• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دسمبر پھر لوٹ آیا ہے، ہاں وہی خون آلود دسمبر اور اس کی منحوس 16تاریخ جس نے پوری قوم کو خون کے آنسو رلادئیے تھے۔ قیامت کی وہ ساعتیں ایک بار پھر زخموں کو ادھیڑنے آرہی ہیں ،دلدوز مناظر خاک و خون میں لت پت جگر گوشوں کی یادوں سے ضبط کے بندھن پھر ٹوٹنے کو ہیں۔ کلیجے پھر منہ کو آنے کو ہیں۔ ہر سو زردی چھانے کو ہے،شام غریباں آئی چاہتی ہے۔ دل اسی طرح پھٹنے کو ہے جیسے فیض احمد فیض نے کہا تھا،
درد اتنا تھا کہ اس رات دل وحشی نے
ہر رگ جاں سے الجھنا چاہا
ہر بن مو سے ٹپکنا چاہا
اور کہیں دور تیرے صحن میں گویا
پتا پتا میرے افسردہ لہو میں دھل کر
حسن مہتاب سے آزردہ نظر آنے لگا
میرے ویرانہ تن میں گویا
سارے دکھتے ہوئے ریشوں کی تنابیں کھل کر
سلسلہ وار پتہ دینے لگیں
رخصت قافلہ شوق کی تیاری کا
اور جب یاد کی بجھتی ہوئی شمعوں میں نظر آیا کہیں
ایک پل آخری لمحہ تیری دلداری کا
درد اتنا تھا کہ اس سے بھی گزرنا چاہا
ہم نے چاہا بھی مگر دل نہ ٹھہرنا چاہا
آہ 16 دسمبر ،کوئی کیسے بھول سکتا ہے وہ دن جب مائوں نے سخت سردی میں اپنے بہن بھائیوں سے لپٹ کر سوئے ہوئے جگر گوشوں کے تن سے لحاف اتارا تھا ، آنکھیں موندیں ،ماں بس تھوڑی دیر اور سو لینے دو کی فرمائش کرنے والے بچوں کو کیسے لاڈ کر کے اٹھایا تھا،کتنے پیار سے انہیں اپنے ہاتھوں سے اسکول جانے کے لئے تیار کیا تھا،ناشتہ نہ کرنے کی ضد کرنے والے لاڈلے کو صرف ایک گلاس دودھ پلانے کے لئے کتنے جتن کئے تھے،پیار سے بیٹے کو ڈانٹتے ہوئے پورے گھر میں بکھری کتابوں کو اکھٹا کر کے کیسے اسکول بیگ میں ڈالا تھا، وزنی بیگ کو مدد کر کے کیسے خود معصوم کے ناتواں کندھوں پر ڈالا تھا اور کیسے اس کی پیشانی پر بوسہ دے کر اسے آرمی پبلک اسکول رخصت کیا تھا،وہ درسگاہ جسے درندوں نے معصوموں کی قتل گاہ بنا دیا، سفاک دہشت گردوں نے پھول جیسے بچوں کو بارود سے بھون ڈالا، وحشیوں نے شمع کی صورت زندگی کی دعا مانگنے والوں کی حیات کے چراغ ہی گل کر دئیے۔ مادر وطن کا دفاع کرنے والوں سے نسبت ہونے پر سفاکیت کی وہ انتہا کی گئی کہ یزیدیت بھی شرما جائے،سیاہی کے داغوں سے بچانے والے بچوں کے اجلے یونیفارم کو انہی کے خون سے ترکر دیا گیا۔ ظالمو نے یونیفارم کے میلا ہونے کا بہانہ بنانے کے لئے بھی سانسیں نہ چھوڑیں
ماں، یونیفارم پر تھوڑی سیاہی گر گئی، ڈانٹنا مت
ماں، یونیفارم لال ہو گیا ہے خون بہہ کر، رونا مت
آہ 16 دسمبر ،جب اپنے بچوں کوبچانے کے لئے پرنسپل اور اساتذہ موت کے راستے میں دیوار بن گئیں تو ظالمان نے انہیں بھی اپنے ظلم کی بھینٹ چڑھا دیا۔ جاہلیت کے پیروکاروں نے بچوں کو اپنی آغوش میں چھپانے والی اساتذہ کی گود کو ہی گور میں تبدیل کر دیا۔ بربریت کی وہ داستان رقم کی کہ قوم کو روشن مستقبل دینے والی ٹیچر کو زندہ جلا دیا۔ آرمی پبلک اسکول پشاورمیں گھنٹوں موت رقص کرتی رہی اور جب وحشت ،بربریت اور سفاکیت کا یہ رقص تھما تو بارود سے چھلنی ننھے جسم، خون آلود بیگ ،کٹی پھٹی کتابیں، ٹوٹے قلم،بکھرے جوتے،گرد آلود پانی کی بوتلیں اور چند سسکیاں ڈھائی جانے والی قیامت کی گواہی دے رہی تھیں۔ اپنے جگر گوشوں کی تلاش میں دیوانہ وار بھاگتے والدین اپنی چیخوں میں بھی ان کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ 132 بچے اور 9 اساتذہ شہادت کا درجہ پا کر امر ہو چکے تھے۔ ناپاک ہاتھوں سے داغی جانے والی گولیوں کو اپنے پاک جسموں میں سمو کر ان بچوں اور اساتذہ نے دہشت گردی کے آگے وہ بند باندھ دیا کہ آج شمالی وزیرستان سے کراچی تک قائم ہونے والا امن انہی کی بے مثال قربانی کی دین ہے۔ آئیں 16 دسمبر کو آرمی پبلک اسکول کے ان شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنےکے لئے دہشت گردی کے خلاف اسی اتحاد کو برقرار رکھنے کے عزم کی تجدید کریں جس کی خاطر انہوں نے اپنا آپ وار دیا۔ ملک بھر میں دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن میں کسی قسم کی تفریق پید انہ ہونے دیں۔ آخر میں انہی شہید بچوں کے پیغام سے چند اشعار۔
بتا کیا پوچھتا ہے وہ کتابوں میں ملوں گا میں
کئےماں سے ہیں جو میں نے کہ وعدوں میں ملوں گا میں
میں آنے والا کل ہوں وہ مجھے کیوں آج مارے گا
یہ اس کا وہم ہوگا کہ وہ ایسے خواب مارے گا
تمہارا خون ہوں ناں اس لئے اچھا لڑا ہوں میں
بتا آیا ہوں دشمن کو کہ اس سے تو بڑا ہوں میں
میں ایسی قوم سے ہوں جس کے وہ بچوں سے ڈرتا ہے
بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے
تازہ ترین