• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خطے کی ارضی سیاست میں، وطن عزیز کے لیے بہت کچھ اچھے کی رپورٹ ہے۔ نومبر2011،12ایشیائی ممالک، افغانستان بحران کے حل کے لئے استنبول میں، ہارٹ آف ایشیا کانفرنس منعقد کر تے ہیں۔ کانفرنس کا مقصد، افغانستان کو آزاد حیثیت دلانا اور ترویج، ترقی اور امن کے لئے لائحہ عمل دینا تھا۔ اصول طے ہوگیا کہ کانفرنس کی کامیابی میں فائدہ بھی افغانستان کا اور ناکامی میں نقصان بھی افغانستان کا۔ آخر وہ کیا مجبوری و لاچاری کہ افغانستان بھارت کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر امرتسر کانفرنس کو ناکام بنانے میں مستعد رہا۔ پاکستان کی شرکت یا غیرحاضری دونوں صورتوں میں تنقید تو دیوار پر کنندہ تھی۔ موجودگی میں بھارت اور افغان حکومتوں کی پاکستان پر تنقید افغانستان کے لئے گھاٹے کا سودا جبکہ بھارت کی جگ ہنسائی رہی۔ پرسوں سے اپنا میڈیا، بھارتی حکومت کو آڑے ہاتھوں لے چکا ہے۔
وجہ کچھ بھی رہی ہو، دو رائے نہیں کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے اکتوبر 2001میں افغانستان پر بھرپور حملہ کیا، افغانستان کو فتح کر لیا۔ مکھی کو توپ سے مارا گیا۔ گولہ بارود، ائرپاور، مائٹی بحریہ، غرضیکہ تاریخ انسانی کا مہلک ترین اسلحہ زیر استعمال رہا۔ مطمح نظر دنیا پر اپنی دھاک بٹھانا تھا۔ یکم مئی 2002 صدر بش نے ’’فتح مبین‘‘ کا باقاعدہ نشریاتی اعلان فرمایا۔ پورا افغانستان امریکی تصرف میں آ چکا تھا، شادیانے چارسو۔ پلک جھپکتے سی آئی اے ایجنٹس پر مشتمل کٹھ پتلی حکومت قائم کر ڈالی۔ مت بھولیں، پاکستان دامے درمےقدمے سخنے اپنے تئیں اس بار بھی امریکی جنگ کا ہراول دستہ رہا۔ دانشور جنرل حمید گل (مرحوم) نے امریکی قبضے پر تاریخی تبصرہ فرمایا ’’سانحہ نائن الیون بہانہ، افغانستان ٹھکانہ جبکہ پاکستان، اصل نشانہ ہے‘‘۔ آنے والے دنوں میں یہی ثابت ہوا۔
’’فتح مبین‘‘ کا اصل نشانہ وطن عزیز ہی بنا۔ امریکی بھارتی گٹھ جوڑ پاکستان پرعذاب بن کر نازل ہے۔ وطن عزیز مذہبی منافرت، قومیتی تصادم، لسانی فسادات، دھماکے، دہشت گردی، خودکش حملے، قتل وغارت، آگ، کشت وخوں کی آماجگاہ بن چکا۔ ڈرون ٹائپ تباہی آلہ جات آسمان سے آگ برسانے میں مستعد رہے۔ معصوم شہری، کثیر تعداد میں عورتیں، بچے، مدرسے، مساجد نشانہ بنتے رہے۔ ’’اپنی فوج اپنے لوگوں کے خلاف استعمال کرو‘‘(Do More) کا دبائو بڑھایا گیا۔ افواج پاکستان کے نزدیک جانا پہنچانا دشمن ایک ہی تو تھا، بھارتی فوج کی مغربی سرحدوں پر تعیناتی کا مطلب، بھارت کو کھلی چھٹی۔ دشمن تبدیل، نظریہ تبدیل۔ نئے پاکستان کا ایسا روپ دیکھ کر دم گھٹتا تھا۔ کرہ ارضی پر اگلے سینکڑوں سالوں تک تاحد نگاہ امریکہ ہی امریکہ نظر آرہا تھا۔ سوویت یونین کی شکست و ریخت کے فوراً بعد بھارت یتیم، پلک جھپکتے امریکہ نے گود لے لیا۔ افغانستان میں امریکی قیام و طعام پر، بھارت کو خطے کا تھانیدار بنانے کے جتن ساتھ منسلک تھے۔ جنگ مشرقی سرحدوں سے مغربی سرحدوں پر منتقل ہو گئی۔ ایسی صورتحال کہ گھٹا ٹوپ اندھیرے کی کیفیت۔ امریکہ میڈیا پر آئے دن پاکستان کے کئی حصے بخرے اجاگر رہنے لگے۔ مشیت ایزدی، اللہ کی اپنی اسکیمیں۔ تصور نہ تھا کہ دس سال بعد امریکہ یوں ڈگمگاتا نظر آئے گا؟ آج امریکہ دلدل میں ہے۔ ایک طرف اقتصادی بحران تو دوسری طرف روس و چین بھرپور طریقے سے اقتصادی اور فوجی طاقت کے بل بوتے، ٹکر لے چکے ہیں۔ رہی سہی کسر حالیہ امریکی انتخابات نے پوری کر دی۔ چین اور روس کے ظہور نے خطے میں طاقت کو نیا توازن دیا ہے۔
امریکی موجودگی کا فائدہ، ابھرتی اقتصادی قوت بھارت نے اٹھانے کی ٹھانی۔ پاکستان کو انارکی، افراتفری میں دھکیلنے کے لئے نیٹ ورک بنا لیا۔ اللہ کا کرم یہاں بھی کام آیا۔ نئی تحریک آزادی کشمیر آسمانی لائٹ بن کر بھارت پر گر چکی۔ آج بھسم کر رہی ہے۔ بھارت کی کوشش کہ کسی طریقے سے کشمیر تحریک کو دہشت گردی سے جوڑا جائے تاکہ پاکستان پر مستقل مدعا قائم رہے۔ عرض اتنی کہ نئی ارضی سیاست جو پچھلے کئی سالوں سے پھونک پھونک کر انگڑائیاں لے رہی تھی، اب بجلی کوند ماند کروٹ لے چکی۔ آج دو طاقت بلاکس کا وجود ہے۔ چین، روس، پاکستان، ترکی دیدہ دلیری کے ساتھ باہمی منسلک ہو چکے ہیں۔ قوی امکان کہ ایران اور سعودی عرب کسی لمحے اس گروپ میں جگہ بنا لیں گے۔ گریٹر ایشیا، نئی عالمی طاقت کے طور ابھرنے کو ہے۔ اقتصادی تعاون کا نیا نظام گریٹر ایشیا کو پوری دنیا کے ساتھ جوڑ رہا ہے۔ 2001جب افغانستان میں امریکہ100 برس کا سامان لے کر پہنچا تو ورلڈ آرڈر ڈاکٹرائن کے عین مطابق تھا۔ بظاہر افغانستان پر قبضہ،عملاً پاکستان کو نیست ونابود کرنا اور بھارت کو ساتھ رکھ کر ایشیا پر قبضہ کرنا مقصود تھا۔ چین روس کو ابھرنے سے روکنا اصل مطمح نظر تھا۔ آج امریکہ خود بے یقینی کے گرداب میں گھر چکا ہے۔ امریکی سامان پیک ہو رہا ہے۔ دم رخصت قریب۔
چین، روس، ایران، پاکستان اور ترکی میں گھرے افغانستان میں پھنسے امریکہ کو، محفوظ ایگزٹ یہی ممالک یعنی کہ ہارٹ آف ایشیا، دے سکتے ہیں۔ 5دن پہلے افغانستان میں امریکی اور اتحادی فوج کے سربراہ جنرل جان نکلسن نے پینٹاگون کو بریفنگ میں کوئی نیا انکشاف نہیں کیا کہ ’’روس، ایران اور پاکستان مل کر افغانستان میں ہماری کوششیں ناکام بنا رہے ہیں، طالبان کو مضبوط کرنے میں یکسو ہیں‘‘۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ، کئی ہفتے پہلے روس کھلے عام، طالبان کی داعش کے خلاف مہم کو موثر اور مخلص قرار دے چکا ہے۔ چنانچہ امریکہ کا اپنی ناکامی کا ملبہ روس، پاکستان، ایران پرڈالنا بنتا ہے۔
بھائی لوگو! پاکستان اکیلا کیسے رہ گیا؟ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس پر ہمارے ملک میں ایسا واویلا بالکل فضول ہے۔ پہلی بات کانفرنس نے صرف اور صرف افغانستان کا نفع نقصان کرنا تھا۔ ایسے فورم پر بھارت اور افغانستان کا پاکستان کو زیرتنقید لانا خود افغانستان کا نقصان تھا۔ پیغام ایک ہی ملا کہ بھارت اور افغانستان ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کو خود سے ناکام اور متنازع بنا گئے۔
افغان غنی اور بھارتی’’موذی‘‘ یہ کیوں بھول گئے کہ 26 اپریل2013 الماتی قازقستان میں ہارٹ آف ایشیا کے تیسرے سیشن میں افغان پیکج کا جو میکنزم طے ہوا تھا۔ اس کی پہلی ترجیح، افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا جبکہ دوسری ترجیح افغانستان کو ہارٹ آف ایشیا کے باقی13 ممالک سے بذریعہ اقتصادی راہداری جوڑنا تھا۔ ایسی ترجیحات بھلا امریکہ اور بھارت کے وارے میں کیوں؟ چنانچہ چند ماہ پہلے یو این کی جنرل اسمبلی سیشن کے ایک طرف امریکہ، بھارت اور افغانستان کا نیا سہ فریقی گروپ تشکیل دینا بنتا تھا۔ اس Trilateralروپ کا مطلب ’’ہارٹ آف ایشیا‘‘ گروپ کو غیر موثر بنانا تھا۔ افغانستان کا ہی نقصان، آزادی نہ ترقی۔ نئی صورتحال کو جانچتے ہوئے چین، روس اور پاکستان نے مقابلے میں افغانستان پر ایک نئے بلا ک کی طرف پیشرفت کی ہے۔ چند دنوں میں اس گروپ کی پہلی نشست، روس میں جمنے والی ہے۔ پاکستان پچھلے 15سال سے انتہائی نامساعد حالات میں بھی اپنے پتے چابکدستی سے کھیل رہا ہے۔ سارا کریڈٹ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو جا تا ہے۔ سلام! پاک فوج۔ وطنی صورتحال یقینی طور پر بہتری کی طرف گامزن ہے۔ پاکستان تنہائی کا شکار نہیں، بلکہ نئے پاور بلاک میں اہم مقام پر فائز ہے۔ آج پاکستان کا نقصان روس، چین، ایران کا نقصان بن چکا ہے۔ کیسے اور کیوں برداشت رہے گا۔ کانفرنس میں جناب سرتاج عزیز کی تقریر پر قومی حلقوں کی تنقید جائز ہے۔ مشیر خارجہ کا اپنی تقریر میں مسئلہ کشمیر کو افغان پیس پراسیس کاحصہ بنانا تھا۔ مزید براں دہشت گردی کے عفریت کے ساتھ بھارتی ریاستی دہشت گردی کو بھی جوڑنا تھا، ناکام رہے۔ افسوس رہے گا۔ کلام آخر، کلام مضبوط، ’’آنے والے دن، پاکستان کے بارے میںبہت کچھ اچھا کی رپورٹ رکھتے ہیں‘‘،ان شاء اللہ۔





.
تازہ ترین