• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سولہ دسمبربروز منگل سن دو ہزار چودہ کو بھی صبح کا آغاز ایسے ہی ہوا ہو گا جیسے آج صبح ہوئی ہے۔ اسی طرح سورج نکلا ہو گا۔ اسی طرح روشنی دھیرے دھیرے پھیلی ہو گی۔ تاریک سڑکوں پر آہستہ آہستہ اجالا ہوا ہو گا۔ سڑکوں پر اخبار فروش اخبار بانٹتے پھر رہے ہوں گے۔ دودھ بیچنے والے اپنی اپنی موٹر سائیکلوں پر خریداروں کی جانب گامزن ہوں گے۔ ریڑھیوں پر پھل سبزیاں سجائی جا رہی ہوں گی۔ ٹریفک ابھی سڑکوں پر مدہم اور معدوم ہو گا۔گاڑیوں کے ہارن ابھی سماعتوں کو آلودہ نہیں کر رہے ہوں گے۔ فضا ابھی دھویں اور شور سے آلودہ نہیں ہوئی ہو گی۔گھروں میں بھی صبح کی ہاہا کارمچی ہو گی۔ بچے اسکول جانے کے لئے نہیں اٹھ رہے ہوں گے۔ مائیں ناشتے کی تیاری سے دست و گریبان ہوں گی۔ باپ اخبار کی سرخیوں کا مطالعہ کر رہے ہوں گے۔ اسکول کی بسوں کے آنے کا وقت قریب آرہا ہو گا۔ یونیفارم استری کئے جا رہے ہوں گے۔ کتابوں کو زبردستی بستے میں گھسیڑا جا رہا ہوگا۔ کلاس ٹیسٹ کی تیاری کے لئے آخری دفعہ کتاب پر نگاہ ڈالی جا رہی ہو گی۔ ہبڑ دبڑ میں بچوں نے ادھورا ناشتہ کیا ہو گا۔ مائیں لنچ باکس بھر رہیں ہو ں گی۔اسکول کی بس کا ہارن بجا ہو گا۔ مائوں نے بچوں کے ماتھوں پر آخری پیار کیا ہو گا اور اسکول بس کے نظروں سے اوجھل ہونے تک دعائوں کے سائے میں رخصت کیا ہو گا۔
سولہ دسمبربروز منگل سن دو ہزار چودہ آرمی پبلک اسکول کے بچے بھی اسی روٹین کے تحت اسکول پہنچے ہوں گے ۔ روز کی طرح اسکول کی گھنٹی بجی ہو گی۔اسمبلی سے اسکول کا آغاز کیا گیا ہو گا۔ استادوں نے بچوں کی قطاریں درست کروائی ہوں گی۔بچوں کے یونیفارم کو ایک نظر دیکھا ہوگا۔ نیند میں ادھ سوئے جاگے بچوں پر تنبیہی نگاہ ڈالی ہو گی۔ اسمبلی میں تلاوت کے بعد ترانہ پڑھا ہو گا۔کلام پاک کے بعد پاک سر زمین کی صدا فضا میں گونجی ہو گی۔پرنسپل نے اسمبلی کے اختتام پر مختصر سی بات کی ہو گی۔ آج کے دن کی اہمیت کے بارے میں بتایا ہوگا۔ڈسپلن برقرار رکھنے کی تلقین کی ہو گی۔پڑھائی میں دل لگانے کو کہا ہو گا اور ساتھ ہی اسکول کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ہو گا۔ بچے کلاسوں کی جانب بھاگے ہوں گے۔بستے اپنی نشستوں پر ٹکائے ہوں گے۔ ہم جماعتوں سے کل کے میچ کے بارے میں بات کی ہوگی ۔ بریک میں کچھ کھانے کا پلان بنا ہو گا۔ اتنے میں ریاضی کے ٹیچر اچانک کلاس میں د اخل ہوئے ہوں گے۔بچے سنبھل کر بیٹھ گئے ہوں گے۔
ریاضی کی ٹیچر نے بچوں کو بتایا ہو گا۔ کائنات میں قائدے بھی ہوتے ہیں اور کلیے بھی۔ اکائیاں بھی ہوتی ہیں اور پہاڑے بھی۔ مزید بتایا ہو گا کہ ریاضی کے قوانین اٹل ہوتےہیں۔ دو جمع دو ہر جگہ چار ہی ہوتے ہیں۔ جمع ، تفریق ، ضرب اور تقسیم کے اصول بتائے ہوں گے۔فارمولوں کے بارے میں بات کی ہو گی۔
ڈرائنگ کے ٹیچر کلاس میں آئے ہوں گے۔ بچوں کو بتایا ہو گا کہ اس کائنات کو رنگوں سے مزین کیا گیا ہے۔ حسن کو پسند فرمایا گیا ہے۔ نیلا رنگ وسعت کی علامت ہو تا ہے اور سبز ہریالی۔ پیلا رنگ بسنت کی بہار لاتا ہے سرسوں کی یاد دلاتا ہے۔ سرخ رنگ شوخی کی علامت ہے اور سفید امن کی نشانی ہے اور سیاہ رنگ سوگ کا نشان ہے ۔ لکیروں میں چھپے رازوں پر بھی بات کی ہو گی۔ نقشوں میں رنگ بھرنے کا سلیقہ بھی بتایا ہوگا۔سفید کاغذ پر مخفی شبیہ کی بات بھی کی ہو گی۔ دائروں کے سفر کے بارے میں بتایا ہوگا۔ نقطے کی اہمیت پر بات کی ہو گی۔
سائنس کے استاد نے کائنات کے رازوں کاسائنس کی مدد سے ثبوت دیا ہو گا۔ کشش ثقل کی بات کی ہوگی۔ اجسام میں پوشیدہ توانائی کے بارے میں سمجھایا ہوگا۔ نظام شمسی کی مثال دی ہو گی۔ستاروں کے مدار اور گردش کے اصول بتائے ہوں گے۔ محلول ، منحل اور محلل کا فرق بتایا ہوگا۔ تخلیق کائنات کے بارے میں بات ہوئی ہو گی۔
مطالعہ پاکستان کے استاد نے تخلیق پاکستان پر بات کی ہوگی۔ تحریک پاکستان کے رہنمائوں کے بارے میں کچھ گفتگو کی ہو گی۔ پاکستان کی اساس کے بارے میں سمجھایا ہو گا۔ قائد کے حوصلے اور اقبال کے خواب کے بارے میں بتایا ہوگا۔ نظریہ پاکستان کی اہمیت کوسمجھایا ہوگا۔دو قومی نظریے پر بات ہوئی ہو گی۔
اردو کے استاد جب کلاس میں آئے ہو ں گے تو پھر میر، غالب اور اقبال کا دور چلا ہو گا۔ فیض ، ناصر اور راشد کی بات ہوئی ہو گی۔ محبت کے جذبے کو آفاقی قرار دیا ہو گا۔ لفظ کی اہمیت کو اجاگر کیا ہو گا۔شعرو نغمے کی محفل جمی ہوگی۔ غزل ، نظم کی تشریحات پر بات ہوئی ہو گی۔افسانے ، انشائیے، مضمون میں فرق واضح کیا گیا ہو گا۔ مزاح نگاروں کے حالات بتائے ہوں گے۔
اتنے میںاسلامیات کی کلاس کا وقت ہو گیا ہو گا۔قاری صاحب نے اس بات سے آغاز کیا ہو گا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ تمام مسلمان ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں۔ اسلام دین فطرت ہے۔ تمام انسانوں کو برابر پیدا کیا گیا ہے۔ عربی اور عجمی میں سے کسی کو فوقیت حاصل نہیں۔ مذہبی حوالوں سے انسان کی عظمت کو اجاگر کیا ہو گا۔ آیات سنائی ہو ں گی احادیث کا مطلب سمجھایا ہو گا۔ واشگاف الفاظ میں حکم ربی بتایا ہوگا جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔عفو و درگزر کی اہمیت بتائی گئی ہو گی۔ صلہ رحمی کی تلقین کی ہو گی۔
اتنے میں کہیں باہر سے بندوقوں کے چلنے کی آواز آئی ہو گی۔ کچھ دھماکے ہوئے ہوں گے اور لمحوں میں سارا اسکول معصوم اور بے قصور لاشوں کا ڈھیر بنا خون میں لت پت پڑا ہو گا۔۔۔
ایک سو اکتالیس لاشوں کا ڈھیر اپنے پڑھائے سارے مضامین پر ہم سے سوال کر رہا ہوگاکہ نفرت کی اس جنگ میں دو جمع دو چار کیوں نہیں ہوتے ۔ ضرب سے پہلے تقسیم کیسے ہو جاتی ہے؟سرخ رنگ صرف شوخی کی علامت کب ہوتا ہے؟دائروں میں نفرت کیوںپھرتی ہے ،ستارے سیاہ بخت کیسے ہوتے ہیں؟ نظریہ پاکستان کے مطابق مسلمانوں کے ملک میںامن کا دور دورہ کیوں نہیںہوتا؟ خوشحالی کیوں نصیب نہیںہوتی؟ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے یہ ان قاتلوں کو کیوں سمجھ نہیں آتا۔مسلمان مسلمان بھائی بھائی کیوں نہیں بن جاتے۔ عفو و درگزر سے کام کیوں نہیں لیا جاتا؟ امن و آشتی کا دور دورہ کیوں نہیں ہوتا؟نفرت کا یہ بہیمانہ نصاب بدل کیو ں نہیں جاتا؟
ان ایک سو اکتالیس بچوں نے قربان ہو کر ہمیں ایک ایسا لازوال درس دیا جس کے نتیجے میںہمیں ادراک ہوا کہ صبح کے امکان کے لئے مضمون بدلنے پڑتے ہیں۔ نیا درس لینا ہوتا ہے۔ نئے ورق الٹنے پڑتے ہیں ورنہ توہرصبح کا آغاز ایسے ہی ہوتا ہے جیسے آج صبح ہو ئی ہے۔ اسی طرح سورج نکلا ہو گا۔ اسی طرح روشنی دھیرے دھیرے پھیلی ہو گی۔ تاریک سڑکوں پر آہستہ آہستہ اجالا ہوا ہو گا۔
تازہ ترین