• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منتخب ہوتے ہی اسرائیلی انٹیلی جنس نے وزارت برائے بہبود آبادی سے مل کر ایک منصوبہ بنایا جس کے تحت فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں نئی یہودی بستیاں آباد کرنا ہیں کیونکہ ان علاقوں کے بارے میں عالمی سطح پر اسرائیل کو مخالفت کاسامنا ہے۔ اس لئے بہت احتیاط سے ایسا منصوبہ تشکیل دیا گیا کہ عالمی سطح پر کسی مخالفت کا نہیں بلکہ ہمدردی اور مدد کا تاثر ملے اسرائیلی علاقوں میں لگنے والی 22 نومبر کی آگ بڑی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے اس منصوبے کے تحت فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں عالمی مخالفت سے بچتے ہوئے نئی یہودی بستیاںبسانا ہے۔ مقبوضہ بیت المقدس کے مشرقی اور مغربی علاقے ’’حیفا‘‘ اور ’’راملہ‘‘ شامل ہیں‘ اس یہودی سازش کا بھانڈہ خود اسرائیل کے عمیرانی یونیورسٹی کے ایک
پروفیسر عمیر ام گولڈ بلوم نے پھوڑ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں لگنے والی آگ قطعی قدرتی آفت نہیں ہے بلکہ دانستہ لگائی گئی ہے یہ آگ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لگائی ہے تاکہ مقبوضہ علاقوں کو اسرائیل کا حصہ بنادیا جائے اس کارروائی میں خود اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور ان کے دست راست ڈیوڈ شمرون شامل ہیں کیونکہ وہ دونوں ہی جرمنی سے خریدی گئی آبدوزوں کی خریداری میں بدعنوانی اور کرپشن میں ملوث ہیں ان کے خلاف تحقیقات شروع کردی گئی ہیں اس سے بچنے کا اس سے آسان طریقہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ آگ کی سیاست سے اپنے آپ کو ہی نہیں بچایا بلکہ عالمی سطح پر اقوام عالم کی ہمدردیاں بھی حاصل کرلی ہیں۔ اب اسرائیل کے ان مقبوضہ علاقوںپر نئی یہودی بستیاں آباد کرنا آسان ہوجائے گا۔ اس ہولناک آگ نے فلسطین کے مغربی کنارے پر آباد مسلم حصہ کو جلادیا ہے اس آگ کے بچائو کے حوالے سے حیفا کے جن نو بڑے محلّوں کو خالی کرایا گیا وہ سب کے سب یہودی آبادی والے محلّے تھے جبکہ متاثر ہ علاقے مسلم آبادی والے علاقے ہیں۔ اسرائیلی یہود آبادی کی وزارت نے پہلے ہی وزیراعظم نیتن یاہو
کی رضا مندی سے ان آتش زدہ علاقوں میں 2020ء میں نئی یہودی آبادیاں تعمیر کرنے کا منصوبہ تیار کر رکھا ہے تمام نقشے تیار کیے جاچکے ہیں اس کا انکشاف مصری جریدے نے اپنی اشاعت میں کیا ہے۔
بیت المقدس کے مشرق اور مغرب حیفا اور مغربی کنارے راملہ تک کے کئی علاقوں میں اسرائیل نے ان متنازع علاقوں میں یہودی کالونیاں تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ عالمی دبائو سے بچنے کے لئے آگ کی سیاست کی گئی ہے‘ اب تک جو یہودی آبادیاں تعمیر کی گئی ہیں انہیں اسرائیل نے لاپتہ افراد کی میراث کا نام دیا ہے اب اس آگ سے جلنے والے علاقے کے بڑے حصے میں عرب فلسطینی رہائش پذیر ہیں جو اسرائیل کو اپنے علاقوں میں نئی بستیاں آباد کرنے سے عالمی تنظیموں کی مدد سے رکواتے رہے ہیں اب آگ سے متاثر ہونے والا علاقہ تقریباً تین سو ایکڑ پر محیط ہے اس میں امریکی سفارت خانے کو کرائے پر دی گئی اراضی بھی شامل ہے۔ اسرائیل اس اراضی پر 2020ء میں پانچ سو تعمیراتی منصوبے بنارہا ہے۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کو کامیاب کرانے میں یہودی لابی کا بڑا اہم کردار رہا ہے‘ امریکہ میں مقیم یہودیوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن میں ہر طرح سے بھرپور حصہ لیا خوب جی بھر کے عطیات دیئے اور بھرپور انداز میں اپنی حمایت کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ ہر طرح سے ووٹر کو قائل کیا اور ڈونلڈ ٹرمپ کو کامیاب
کرایا کیونکہ بنیادی طور پر ڈونلڈ ٹرمپ ان کی قوم کا حصہ ہے۔ ان کی کامیابی سے فائدہ اٹھانا اور ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن میںکی گئی سرمایہ کاری کی وصولی کا یہی طریقہ انہوں نے بنایا ہے کہ اسرائیل میں فلسطینی مقبوضہ علاقوں کو اپنے قبضے میں لے کر استعمال کرلیا جائے اور عالمی دبائو کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے۔ آگ سے ہونے والے نقصانات کا رونا رو کر اسرائیل نہ صرف بین الاقوامی سطح پر ہمدردیاں حاصل کررہا ہے وہیں ان تباہ شدہ علاقوں کو ازسر نو آباد کرنے کے لئے اقوام عالم سے مالی امداد بھی حاصل کرسکے گا یوں تعمیر کے سارے اخراجات بھی وہ وصول کرسکے گا۔ اسرائیل نے ہمیشہ ایک تیر سے کئی شکار کیے ہیں وہ اس آگ سے جو لگی نہیں خود لگائی گئی تھی سے بھرپور فائدہ اٹھائے گا اور اس طرح فلسطین کے علاقوں کو اسرائیل میں شامل کرکے اپنی حدود میں توسیع کرے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ہمدردیاں اسرائیل کو پہلے ہی حاصل ہیں اب وہ شیر ہوکر اپنی من مانی کرسکے گا۔ اسرائیلی پارلیمنٹ میں دائیں بازو کے ارکان نے بھی امریکی صدارتی انتخابات جیتنے کو بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ اب ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اسرائیل کو کسی بھی اعتراض کرنے والے کی کوئی پروا نہیں جب سیاں بھئے کوتوال تو ڈر کا ہے کا کے مصداق اب جبکہ امریکہ پر بھی ان کا اپنا آدمی کامیابی حاصل کرچکا ہے تو یوں اب امریکہ بھی اسرائیل کی پہلے سے زیادہ حمایت و مدد کرسکے گا اور ڈونلڈ ٹرمپ تو اپنی انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کے خلاف کھل کر اپنے جذبوں کا اظہار کرچکا ہے۔ اسرائیل جو ٹرمپ کی کامیابی پر جشن منارہا ہے اس نے اس کامیابی سے اپنے مفادات حاصل کرنے کیلئے ہی خود اپنے ناجائز قبضہ کے مقبوضہ علاقوں کو آگ لگائی ہے۔ نئی اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کے مسئلے پر پہلے ہی عرب دنیا اور مسلم ممالک اپنی ناراضی اور ناپسندیدگی کا اظہار کرچکے ہیں لیکن اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی سے باز آنے والا نہیں ہے اس نے یہ آگ صرف اور صرف اس لئے لگائی ہے کہ وہ عالمی دبائو سے بچنا چاہتا ہے تاکہ عالمی ہمدردیاں حاصل کرکے امداد حاصل کرسکے اور دنیا پر ثابت کرسکے تمہاری جوتی تمہارا سر کے مصداق اپنی من مانی بھی کرلی اور کسی نقصان سے بھی بچ گئے۔ اب اسرائیل اس متاثرہ علاقوں میں اپنی نئی بستیاں تعمیر کرسکے گا اور فلسطینیوں کے احتجاج اور آہ و بکا پر اب شاید اقوام عالم بھی اس طرح کان نہ دھرسکے جس طرح اب تک اقوام عالم فلسطینیوں کیلئے ہمدردی کا اظہار کرتی رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل اپنی لگائی آگ کی سیاست میں کامیاب ہوجائے گا یوں ہلدی لگے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا آئے گا۔ اللہ فلسطینیوں کی‘ فلسطین کی اور تمام عالم اسلام کی حفاظت فرمائے‘ آمین۔

.
تازہ ترین