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی لیڈر بڑی دیر خاموشی کے ساتھ انہیں سنتی رہتی تھیں ۔ وہ کسی لگی لپٹی کے بغیر پارٹی کی پالیسیوں اور پارٹی رہنماؤں پر تنقید کرتےتھے کیونکہ ان میں کوئی کمزوری نہیں تھی ۔ سلطان محمود قاضی کی ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے خاندان سے محبت بے مثل تھی ۔ ان کے چھوٹے سے ڈرائنگ روم میں جو ٹیلیفون لگا ہوا تھا ، اس کی جب گھنٹی بجتی تھی تو بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے پورٹریٹ رنگ برنگی لائٹس سے روشن ہو جاتے تھے ۔ انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ لال قلعہ لاہور میں انہیں طویل عرصے تک تشدد کا نشانہ بنایا گیا لیکن انہوںنےاپنے نظریات اور اصولوں پر کبھی سودے بازی نہیں کی ۔ انہوں نے ایوب خان ، یحییٰ خان ، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف جدوجہد میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ ضیاء الحق کے جبر اور قہر کے سامنے کھڑے ہو گئے تھے اور پارٹی کے خفیہ اجلاس اور ریلیاں منعقد کرکے جمہوری کارکنوں کی صف بندی کرتے رہے اور انہیں جدوجہد کے لیے تیار کرتے رہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں ایک بار کہا تھا کہ ’’ قاضی ! جتنا میں تمہارا احترام کرتا ہوں ، تم سوچ بھی نہیں سکتے ۔ ‘‘ آج ان کی موت پر بھٹو کے یہ الفاظ تاریخ کے الفاظ بن گئے ہیں ۔ قطع نظر اس کے کہ سلطان محمود قاضی کا تعلق کس سیاسی جماعت سے ہے لیکن وہ بہت بلند قامت تھے ۔ انہوں نے ایک منصفانہ اور جمہوری معاشرے کے لیے جو کچھ کیا ، ان کے مقابلے میں ہم اپنے آپ کو بہت چھوٹا تصور کر رہے ہیں اور جن لوگوں کو ہم بہت قد آور سمجھتے ہیں ، وہ بھی قاضی صاحب کے مقابلے میں بونے محسوس ہو رہے ہیں ۔ میں نے یوٹیوب پر سلطان محمود قاضی کی کچھ تقریریں سنی ہیں ۔میں صرف ان الفاظ میں انہیں خراج عقیدت پیش کر سکتا ہوں کہ ان کا انداز خطابت فاضل پور کے درویش صفت دانشور چاچا گل محمد نقی جیسا تھااور ان کی پارٹی کے لیے وابستگی اور نظریات کے ساتھ سچائی عاشق بزدار جیسی تھی ۔ شہرت ، دولت اور طاقت سے قد ناپنے والے لوگ اپنے عہد کے بڑے لوگوں کی قامت کا اندازہ نہیں کر سکتے ۔ سلطان محمود قاضی جیسی عظیم ہستی ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئی ہے ۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کے اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
تازہ ترین