• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قلب ایشیا (Heart of Asia)کانفرنس اسلام آباد میں تمام فریقوں کی باہمی رضا مندی کے ساتھ مشترکہ مفادات کی حفاظت کے وعدے پر اختتام پذیر ہوئی۔ اس سلسلے کی پہلی کانفرنس کچھ عرصہ پہلے استنبول (ترکی) میںہوئی تھی۔ قلب ایشیا تنظیم ایشیا کے چودہ (14) ممالک پر مشتمل ہے اور اس کودنیا کے 17 ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ اس میں آسٹریلیا، کینیڈا، ڈنمارک، مصر، یورپین یونین، فرانس، فن لینڈ، جرمنی، عراق، اٹلی، جاپان، ناروے، پولینڈ، اسپین، سویڈن، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں۔ ان تمام ممالک کے نمائندے اس حالیہ کانفرنس میں شریک تھے۔ مجموعی طور پر پاکستان تقریباً 33 ممالک کی مہمان نوازی کررہا تھا۔ اس کے علاوہ گیارہ بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندے بھی بطور مبصر شریک تھے۔ تنظیم کے رکن ممالک کے مطابق ایشیا کا دل اس وقت افغانستان ہے۔ یہ تمام ممالک اس خطہ میں افغانستان کے مستقبل پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ افغانستان میں امن سے اس پورے خطے میں معیشت کی حالت بدل سکتی ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ افغانستان کے دوست اور ہمسایہ ممالک آپس میں خوشگوار تعلقات رکھیں۔ افغانستان کی خانہ جنگی نے پورے خطے کو متاثر کر رکھا ہے۔ امریکہ اور نیٹو افواج کی موجودگی کے باوجود افغانستان میں امن قائم کرنا اب قلب ایشیا تنظیم کی ذمہ داری ہے۔ پہلے جب استنبول میں کانفرنس ہوئی توبھارت کے معاملے پر اختلاف تھا۔ مگر اس بار عالمی طاقتوں نے فریقین کو بات چیت کے لئے راضی کرلیا اور خوشگوار خوابوں اور خیر سگالی کے جذبات کے ساتھ یہ کانفرنس ختم ہوئی، بھارت کی وزیر خارجہ نے اسلام آباد میں شاندار وقت گزارا مگر پاکستان اور بھارت میں کھیلوں بالخصوص کرکٹ کے شیدائی بہت مایوس ہوئے۔
یہ کانفرنس عالمی طاقتوں نے علاقائی تناظر میں اپنے مفادات اور عالمی تجارت کے لئے نئے قوانین بنانے کے لئے بلائی تھی۔ یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ اس کانفرنس کے اخراجات کے لئے دیگر ممالک نے کتنا حصہ دیا ایک طرف تو پاکستان مالیاتی بحران کا شکار ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان کی مدد قرضوں کے ذریعے کر تو رہا ہے مگر وہ قرضے ملکی ترقی اور عوام کی بہبود میں بالکل نظر نہیں آتے۔ پھر آئی ایم ایف جس طریقے سے احکامات جاری کرتارہتا ہے وہ بھی ملکی آزادی اور سالمیت کے لئے پریشان کن مسائل ہیں۔ پھر ایسی کانفرنسوں پر اخراجات کا کوئی حساب نہیں ہے۔ ہمارے ماہر معاشیات، وزیر خزانہ ایسے اخراجات کا تو بالکل ذکرنہیں کرتے۔ مگر دیگر اقدامات کے لئے وہ آئی ایم ایف اور قرضوں کی اہمیت پر دلائل دینے میں دیر بھی نہیں کرتے۔ اب آئی ایم ایف کی طرف سے ٹیکسوں کی مدد میں مقررہ رقم کی وصول یابی بہت ضروری ہے۔ اس ہی وجہ سے 40ارب کے من پسند قسم کے ٹیکس لاگو کردیئے گئے پھر صرف اس پر ہی اکتفا نہیں کیا۔ قومی بچت کے ادارے پر بھی بم گرایا دیا ہے۔ قومی بچت اسکیم میں زیادہ رقم پنشنرز اور بزرگوں کی بچتوں کی ہے یا پھر دفاعی معاملات کے لئے لوگ رقم لگاتے ہیں۔ ایک طرف تو یہ دعویٰ کیا جارہا تھا کہ اب بچت کی اسکیموں میں منافع میں مزید کٹوتی نہیں ہوگی۔ مگر اب وزیر خزانہ کی زبان پر اعتبار کرنا مشکل ہے کیونکہ انہوں نے بچت کی رقوم پر مزید کٹوتی کا حکم بھی فرما دیا ہے ایک طرف مہنگائی کا جن اتنا توانا ہوگیا ہے کہ عام آدمی اس کے شر سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ پھر روپے کی قدر کی کمی کی بات اسٹیٹ بنک کی طرف سے ہورہی ہے ایسے میں بچت کی اسکیموں پر کٹوتی لوگوں کو میاں نوازشریف اور مسلم لیگ (ن) سے مایوس کررہی ہے۔
اس حالیہ کانفرنس ہارٹ آف ایشیا کے ذریعے یہ تاثر بھی ملا کہ اس دفعہ بھارت کے ساتھ مثبت انداز میں بات چیت بھی ہوگی۔ بھارتی وزیر خارجہ کا جو پرجوش استقبال اسلام آباد میں ہوا اور مشیر خارجہ نے جس طریقے سے بھارتی وزیر خارجہ کا سواگت کیااور وزیراعظم پاکستان نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز نے وزیراعظم ہائوس میں جس طریقے سے بھارتی وزیر خارجہ کو اہمیت دی اس میں کچھ ضرورت سے زیادہ ہی جذبہ مروت نظر آیا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ نے تعلقات میں بہتری کی امید تو بہت دلوائی ہے مگر یقین کے ساتھ کوئی بات نہیں کی۔ پھر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ بھارت کے حالیہ حکمران اپنے بیان اور کردار میں بااعتبار نہیں ہیں۔ مشترکہ اعلامیہ میں تذکرہ ضرور ہے کہ پاکستان کے ساتھ تمام معاملات پر گفتگو ہوگی مگر کب اور کن شرائط پر؟ اس دفعہ دفاع کے قومی مشیر جنرل (ر) ناصر جنجوعہ بھی نظر آئے۔اس سے پہلے وہ بھارتی اعلیٰ مشیر سے بنکاک میں ملاقات کرنے کے بعد یقین دہانی حاصل کر چکے تھے کہ بھارت اس کانفرنس میں مثبت سوچ کے ساتھ شرکت کرے گا اور دونوں ملک اپنے اختلافات اپنے طور پر بات چیت کے ذریعے حل کریں گے۔ پاکستان تو دہشت گردی کی جنگ بڑی ہمت سےلڑ رہا ہے مگر بھارت میں وہاں کی نئی سیاسی اشرافیہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف دہشت گردی میں مشغول ہے۔ ابھی چند دن پہلے فرانس میں جو چند منٹ کی خاموش سی ملاقات پاک بھارت وزرا ئے اعظم کے درمیان ہوئی۔ وہ بھی ابھی تک معمہ ہے بھارتی وزیراعظم نے پاکستان کے وزیراعظم کے کان میں کیا کہا اور اس وقت پاکستان کے وزیراعظم کے چہرے پر کیا جذبات تھے پھر جواب میں پاکستانی وزیراعظم نے بھارتی وزیراعظم کو ہاتھوں کی جنبش سے کیا تاثر دیا جن پر مودی سر ہلا کر رہ گئے۔
ایک طرف وزیراعظم اس کانفرنس میں مصروف تھے دوسری طرف اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن پی آئی اے کی نجکاری کے معاملے پر وزیر خزانہ سے ’’صفائی‘‘ لے رہی تھی۔ وزیر خزانہ نے یقین دہانی کروائی کہ اس سلسلے میں وزیراعظم کی رہنمائی میں پی آئی اے کے معاملے پر دوبارہ غور کیا جاسکتا ہے جس پر یقین کرنا مشکل ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ آئی ایم ایف کے لوگوں کو یقین دلا چکے ہیں کہ پی آئی اے کو مقررہ مدت میں غیر سرکاری ادارہ بنا دیا جائے گا اور اس ہی وجہ سے اس کو کارپوریشن سے لمیٹڈ کمپنی میں بدل دیا گیا ہے۔ پی آئی اے ملازمین بھی اس معاملے میں وزیر خزانہ پر اعتبار کرنے پر تیار نہیں۔ پھر پی آئی اے کے ملازمین کے حلقوں میں یہ روایت بھی گردش کررہی ہے کہ جس نے بھی پی ا ٓئی اے کو فروخت کرنے کی کوشش کی ہے وہ اپنی حیثیت کھو دیتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بار کون اپنی حیثیت گنواتا ہے اور یہ قومی ادارہ کس قیمت پر کن لوگوں کو فروخت کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف نئی کمپنی پی آئی اے کو دو ذیلی کمپنیوں میں تقسیم کی خبریں بھی گردش کررہی ہیں۔ ابھی تک نئی کمپنی کے بورڈ اآف ڈائریکٹرز کا اعلان بھی نہیں ہوسکا۔ پھر وزیر خزانہ پہلے ہی ود ہولڈنگ ٹیکس کے معاملہ پر ہٹ دھرمی دکھا چکے ہیں ایک طرف حکومت ترقی اور خوشحالی کے دعوے تو کر رہی ہے مگر عملی طور پر تبدیلی اور انقلاب نظر نہیں آتا۔ بلدیاتی انتخابات نے قوم کو مزید تقسیم کردیا ہے پھر الیکشن کمیشن کا کردار سب سے متنازع نظر آیا ہے۔ نوکر شاہی کے غلبے نے الیکشن کمیشن تو کیا تمام ملک کے نظام کو مفلوج کررکھا ہے نیب کا ادارہ کرپشن کے خلاف تشہیر تو بہت کررہا ہے مگر بے بسی نمایاں ہے ۔کون کون اس پردے کے پیچھے ہے بس ابھی پردے میں رہنے دو۔
تازہ ترین