• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی سیاست میں انہونی کا دھڑکا لگا ہی رہتا ہے‘ اس لئے پوری قوم کو سیاست کی دنیا میں اندیشہ ہائے دور دراز کی عادت سی ہو گئی ہے‘ وطن عزیز کی ستر سالہ عمر عزیز میں چار دفعہ مارشل لاء لگ چکا ہے۔ ہر مارشل لاء کیلئے زمین ہموار اور میدان تیار کرنے والے خود حکمران اور سیاستدان ہی تھے۔سیاست کے کھیل میں ہم نے کوئی ’’امپائر‘‘ مقرر نہیں کیا۔ جن برسوں 58(2B) کے ساتھ امپائر موجود تھا(اگرچہ وہ جانبدار ہی کیوں نہ ہو)۔ اس مدد کے دوران انتقال اقتدار پرامن رہا اور جمہوریت پر شب خون کی نوبت نہیں آئی۔ امپائر کا ادارہ ختم کیا گیا تو صرف دو سال کی مختصر مدت میں ملک ایک دفعہ پھر مارشل لاء کی نذر ہو گیا اور باریاں لینے والے ملک بدر ہوئے۔ ’’دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے ‘‘لیکن ہمارے سیاستدان کئی بار جلنے کے بعد بھی پھونک کے پیتے نہ پھونک کر قدم رکھتے ہیں۔ کسی بھی جرنیل نے مارشل لاء کیلئے میدان تیار کیا نہ ماحول بنایا۔ انہیں بنا بنایا ماحول فراہم ہوا‘ بعض ایسے سپہ سالار بھی گزرے جنہوں نے موقع ملنے‘ میدان تیار اور ماحول سازگار ہونے کے باوجود مارشل لاء سے گریز کیا۔ ان میں کیانی‘ راحیل شریف کے ساتھ جہانگیر کرامت اور اسلم بیگ کو بھی شامل کیا جاسکتاہے۔ جنرل کیانی اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ انہیں پیپلزپارٹی کا دور میسر آیا‘ وہ اپنے مخصوص ’’کاموں‘‘ میں اتنے مگن تھے کہ کیانی کے رستے میں رکاوٹ ڈالی اور نہ درون خانہ سازش کی۔ وزیراعظم نوازشریف کا معاملہ مختلف ہے‘ انہوں نے اسلم بیگ سمیت سات سپہ سالاروں کے ساتھ کام کیا لیکن کسی ایک کے ساتھ بھی نبھ نہ سکی ؎
پھول چبھتے ہیں‘ صبا سے میرا دم گھٹتا ہے
میری قسمت میں ہے اچھوں کا برا ہو جانا
اب آٹھویں کی باری ہے‘ دیکھئے کیا گزرتی ہے‘ قطرے کے گہر ہونے تک!
فوج کے سربراہ ایک خاص کٹھالی میں ڈھل کے نکلتے ہیں۔ ان کی سوچ میں فرق تو ہوتا ہی ہے کہ بنانے والے نے ہر فرد‘ بشر کو مختلف بنایا‘ مگر فوج کے اندر مسلسل اور مستقل تربیت نے ان کے اندر خاص قسم کی یکسانیت بھی پیدا کردی ہے۔ سیاست میں انہونیوں سے بچنے کیلئے فوج کے سربراہوں کی بجائے سیاسی حکمرانوں اور لیڈروں کی تحلیل نفسی اور نفسیاتی الجھنوں کو سمجھنے کی ضرورت کہیں زیادہ ہے۔ گزشتہ ہفتے آج ہی کے دن فوج کی سربراہی ‘ معزز‘ ہردلعزیز‘ باوقار جنرل راحیل شریف سے جنرل قمر جاوید باجوہ کو منتقل ہو چکی ہے۔ جنرل باجوہ نے بھی کیانی‘ راحیل شریف اور زبیر حیات کی طرح فوج کی روایات سے آشنا گھرانے میں پرورش پائی ہے۔ قوم بجا طور پر ان سے امید رکھتی ہے کہ وہ پاک فوج کی اعلیٰ روایات کو برقرار رکھیں گے۔ پاک فوج کا سربراہ ہونا اعلیٰ اعزاز کے ساتھ بڑا چیلنج بھی ہے۔ فوج کا مقبول محاورہ ہے کہ ’’گن کی اہمیت اپنی جگہ مگر دیکھنا یہ ہے کہ گن کے پیچھے کون ہے؟‘‘ اصل اہمیت گن کے پیچھے بیٹھے سپاہی کی ہے۔ بندوق یا توپ سے گولہ چلانے کی مہارت کے ساتھ‘ سامنے سے آنے والے گولے کا سامنے کرنے کی جرأت بھی درکار ہے۔ پھر یہ صلاحیت بھی کہ دشمن کو ٹھیک نشانہ بنائیں مگر خود محفوظ رہیں اور اپنی گن کو بھی بچائیں۔ اس کے لئے بڑی تربیت‘ مہارت‘ بہادری‘ پھرتی‘ چوکس ہونے کی ضرورت ہے۔ ادارے بڑے اہم ہیں لیکن ادارے کا سربراہ اکثر اوقات ادارے سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔
یہ بحث صدیوں سے جاری فلسفے کا اہم موضوع رہی ہے کہ ’’فرد اہم ہے یا معاشرہ‘‘، فرد ضروری ہے یا ادارہ‘ فرد ادارے تشکیل دیتا ہے تو افراد کی نااہلی ادارے بلکہ سلطنت کو تباہ کر دیتی ہے۔ قیادت ظہیر الدین بابر کے ہاتھ ہو تو صرف دس ہزار سپاہی لاکھوں کے لشکر کو شکست دے کر ہندوستان جیسی عظیم الشان ریاست کا بادشاہ بنا دیتی ہے۔ وہی کمان ہمایوں کو دے دی جائے تو ایک معمولی سپاہی ’’شیر خان‘‘ سب چھین کر بادشاہ کو دربدر کر دیتا ہے۔ کیا فوج کے نئے سربراہ جنرل راحیل شریف کی طرح قوم کے دل میں اپنا نقش جما سکیں گے؟؎
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
راحیل شریف کی پشت پر ’’لہو‘‘ کی برکت ہی ایسی تھی کہ قوم نے بڑھ کے قدم لئے‘ ان کے سینے میں شہادت کی آرزو پلتی تھی جس نے انہیں ہر خطرے سے بے نیاز کر دیا۔ وہ بے نیاز ہوئے تو خود خطرے بھی ان سے گھبرانے لگے‘ ان کی آہٹ پا کر حریف دبک اور دشمن کنی کترا جاتے تھے۔ راحیل شریف ایسے کامیاب‘ بہادر‘ ایثار پیشہ کا جانشین ہونا بڑے جوکھم کا کام ہے۔
یہ محض اتفاق نہیں کہ برطانوی فوج کے کمانڈر انچیف سمیت دنیا بھر میں بڑی افواج کے سربراہوں اور ماہرین حرب نے زندہ جرنیلوں میں سب سے بہترین سپہ سالار قرار دیا اور پاک فوج کو پیشہ ورانہ مہارت میں ’’نمبرون‘‘ تسلیم کیا گیا۔اگرچہ ہمارا دشمن بہت بڑا‘ قوی اور شاطر ہے‘ پھر بھی اس سے نمٹنے کیلئے فوج نے پورا بندوبست اور تیاری کر رکھی ہے۔ اتنی تیاری کہ اگلے کئی عشروں تک دشمن کی طرف سے براہ راست جارحیت کا کوئی خطرہ نہیں‘ البتہ درپردہ جنگ اور خفیہ سازشیں زوروں پر ہیں۔ دوستوں کا حسد اور ’’خوردہ گیروں‘‘ کی تنگ نظری اس سے سوا ہے‘ وہ بڑی محبت سے سپہ سالار مقرر کرتے اور خود ہی حسد و رقابت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔اپنی کم کوشی پر قابو پانے کی بجائے دوسروں کی کارکردگی پر تلملا اٹھتے ہیں‘ تنگ نظروں کے ’’زود حس ترجمان‘‘ ایسے حالات پیدا کر دیتے ہیں کہ فوج اور حکومت متوازی طاقتیں اور حریف قوتیں نظر آنے لگتی ہیں۔ خدا کرے اب ایسا نہ ہو۔

.
تازہ ترین