• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آخر سارے جہاں سے اچھا پاک بھارت کیوں نہ ہو؟ دشنام طرازیوں اور طعنہ زنیوں میں رکھا کیا ہے؟ ایک دوسرے کا منہ کالا کرنے سے جگ ہنسائی تو ہو سکتی ہے، معاملہ بننے والا نہیں۔ اور معاملہ بگاڑنے والے برصغیر کو آگ میں دھکیلنے سے باز آنے سے رہے۔ ایسے میں ہر دو وزرائے اعظم کی پیرس میں ملاقات ہونی تھی کہ اشاروں اشاروں میں بات چل نکلی۔ اور معاملہ وہیں سے شروع ہوا جو اوفا (روس) میں طے پایا تھا۔ اس بار چھپ چھپا کر بنکاک میں، جہاں سلامتی کے مشیروں نے دہشت گردی کے باہمی الزامات پر ایک دوسرے کے خوب لتے لئے۔ لیکن نتیجہ اچھا نکلا۔ بھارت کی اِچھا پوری ہوئی کہ دہشت گردی کے ہوتے بات چیت نہ ہوگی اور پاکستان کی دیرینہ خواہش کہ کشمیر بِنا معاملہ چلنے والا نہیں۔ بھلا ہو اسلام آباد میں افغانستان پر قلب ایشیا کانفرنس کے انعقاد کے حسنِ اتفاق کا کہ بھارتی وزیرِ خارجہ شریمتی سشما سوراج شیرینی ٔ گفتار لئے آن پہنچیں۔ غالباً، سلامتی کے ذمہ داروں کے مابین بنکاک میں معاملات طے ہو چکے تھے اور پاکستان کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز اور سشما سوراج نے دو طرفہ بیان کے ذریعے ہمہ طرفہ معاملات (Comprehensive) پر بات چیت کی گاڑی کو چلنے کے لئے سبز جھنڈی دکھائی۔ اب کیسے ہوا، کس نے کرایا اور کیوں ہوا، کے سوا ہمارے دونوں ملکوں کی ٹیلی وژن ا سکرینوں پر زوردارمباحثوں کے علاوہ کیا رہا جو وہ نقص نکال پاتے۔
پاک بھارت بات چیت اب ہر مسئلے اور ہر مُدے پر ہوگی اور مبینہ پاک دہشت گردی یا مبینہ بھارتی مداخلت کو رنگ میں بھنگ ڈالنے کی اجازت نہ ہوگی۔ یہ کیسے ہوگا؟ سلامتی کے ادارے جانیں۔ پاکستان نے ممبئی دہشت گردی (جس کی سبھی مذمت کرتے ہیں) کے مقدمے کی کارروائی تیز کرنے کی یقین دہانی تو کرا دی ہے، لیکن ہمارے نظامِ انصاف اور پراسیکیوشن کا جو حال ہے اُس کے پیشِ نظر کچھ کہنا محال ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے جمود ویسے ہی ٹوٹا ہے اور بات چیت ویسے ہی شروع ہوئی ہے جس طرح وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان چھ جنوری کے اسلام آباد بیان سے شروع ہوئی تھی۔ اِس بیان میں جنرل مشرف نے سرحد پار انگشت زنی سے پرہیز کرنے کی قسم کھائی تھی۔ تب معاملہ پسِ پردہ ایسا اچھا چلا تھا کہ پہلے واجپائی حکومت اور بعد ازاں منموہن سنگھ حکومت نے کشمیر کے تنازع کو حل کرنے کے لئے مشرف فارمولے پر تقریباً مکمل اتفاق کر لیا تھا۔ منموہن سنگھ کے میڈیا ایڈوائزر کی کتاب (حادثاتی وزیراعظم) میں یہی لکھا ہے کہ منموہن سنگھ کشمیر پر ہونے والے سمجھوتے کو ’’مشرف فارمولے‘‘ کا نام دینے پر بھی تیار تھے۔ اور مشرف کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اپنی کتاب (نہ فاختہ، نہ عقاب) میں کشمیر پر ہونے والے سمجھوتے کی تقریباً تمام تفصیلات دے دی ہیں۔ برا ہو مشرف کی ایمرجنسی کا اور اس کے نتیجے میں احتجاج کا کہ بھارتی وزیر اعظم کشمیر کے معاہدے پر دستخط کرنے اسلام آباد نہ آ سکے اور معاملہ پھر سے کہیں کاغذوں میں گم ہو گیا۔پاک بھارت بات چیت کی تاریخ اِس قباحت سے پٹی پڑی ہے کہ بات چلتی ہے اور نتیجے تک پہنچتے پہنچتے کچھ انہونی ہوتی ہے اور ٹوٹ جاتی ہے۔ پھر بات شروع کی یا کروائی جاتی ہے، لیکن وہاں سے شروع نہیں کی جاتی جہاں سے ٹوٹی تھی۔ کشمیر ہو یا سیاچن یا پھر سرکریک، اِن پر ہونے والی بات چیت نتیجہ خیز ہو چکی ہے۔ اب فریقین دُم پھنسائے بیٹھے رہیں تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔ شاید متحارب قومی مخاصمتیں برقرار رکھے بغیر ہماری قومی سلامتی کا شکم نہیں بھرتا۔ اور جب بات شروع ہوئی ہے تو کچھ اسباق لے لئے جائیں تاکہ وہی پرانے مسئلے اور وہی پرانے ڈھنگ سے ہم ایک اور مذاکراتی دور کا ستیاناس نہ کردیں1۔ بات چیت ہر معاملے پر ہو اور بلاتعطل۔ 2۔ ہر مُدے پر بات وہاں سے شروع ہو جہاں گزشتہ بار ٹوٹی یا رُکی تھی۔ خواہ اس کا محرک کوئی دوسری حکومت تھی جو آپ کو بھلے پسند نہ ہو۔ 3۔گمبھیر مسئلوں پر بات چیت مسلسل ہو اور نتیجہ خیز بھی۔ 4۔ وہ تمام معاملات جو آسانی سے طے کئے جا سکتے ہیں کو فوری طے کر لیا جائے تاکہ بڑے بریک تھرو کا انتظار کئے بغیر دو طرفہ منفعت بخش اور اچھے تعلقات کا ماحول اور حاصل ثمریاب ہو اور مشکل مسئلوں کی گمبھیرتا بھی کم ہو سکے۔ 5۔ دونوں وزرائے اعظم کے جنوبی اور وسطی ایشیا کو جوڑنے والے وژن پر ٹھوس پیش رفت کی جائے، جیسے ترکمانستان گیس پائپ لائن، کاسا 1000 کا بجلی کی سپلائی کا منصوبہ، تجارت کی بلاروک ٹوک زمینی راہداریوں کی بحالی اور سارک کے ناطے جنوبی ایشیا کی معاشی ایکتا کے سمجھوتے پر عمل درآمد اور باہمی تجارت کے مجوزہ معاہدے پر دستخط۔ 6۔اس دوران گرم و سرد فائر بندی اور لوگوں کی آمد و رفت میں آسانی۔
پاک بھارت مذاکرات کا حالیہ دور افغانستان پر ہونے والی کانفرنس کے جلو میں ہوا۔ اس کانفرنس کے پہلو بہ پہلو پاک افغان غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے امریکہ، چین، پاکستان اور افغانستان کے نمائندوں پر مشتمل نگران کمیٹی کا بنایا جانا بڑی پیش رفت ہے۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی کا دل موہنے کے لئے پرشکوہ استقبال ہی نہیں ہوا، بلکہ حقانی گروپ کے ناطے سے کچھ یقین دہانیاں بھی کرائی گئیں تاکہ افغانستان میں خلفشار کم ہو اور اشرف غنی پر پاکستان مخالف عناصر کا دبائو بھی کم۔ کانفرنس نے افغان طالبان اور حکومت کے مابین بات چیت کی بحالی پہ اصرار کر کے پاکستان کے مفاہمتی کردار کو تقویت بخشی ہے۔ اس کانفرنس کا زور دو نکات پر رہا۔ اوّل سلامتی کو درپیش چیلنج اور علاقائی رسل و رسائل کی جڑت۔ مطلب یہ کہ خطے کے ممالک افغانستان کی سلامتی کے لئے یکجا ہوں اور وسطی و جنوبی ایشیا کی زمینی شاہراہوں، بشمول توانائی و تجارت کے رابطوں کو حقیقی شکل دی جائے۔ ایسے میں سشما سوراج کا یہ کہنا کہ قلب ایشیاء (یعنی افغانستان) کیسے چلے گا اگر دل کو خون بہم پہنچانے والی رگیں بند رکھی جائیں گی۔ افغان صدر اور بھارتی وزیرِ خارجہ کا موقف اِس معاملے پر ایک ہی تھا اور باقی شرکا بشمول چین کا اس پر اتفاق تھا کہ پاکستان افغانستان کو بھارت تک تجارتی راہ داری دے اور افغانستان پاکستان کی وسطی ایشیاء تک رسائی میں معاون ہو۔ سودا مہنگا نہیں! اس سے باہم انحصاری بڑھے گی جس سے جنگ و جدل کے راستے بند اور خوشحالی کی شاہراہیں کھلیں گی۔ افغانستان پر بھی پاکستان کو اس مخمصے سے نکلنا ہوگا کہ افغان طالبان کو بات چیت کے لئے آمادہ کرے اور انہیں افغانستان میں کارروائیوں کےلئےپاک سرزمین کے استعمال سے روکے۔ بظاہر اس میں تضاد لگتا ہے، لیکن ایسا ہے نہیں۔ بات چیت پر افغان طالبان کو راضی کرنے کے لئےانہیں کچھ سہولتیں تو دینی پڑیں گی اور بات چیت کی کامیابی اور اچھے پاک افغان تعلقات کے لئے ایسے عناصر کو روکنا ہوگا جو جارحانہ کارروائیاں کرتے ہیں۔ یہاں یہ جتلانا ضروری ہے کہ بھارت کو پاکستان کی سلامتی کے ناطے افغانستان سے متعلق پاک تشویش کو سراہنا ہوگا اور پاکستان کو بھارت کے افغان معیشت کے حوالے سے کردار پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔پاک بھارت تعلقات ہوں یا پاک افغان تعلقات، پاکستان کے لئے یہ اس کی مشرقی و مغربی سرحدوں کی سلامتی کے لئے نہایت کلیدی ہیں۔ اور انہیں ہر حال میں بہتر کرنے میں ہی فلاح ہے۔ جو لوگ شر کو برکت سمجھتے ہیں وہ فلاح کی جانب آنے سے رہے۔ اُن کو اللہ اور اُس کے رسول کی ہدایت ہو کہ اسلام امن و سلامتی کا قائل اور فتنہ و فساد سے عاجز۔ اس عاجز کی یہ عاجزانہ دُعا قبول ہو کہ بات چیت جاری رہے، اور نتیجہ خیز بھی، اسی میں سب کی فلاح ہے! (آمین)
تازہ ترین