• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹیکساس کی ایک جیل میں 37سالہ’’ کارلا فے ٹکر ‘‘ کو موت کا انجکشن لگایا گیا، ڈاکٹر نے نبض دیکھی اور موت کا اعلان کرتے ہوئے کہا " ایسی پرسکون موت میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی" کارلا کی ماں دھندہ کرنے والی عورت تھی، بچپن ہی سے وہ اپنی ماں کے ساتھ کمپنی کرنے کی وجہ سے نشے پر لگ گئی پھر آہستہ آہستہ ماں کے نقش قدم پر چلتے چلتے وہ بھی ’’ کال گرل ‘‘ بن گئی 10 سال بعد اْسے خیال آیا کہ یہ کام ٹھیک نہیں اُس نے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ گاڑیاں چھیننے کا پروگرام بنایا،ایک واردات میں مزاحمت ہوئی کارلا اور اس کے بوائے فرینڈ نے مزاحمت کرنے والے امریکی جوڑے کو گھبراہٹ میں قتل کر دیا، کچھ دنوں بعد دونوں پکڑے گئے اور عدالت نے سزائے موت سنا دی، اپیلوں اور عدالتوں کے چکروں میں کافی عرصہ گزرتاگیا، اس دوران جیل کے عملے نے دیکھا کہ کارلا نے اچانک سب کچھ چھوڑ کرمذہبی تعلیم لینا شروع کر دی،اُس نے بد زبانی چھوڑ دی اور اپنا اخلاق اچھا کر لیا، وہ اکثر اپنے سیل میں مذہبی کتابیں پڑھتی رہتی۔ ایک سال بعد وہ پُر تاثیر لہجے کی مبلغہ بن گئی، اُس نے جیل میں تبلیغ شروع کر دی اور بہت سےقیدیوں کو سیدھے راستے پر لے آئی، کارلا کی تبلیغ جیل میں روحانی انقلاب لے آئی تھی، جیل کی اس تبدیلی کی خبر جب میڈیا کو پہنچی تو وہ جیل پر ٹوٹ پڑا، پھر کیا تھاہر اخبار کارلا کی شہ سرخیوں سے بھر گیا۔کارلا کی تصویر لئے ہر کوئی اُس کی رہائی کے لئے ہونے والے مظاہروں میں شامل ہوتا گیا، حقوق انسانی کی تنظیموں نے امریکہ میں " کارلا بچاؤ" تحریک شروع کر دی اور احتجاج یہاں تک بڑھا کہ زندگی میں پہلی بار پوپ جان پال نے عدالت کوکارلا کی سزائے موت ختم کرنے کی باقاعدہ درخواست دے دی لیکن عدالت نے وہ درخواست ٹھکرا دی سزائے موت سے پندرہ دن قبل صحافی کنگ لیری نے ’’ کارلا ‘‘ کا جیل میںانٹرویو کیا جس میںلیری نے کارلا سے پوچھا " تمہیں موت کا خوف نہیں "، کارلا نے پر سکون انداز میں جواب دیا " نہیں بلکہ میں تواس رب سےملنا چاہتی ہوں جس نے میری زندگی بدل دی ہے" کارلا کے لئے رحم کی اپیل "ٹیکساس بورڈ آف پارڈن اینڈ پیرول" کے سامنے پیش ہوئی، معافی سے انکارہوا، فیصلہ سن کر عوام ٹیکساس کے گورنر کے گھرکے سامنے احتجاج کرنے لگے، امریکہ کے سب سے بڑے پادری’’ جیکی جیکسن ‘‘نے بھی کارلا کی حمایت کی، گورنر نےفیصلہ دیا اور کہاکہ مجھے کارلا اور پادری جیکی جیکسن سے ہمدردی ہے لیکن مجھے گورنر قانون پر عمل کرانے کے لئے بنایا گیا ہے، کارلااگر فرشتہ ہے تو بھی قتل کی سزا معاف نہیں ہو سکتی،موت سے دو روز قبل کارلا کی رحم کی اپیل سپریم کورٹ پہنچی تو جج نے یہ کہہ کر درخواست واپس کر دی کہ" اگر آج پوری دُنیا بھی کہے کہ یہ عورت کارلا نہیں کوئی مقدس ہستی ہے تو بھی قانون میں اس کے لئے رعایت نہیں جس نے قتل کرتے ہوئے مقتولین کو رعایت نہیں دی تھی،ہم خدا کے سامنے اْن دو لاشوں کے جوابدہ ہیں۔ جب میں یہ سوچتاہوں کہ وہ کیا معجزہ ہے جو امریکہ جیسے بیمار اور سڑے ہوئے معاشرے کو زندہ رکھے ہوئے ہے تو مجھے حضرت علیؓ کا وہ قول یاد آ جاتا ہے کہ " معاشرے کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں لیکن نا انصافی کے ساتھ نہیں۔پاکستان کی ماڈل ’’ ایان علی ‘‘ لاکھوں ڈالرز کے ساتھ ائیر پورٹ پر پکڑی جاتی ہے اُس کے خلاف مقدمہ بنتا ہے،مقدمے کی سماعت شروع ہوتی ہے، جس افسر نے ایان علی کو گرفتار کیا تھا اُس کی لاش کمرے سے ملتی ہے، گرفتار کرنے والا دُنیا میں نہیں اور ایان علی جیل میں نہیں،پاکستان کی بڑی ہستیاں ایان علی کو بے گناہ ثابت کرنے پر ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں، ایان علی سے برآمد ہونے والے ڈالرز کس کے تھے ؟پتا ہونے کے باوجود کوئی گرفتاری نہیں، پاکستان کاقانون بیمار ہے یا ملزم صحت مند ؟ 4سال گزر جانے کے باوجود شاہ زیب قتل کیس میں سزا یافتہ شاہ رخ جتوئی و دیگر پرفردجرم عائدنہیں ہوسکی۔ شاہ رخ جتوئی کو جون 2013کو موت کی سزا سنائی گئی۔.عدالت نے مجرم کو طلب کیا لیکن جیل حکام نے سیکورٹی کے پیش نظر ملزم کو عدالت میں پیش نہ کیا۔ مقدمہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں منتقل ہوا فاضل عدالت نے مقدمہ چلانے سے انکار کردیا، انکار پر مقدمہ دوسری عدالت میں منتقل ہواوہاں جج نے اپنی ذاتی وجوہات پر نوکری سے استعفیٰ دیدیا۔ متعدد بار جیل میں مقدمے کی سماعت ہوئی لیکن ابھی تک اس کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ہلاک ہونے والوں پر گولیاںچلانے والے کون تھے، فائرنگ کے احکامات کس نے دئیے کوئی نہیں جانتا،لاہور میں ایک ماں اپنے جوان بیٹے کے قتل کا مقدمہ یہ کہہ کر واپس لے لیتی ہے کہ میری تین بیٹیاں جوان ہیں۔افسوس کہ مہنگائی کے ستائے والدین اپنے بچوں کو فروخت کرنا چاہتے ہیں،عزتیں لُٹ رہی ہیں، غربت کا یہ عالم کہ جسم کے اعضاء بیچنے کا کاروبار عروج پر ہے،قانون سے بالاتر ہو کر پنچائتیں اپنے غلط فیصلےسُنا رہی ہیں،کرپشن کی شرح اتنی زیادہ کہ جیسے یہ ثواب کا کام ہو،غریب کے لئے سزائیں اور امیر کو آسائشیں،امجد صابری قوال کے قاتل پکڑے گئے انہیں سزا کب ملے گی ؟ اسٹیج اداکارہ قسمت بیگ کے قاتل پولیس کی حراست میں ہیں چند دنوں بعد وہ یقیناََرہا ہو جائیں گے، کتنے دہشت گرد اور ماؤں کی گودیں اُجاڑنے والے جیلوں میں ہیں لیکن انہیں سزا دینے میں تاخیر،اتنی سست روی کیوں ؟ کیا کسی کا ڈر ہے ؟ کہاں ہیں ہمارے حکمران ؟ کیاہمارے حکمرانوں کو پیارے نبی ﷺ اور شیر خدا حضرت علی ؓکے وہ اقوال یاد نہیں جن سے اچھا معاشرہ ترتیب دینے کا سبق ملتا ہے؟ میں اپنے حکمرانوں کو مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ دُنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز وہاں چائنا کی سرمایہ کاری نہیں بلکہ غریب اور امیر کے لئے یکساں انصاف اور قانون کی بالا دستی ہے۔





.
تازہ ترین