• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلدیاتی انتخابات کا عمل مکمل ہو گیا ہے اس عمل کے نتائج کے حوالے سے کئی کئی طرح کے تبصرے اور تجزیے ہو رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہر کالم نگار یا مبصر اِن نتائج کو اپنی آنکھ سے دیکھ رہا ہے اور اپنی مرضی کے تجزیے کر رہا ہے لیکن کچھ باتیں ایسی ہیں جن پر بڑی حد تک اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔
سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج تقریباً وہی ہیں جو 2013ء کے عام انتخابات کے تھے۔ جہاں جہاں جو جو جماعت جیتی تھی وہاں اب بھی اسی جماعت نے اکثریت حاصل کی ہے۔ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کو اکثریت حاصل ہو گئی اگرچہ کئی اضلاع میں اس کے مخالفین بھی حکومتیں بنانے میں کامیاب رہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے زبردست کامیابی حاصل کی۔ دیہی سندھ میں پیپلزپارٹی نے میدان مار لیا اور کراچی میں ایم کیو ایم کے قلعے میں کوئی شگاف نہ ڈالا جا سکا۔ مئی 2013ء کے انتخابات کے بعد گزشتہ ڈھائی سالوں کے دوران تیس سے زیادہ ضمنی انتخابات ہو چکے ہیں۔ ان ضمنی انتخابات میں کوئی چونکا دینے والا نتیجہ سامنے نہیں آیا جس سے پی ٹی آئی کو یہ کہنے کا موقع ملتا کہ ’’دیکھو ہم نہ کہتے تھے کہ دھاندلی ہوئی۔‘‘ پھر چاروں صوبوں میں چھائونیوں کے انتخابات ہوئے۔ کہا جا رہا تھا کہ کنٹونمنٹس میں تحریک انصاف کو بالادستی حاصل ہے لیکن یہ نتائج بھی 2013کے مطابق ہی نکلے۔ اسی دوران پی ٹی آئی کے الزامات کےبارے میں قائم کئے گئے عدالتی کمیشن کا فیصلہ آ گیا کہ 2013کے عام انتخابات میں کوئی دھاندلی نہیں ہوئی اور نتائج عوامی مینڈیٹ کی درست ترجمانی کرتے ہیں۔ پھر شروع ہوا بلدیاتی انتخابات کا سلسلہ جس کے نتائج کی مکمل تصویر اب سامنے آ چکی ہے۔ عام خیال یہ تھا کہ پنجاب کا معرکہ خاصا سخت رہے گا۔ پی ٹی آئی آسانی سے مسلم لیگ (ن) کو کامیاب نہ ہونے دے گی۔ اس تاثر کو میڈیا نے بھی بڑی تقویت دی۔ عمران خان بھی دعویٰ کرتے رہے کہ اب دھاندلی نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے پولنگ ا سٹیشن پر فوج اور رینجرز کی تعیناتی کا مطالبہ بھی کیا جو مان لیا گیا۔ خان صاحب نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ پی ٹی آئی کے رضا کار ایک ایک پولنگ اسٹیشن پر موجود رہیں گے اور دھاندلی کا راستہ روکیں گے۔ انہوں نے ڈٹ کر انتخابی مہم بھی چلائی۔ بڑے بڑے جلسے کئے۔ ریلیاں نکالیں۔ اشتہاری مہم بھی بڑے زور و شور سے چلائی۔ لیکن پہلے انتخابی مرحلے سے ہی پتہ چل گیا کہ پنجاب مسلم لیگ (ن) کا قلعہ ہے اور پی ٹی آئی کے لئے اس میں کوئی خاص جگہ نہیں۔ پہلے مرحلے میں سامنے آنے والا رجحان تیسرے مرحلے تک جاری رہا۔ 2013ء میں پی ٹی آئی نے راولپنڈی اور ملتان میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ مبصرین کا خیال تھا کہ شاید پی ٹی آئی ان دو اضلاع میں حکومتیں بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ لیکن نتائج نے سب کو حیران کر دیا۔ راولپنڈی میں تو جھاڑو ہی پھر گیا۔ راولپنڈی چھائونی کی بیس سیٹوں میں مسلم لیگ (ن) پہلے ہی انیس سیٹیں جیت چکی تھی۔ کارپوریشن میں قومی اسمبلی کی دو سیٹیں ہیں۔ 2013میں مسلم لیگ (ن) اپنی یہ دونوں سیٹیں ہار گئی تھی۔ ایک عمران خان اور دوسری پی ٹی آئی کے تعاون سے شیخ رشید احمد نے جیت لی تھی۔ کارپوریشن میں 46 یونین کونسلیں یا وارڈز تھے جن میں سے 45 پر الیکشن ہوئے۔ مسلم لیگ (ن) نے 35 سیٹیں جیت لیں جبکہ پی ٹی آئی صرف دو نشستیں حاصل کر سکی۔ یوں راولپنڈی چھائونی اور شہر میں مجموعی طور پر 65 سیٹوں میں سے 54 مسلم لیگ (ن) کے حصے میں آئیں۔ اسی طرح کے نتائج ملتان میں بھی آئے جسے پی ٹی آئی اپنا گڑھ خیال کرتی تھی۔
کراچی کی صورتحال بھی دلچسپ رہی۔ کچھ عرصے سے ایم کیو ایم شدید دبائو میں ہے۔ یہاں تک کہ عدالت نے الطاف حسین کی تقاریر پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ پولنگ اسٹیشنز میں رینجرز کی تعیناتی کے بعد یہ بھی یقینی تھا کہ کوئی جماعت زور زبردستی نہیں کر سکے گی۔ اس صورتحال میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے ایک انتخابی الائنس قائم کیا۔ مبصرین کا خیال تھا کہ یہ اتحاد زبردست کارکردگی دکھائے گا۔ جماعت اسلامی کی مضبوط تنظیم اور پی ٹی آئی کی مقبولیت مل کر ایم کیو ایم کے قلعے میں بڑا شگاف ڈال دیں گی۔ عمران خان اور سراج الحق نے ایک ٹرک پر کھڑے ہو کر زبردست ریلی نکالی۔ انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو پتہ چلا کہ ایم کیو ایم کا قلعہ آج بھی ایم کیو ایم کا ہے۔ پی ٹی آئی اورجماعت اسلامی اتنی سیٹیں بھی حاصل نہ کر سکیں جتنی کسی شور شرابے کے بغیر مسلم لیگ (ن) نے حاصل کر لیں۔ آج جنوبی کراچی اور ملیر ڈسٹرکٹ میں مسلم لیگ (ن) کو کنگ میکر کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے اور یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ ایک ضلع میں حکومت بھی بنا لے گی۔ جس پیپلزپارٹی کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ بالکل ختم ہو چکی ہے وہ بھی موجود ہے اور اس نے کراچی کے بعض اضلاع میں مناسب کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے یہ بھی سوال پیدا ہواہے کہ کم از کم کراچی کی سیاسی صورتحال کے بارے میں ہمارا میڈیا عوام کی درست رہنمائی کیوں نہیں کر سکا۔ بہت سے چینلز تو یہ تاثر دیتے رہے کہ کراچی میں پھر سے ایک سونامی آ رہا ہے جو ایم کیو ایم کا صفایا کر دے گا۔ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے اتحاد کے بارے میں اتنی مبالغہ آرائی کی گئی کہ لوگوں نے کئی توقعات وابستہ کر لیں۔ عمران خان اور سراج الحق کو تو دعوے کرنے ہی تھے لیکن میڈیا نے ان دعوئوں کو ضرورت سے زیادہ اچھالا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن)، جس نے دونوں جماعتوں کی مجموعی کارکردگی سے بھی زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا، مبصرین اور تجزیہ کاروں کی نظروں سے اوجھل رہی۔ نتائج سامنے آئے تو پتہ چلا کہ صورتحال تو کچھ اور تھی۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ میڈیا کا شور و غل کوئی بہت زیادہ اثر نہیں دکھا سکتا۔ لوگ اپنی رائے خود بناتے ہیں اور پروپیگنڈہ کوئی خاص اثر نہیں دکھا سکتا۔
یہ بات مان لینی چاہیے کہ ان انتخابات کا سب سے بڑا فائدہ ایم کیو ایم کو ہوا۔ انتہائی سخت نگرانی اور نہایت ناسازگار حالات کے باوجود اس نے کراچی کی نمائندگی کا اعزاز حاصل کر لیا۔ وہ یہ داغ دھونے میں بھی کامیاب ہو گئی کہ ماضی میں دھاندلی کر کے جیتتی رہی ہے۔ البتہ اس کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے۔ اب اُسے اپنے عمل سے بھی ثابت کرنا ہو گا کہ اس پر لگائے جانے والے دوسرے الزامات بھی غلط ہیں۔ اگر وہ کراچی کی میئر شپ سنبھال کر بالکل نئی جماعت کے طور پر ابھرتی ہے تو یقیناً اپنی کامیابی کو زیادہ موثر اور دیرپا بنا سکے گی۔
تازہ ترین