• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صاحبو! جیسے یہ ثابت ہو چکا کہ بیوی اور ڈاکٹر کی چپ نیک شگون نہیں ہوتی اور اُن بیویوں کے ہاتھ سردیوں میں بھی نرم وملائم رہتے ہیں جو برتن اپنے شوہروں سے دھلواتی ہیں، ویسے ہی یہ بھی ثابت ہو گیا کہ شادی کے بعد بظاہر گھر کا سربراہ تو شوہر ہی، مگر اسکے اختیارات ممنون حسین جتنے اور صحت سعید الزماں صدیقی جیسے، لڑکپن میں جو لڑکیاں ہمارے کچھ کہنے سے پہلے ہی کہہ دیا کرتی تھیں کہ ’’شکل دیکھی ہے اپنی‘‘ اب انکے شوہروں کی شکلیں دیکھ کر جیسے دل میں ٹھنڈ پڑ جائے، ویسے ہی بچپن میں اس ڈر کی وجہ سے کہ اگر مینڈک کو پتھر مارا تو بیوی گونگی ملے گی اب یہ سوچ کر دل دُکھی ہو جائے کہ پتھر کیوں نہ مارا۔ دوستو! اپنے قائدین کے وژن کا نظارہ کر کے جیسے ذہن میں وہ مریض آجائے کہ جسے ڈاکٹر نے کہا کہ ’’چونکہ آپریشن کے وقت قینچی آپ کے پیٹ میں رہ گئی، لہٰذا اب آپریشن دوبارہ کرنا پڑے گا‘‘ مریض بولا ’’ایک قینچی کیلئے دوبارہ آپریشن، یہ لو سو کا نوٹ، نئی قینچی لے لینا‘‘، ویسے ہی اپنی جمہور کو دیکھ کر وہ جج یاد آ جائے کہ جسکے پاس اُس شخص کا مقدمہ آیا کہ جس نے اپنی بیوی کو قتل کرنے کی کوشش کی مگر وہ بچ گئی، 100کے قریب پیشیوں کے بعد جج صاحب نے شوہر کو جب صرف جرمانے کی سزا سنائی تو کسی نے پوچھ لیا ’’حضور اس نرمی کی وجہ‘‘ جج صاحب بولے ’’میں مجرم کو (بیوی مارنے کا) ایک چانس اور دینا چاہتا ہوں‘‘۔ قدردانو! اگر ایک طرف تحریک انصاف کی شکی سیاست اُس عاشق کی طرح کہ جس کی محبوبہ نے بڑے لاڈ اور دُکھ سے مری کی پہاڑی پر اداس اکیلے بیٹھ کر جب اپنی تصویر چاہنے والے کے موبائل پر Sendکر کے نیچے یہ لکھا ’’جانِ من میرا سارا دن یوں تمہاری یاد میں تنہا گزرتا ہے‘‘، تو چند لمحوں بعد ہی عاشق کا جواب آ گیا ’’یہ سیلفی تو ہے نہیں اور تم وہاں ہو بھی اکیلی، سچ سچ بتاؤ یہ تصویر کس یار سے کھنچوائی ہے؟‘‘، دوسری طرف نواز حکومت اس خاتون کی طرح ہماری ہمدرد کہ جس نے اپنے ہونے والے خاوند سے جب کہا کہ ’’جانو شادی کے بعد میں تمہارے سارے دکھ درد بانٹ لوں گی‘‘ تو ہونے والا شوہر حیران ہو کر بولا ’’مگر میری زندگی میں تو کوئی دُکھ ہے ہی نہیں‘‘ خاتون بولی ’’جانو میں شادی کے بعد کی بات کر رہی ہوں‘‘ اور مہربانو! جیسے عمران خان کا نصیب دیکھ کر جہاز میں بیٹھا وہ نوجوان یاد آئے کہ جس کے ساتھ والی سیٹ پر جیسے ہی ایک خوبرو لڑکی بیٹھی تو یہ نوجوان بولا ’’بی بی یہ سیٹ آپ کی نہیں، آپ اپنی سیٹ پر جا کر بیٹھیں‘‘ لڑکی اپنا بورڈنگ پاس دیکھ کر شدید حیرانی میں بولی ’’آپ کو کیسے پتا چلا کہ یہ سیٹ میری نہیں‘‘ لڑکا بولا ’’مجھے سیٹ کا تو نہیں، اپنی قسمت کا پتہ ہے‘‘، ویسے ہی میاں نواز شریف کے پاناما لیکس اور قوم کو دیکھ کر بادام کھاتے وہ شیخ صاحب یاد آجائیں کہ جن کی بیگم نے جب کہا کہ ’’ذرا بادام چکھانا‘‘ تو شیخ صاحب نے ایک بادام پکڑا دیا بیوی بولی ’’بس ایک ہی‘‘ شیخ صاحب نے جواب دیا ’’باقی سب کا بھی یہی ذائقہ ہے‘‘۔
حضور والا! شیخ صاحب کا ذکر کرتے ہی یہاں مجھے اپنا شیخو یاد آ گیا، وہ شیخو جس کی نظر اب اتنی کمزور ہو چکی کہ نظر کی عینک لگا کر بھی صرف نظر کی عینک ہی نظر آئے، یہ علیحدہ بات کہ وہ ابھی بھی سالن میں بوٹی اور محفل میں ’’ووہٹی‘‘ دور سے دیکھ لے، جس کے چہرے پر معصومیت کی جگہ مصروفیت نے لے لی اور جو اتنا سادہ نہیں جتنا لگے، جس کی یاداشت ایسی کہ جسے نہ بھی ملا ہو، اسے بھی پہچان لے اور جو سچا اُس گلوکارہ کی طرح کہ جو ایک بار کہنے لگی ’’امریکہ کے ایک ہوائی سفر کے دوران مسافر میرا گانا سننے میں اس قدر محو تھے کہ طیارہ کریش ہوگیا اور کسی کو پتہ بھی نہ چلا‘‘، وہ شیخو جس کے پیٹ کو دیکھ کر لگے کہ پیٹ اسے نہیں یہ پیٹ کو لگا ہوا، یقیناً ا یسے پیٹوں کیلئے ہی وہ چینی کہاوت کہ ’’کچھ لوگ خود تو زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں مگر ان کے پیٹ آگے نکل جائیں‘‘، وہ شیخو جسے سردیاں اور گرمیاں دونوں پسند مگر ایسے کہ سردیوں میں گرمیاں اور گرمیوں میں سردیاں، جو سلام لیتے ہوئے ہاتھ یوں بڑھائے کہ جیسے خیرات دے رہا اور ہاتھ ملاتے وقت گرفت اتنی کمزور کہ جتنی قانون کی گرفت، جو پہلی ملاقات میں ہی یوں بےتکلف ہو جائے کہ اگلا گھبرا جائے کہ کہیں قرض ہی نہ مانگ لے، جو نرم دل ایسا کہ اگر غلطی سے کوئی اپنا دُکھ سنا دے تو یہ اتنا غمگین ہو جائے کہ دُکھ سنانے والے کو الٹا اسے تسلیاں دینا پڑ جائیں، وہ شیخو جو تقریر یاد کر رہا ہو تو لگے کہ اس کا امتحان اور تقریر کر رہا ہو تو لگے کہ سننے والوں کا امتحان، جو ایسا ’’سرگرم‘‘ سیاستدان کہ اب اس پر پانی ابالا جا سکے، جس کی سیاست کبھی ایسی کہ جس کندھے پر ہاتھ رکھتا وہ اسے کندھا دینے کو تیار ہو جاتا اور جس کی سیاست آجکل ایسی کہ جس کے سر پر ہاتھ رکھ دے، وہ ہاتھ سر پر رکھ لے اور وہ شیخو جس کی سیاست میں ان دنوں کپتان کا وہی مقام جو کپتان کی سیاست میں نوازشریف کا مقام، جو پیپلزپارٹی میں زرداری صاحب کا مقام اور جو ایم کیو ایم میں الطاف حسین کا مقام، اسی شیخو کے ساتھ دو دن پہلے بیٹھک ہوئی اور گھنٹہ بھر کی اس بیٹھک کا نچوڑ یہ نکلا کہ ’’جیسے بندہ ایک بار مونگ پھلی کھانا اور آوارگی کرنا شروع کر دے تو پھر کوئی Endنہیں، ویسے ہی ’’بڑوں‘‘ کے خلاف مقدمے شروع ہو جائیں تو پھر کوئی اختتام نہیں، اور جیسے وقت نے یہ بتا دیا کہ ’’آخرکار فائدے میں وہی رہے جس کی ذرائع آمدن کی وجہ کوئی عربی شہزادہ ہو، ویسے ہی وقت نے یہ بھی سمجھا دیا کہ ’’جس دھرتی پر مشکل لمحوں میں کبھی محمد بن قاسم آیا کرتے تھے اب کٹھن لمحوں میں وہاں قطری شہزادے آئیں‘‘ اور جیسے ہمارا قانون وہ مچھردانی کہ جس میں چھوٹا مچھر تو پھنس جائے مگر بڑا مچھر آسانی سے نکل جائے، ویسے ہی اگر اپنی عوامی حکومت کی کارکردگی دیکھنی ہے تو عوام کو دیکھ لیں اور بقول شیخو ’’بن قاسم سے قطری شہزادے تک پہنچتے پہنچتے عوام کی حالت یہ ہوگئی کہ اب تو کراچی اور لاہور جیسے شہروں میں چوری سے بچنے کیلئے رکھے گئے کتے بھی چوری ہو رہے، صاحبو! اب تو اکثر دل چاہے کہ 20کروڑ انسانوں کی بجائے یہ 20تلوروں کا ملک ہوتا، کم ازکم جتنا جیتے، عزت سے جیتے اور جب مرتے تو کسی شاہی گولی سے مرتے۔

.
تازہ ترین