• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حفیظ جالندھری نے کیا خوب کہا تھا؎
تعمیر و تشکیل فن میں جو بھی حفیظ کا حصہ ہے
نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں
بعینہٖ پاکستانی سیاست پر نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے سے بھٹو کی کرشماتی شخصیت چھائی ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے قائدین ہی نہیں بلکہ اس پارٹی کے نظریاتی و سیاسی مخالفین بھی عوامی سیاست و خطابت کے بھٹو سحر سے باہر نہیں نکل سکے۔نصف صدی پرانا جادو آج بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے اورکسی نہ کسی شکل میں یہاں کی سیاست پر راج کررہا ہے۔ 1967ءمیں جب پاکستان پیپلز پارٹی کی لاہور میں تاسیس ہوئی تو ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر کئی عالی دماغ اکھٹے ہوئے جنہوں نے پاکستان کی معاشی و سماجی صورتحال کے تناظر میں نوزائیدہ پارٹی کو جو منشور یا سلوگن دیا وہ یہ تھا کہ اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہےاور سوشلزم ہماری معیشت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1970کے انتخابات کے لئے جو نعرہ لگایا وہ بڑا پرکشش تھا۔ مانگتا ہے ہر انسان:روٹی ،کپڑا اور مکان بھٹو لوگوں کو روٹی کپڑا اور مکان تو نہ دے سکے مگراس نے جو کچھ عوام اور پاکستان کو دیا وہ بھٹو کے نادان دوست اور ان کے جذباتی وارث ان سے چھین لینا چاہتے ہیں۔ بھٹو نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو1973ءکا اسلامی ،جمہوری اور فلاحی دستور دیا، بھٹو نے آئینی تقاضوں کے مطابق مزید قانون سازی کرکے ملک سے شراب نوشی، جوئے بازی اور جسم فروشی کو نہ صرف ممنوع قراردیا بلکہ ان احکامات پر عملدرآمد بھی کروایا ۔ بھٹو نے عوامی امنگوں کا احترام کرتے ہوئے جمعہ کی ہفتہ وار تعطیل رائج کردی۔ آج پیپلز پارٹی کے قمرزمان کائرہ جیسے سنجیدہ اور مخلص قائد کہتے ہیں کہ بھٹو نے یہ اسلامی احکامات علماء کے دبائو پر نافذ کئے تھے۔ کل پیپلز پارٹی کا کوئی جیالا اٹھ کر یہ بھی کہہ دے گا کہ ایٹم بم کی بنیاد بھٹو نے نہیں رکھی تھی۔ بھٹو نے جمعہ کی چھٹی کا اعلان کرکے ایک طرف عوام کے دل جیت لئےاوردوسری طرف سارے عالم اسلام کے ساتھ ا ظہار یکجہتی کیا جہاں افغانستان سے لے کر مراکش تک سوائے اکادکا ممالک کے جمعہ کے روز ہی ہفتہ وار تعطیل کی جاتی ہے،اگر اس گھر کو گھر کے چراغ سے آگ لگ گئی اور بھٹو سے اسلامی آئین ، اسلامی احکاما ت اور’’اسلامی بم‘‘ کا اعزاز چھین لیا گیا تو ان کے پلے کیا رہے گا؟
بھٹو سے بڑھ کر کون جانتا تھا کہ؎
یہ بادہ جام و مینا تو سب دلاسے ہیں
تبھی تو اس نے اپنے دور حکومت کے آخری ایام میں اس آفت جاں پر ملک بھر میں پابندی عائد کردی۔ آج اسی بھٹو کے اپنے صوبے میں اسی کی اپنی پارٹی نے ہائی کورٹ کے احکامات کی علی الاعلان خلاف ورزی کرتے ہوئے شراب نوشی اور شراب فروشی کی کھلے بندوں اجازت دے دی ہے۔ کیا اس پر بھٹو کی روح تڑپی نہ ہوگی۔ اس وقت ترقی کے اعتبار سے صوبہ سندھ سب سے زیادہ پسماندہ اور کرپشن کے اعتبار سے پہلے نمبر پر ہے۔ آج بلاول بھٹو کس سیکولر پاکستان کی بات کررہے ہیں۔ بھٹو تو سیکولر پاکستان نہ چاہتے تھے، اگرچہ سابق صدر نے بلاول بھٹو کے لئے لوٹی ہوئی دولت سے قارون کا خزانہ جمع کرلیا ہےمگر آج جو خزانہ بلاول بھٹو کے کام آرہا ہے وہ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کا جمع کیا ہوا سیاسی خزانہ ہے۔بلاول بھٹو کے سیاسی اتالیق اس کے منہ میں لبرل اور سیکولر پاکستان کے الفاظ ڈال کر اسے بھٹو کے سیاسی ترکے سے محروم کردینا چاہتے ہیں۔ سیکولر ازم یا لبرل ازم کا سکہ پاکستان میں ایک کھوٹا سکہ ہے۔ اس سکے کو مٹھی بھر عناصر نے جب کبھی چلانے کی کوشش کی انہوں نے منہ کی کھائی ہے۔اسی لئے ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے تاریخی شعور کی بناء پر سیکولر ازم کا کھوٹا سکہ چلانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ جناب آصف علی زرداری، سید یوسف رضا گیلانی اور دیگر وزراء نے کرپشن میں کمالات حاصل کرکے اور غریبوں کو نظر انداز کرکے بھٹو خاندان کی سیاسی میراث کے ایک بڑے حصے کو ٹھکانے لگادیا۔ لگتا ہے رہی سہی کسر بلاول بھٹو زرداری پوری کردیں گے۔
گزشتہ چند دنوں سے بلاول بھٹو زرداری لاہور میں مختلف علاقوں کے پارٹی کارکنوں سے روز انہ خطاب کررہے ہیں، لاہور کی جس بستی میں بلاول کا محل ہے فقیر کا ٹھکانا بھی وہیں کہیں آس پاس ہے، اس لئے میں ان کے بلندبانگ دعوئوں اور ولولہ انگیز نعروں سے براہ راست بھی مستفید ہوتا رہتا ہوں،اگرچہ بلاول بھٹو کے جوش وخروش کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اندر ذوالفقار علی بھٹو کا رنگ ڈھنگ موجود ہے تاہم ان کی ہر بات سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف پاکستان کی تاریخ بلکہ پیپلز پارٹی کی تاریخ اور اس کی جدوجہد سے بھی بالکل نا آشنا ہیں وہ پاکستان کی تہذیب و ثقافت اور عوامی جذبات و احساسات کا بھی ادراک نہیں رکھتے۔ ان کے لئے حکیم ا لامت علامہ اقبال کا مشورہ مشعل راہ کا کام دے سکتا ہے۔آپ نے فرمایا تھا؎
نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
بلاول بھٹو آئین پاکستان سے تجاوز یا اس کی مخالفت کے راستے پر چلیں گے توہ آئین سے ہی نہیں ذوالفقار علی بھٹو کی میراث سے بھی بدترین قسم کے انحراف کے مرتکب ہوں گے۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں،انہوں نے بچشم خود دیکھا ہوگا کہ یورپ کی فلاحی ریاستوں نے اپنے عوام کی زندگیوں کو کیسے خوشگوار بنایا ہے جبکہ یہاں پاکستان کے اکثر سیاسی قائدین وسائل سے مالا مال اس ملک کو جہنم زار بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ بلاول کا ایک سیاسی پس منظر ہے وہ اسی پس منظر کو بنیاد بنا کر اگر صوبہ سندھ کو کرپشن، بدامنی، بیماری، بے روزگاری، گندگی اور بدحالی سے نجات دلا دیتے ہیں اور اپنی تمام تر توجہ وہاں مرکوز کردیتے ہیں تو پھر اس فلاحی ماڈل کا چرچا کرکے وہ دوسرے صوبوں سے بھی ووٹ حاصل کرلیں گے اور اگر اس کی بجائے وہ شراب نوشی، ناچ گانے اور لبرل و سیکولر ایجنڈے کو فروغ دیں گے تو صوبہ سندھ کی بچی کھچی حکومت بھی شاید ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی اور پھر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ پیپلز پارٹی کو لاڑکانہ یا نواب شاہ میں بھی پناہ مل پائے گی یا نہیں۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ تو اپنی موت آپ مرچکا ہے۔ اب اگر بھٹو کے جانشین ان کے دستوری و اسلامی ترکے پر شب خون مارنے کی کوشش کریں گے تو یہ نہ صرف ذوالفقار علی بھٹو سے غداری اور بینظیر بھٹو سے بے وفائی ہوگی بلکہ اس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کے ہاتھ بدنامی کے علاوہ کچھ نہیں آئے گا۔


.
تازہ ترین