• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتہا پسندی ، تنگ نظری اور علم دشمنی کے مہیب سائے میں بھی علم وادب اور فنون لطیفہ کا جہاں عطاء الحق قاسمی ایسے دانشوروں کے دم سے تاباں ہے ۔ الحمراء عالمی ادبی و ثقافتی فیسٹیول 2015ء بھی ان کی اندھیروں میں چراغ جلانے کی مساعی جمیلہ میں سے ایک تھی۔ قاسمی صاحب نے پاک و ہند کے علاوہ کئی ملکوں سے علم و دانش کے ستاروں کی کہکشاں الحمراء کمپلیکس لاہورمیں اتار لی ، جہاں تین روز تک علم و ادب اور ثقافتی رنگ و نور کی بہار نے دسمبر کی سرد رُت کو گرمائے اور مہکائے رکھا۔اسی بات کو ذرا مختلف انداز میں کہا جائے تو ایک جہاں عطاء الحق قاسمی کی بیکراں الفت کی برکھا میں جل تھل ہے ، جسے بلا امتیاز صنف وابستگانِ ادب و فنونِ لطیفہ کا جہاں کہا جا سکتا ہے ۔ فیسٹیول کے افتتاحی اجلاس میں قوی خان نے خوب کہا کہ قاسمی صاحب دل لگاتے بھی ہیں اور دل رکھتے بھی ہیں ، وہ محبتیں کرتے بھی ہیں اور محبتیں تقسیم بھی کرتے ہیں ۔ انتظار حسین ، منو بھائی ، کمال احمد رضوی ، بانو قدسیہ ،اصغر ندیم سید، ڈاکٹر قاسم بگھیو ، جاوید چوہدری ، ثریاملتانیکر ،میاں اعجاز الحسن اور سلما ن صوفی نے بھی پراثر انداز میں اظہارِ خیال کیا۔ تین روزہ فیسٹیول کے دوران ادب اور ثقافت کے اڑتیس موضوعات پر اجلاس ہوئے ، جن کے طفیل ہمارے ایسے طالب علموں کے لئے سیکھنے کے مواقع ارزاں و فراواں ہوئے ۔ ’’ندیم صدی‘‘ سیشن میں قاسمی صاحب کے علاوہ مسعود اشعر ، اجمل نیازی ، ڈاکٹر خورشید رضوی اور ناہید قاسمی نے احمد ندیم قاسمی کی شخصیت اور فن پر سیر حاصل گفتگو کی ۔ ’’صحافت یا ادب‘‘ پر ہونے والی نشست سب سے اہم تھی ، جس میں پرویز رشید بھی شریک ہوئے ۔ اس اجلاس میں معاشرے میں میڈیا کے موجودہ کردار پر مجیب الرحمن شامی ، عارف نظامی ، جاوید چوہدری ، امتیاز عالم اور دوسروں نے بحث کی ۔ اس دوران اردو زبان کو چار چاند لگانے اور ریٹنگ کے حوالے سے الیکٹرانک میڈیا کے کردار پر بحث ڈیبیٹ کی شکل اختیار کر گئی ۔ قاسمی صاحب نے وہاں موجود اخبارات کے ایڈیٹرز سے گزارش کی کہ براہِ کر م صرف اس کا کالم اخبارات میں شائع کریں جسے خط لکھنا آتا ہو۔
ایک اجلاس ’’ظفر اقبال کے ساتھ مکالمہ‘‘ میں ظفر اقبال، آفتاب اقبال اور ان کی اہلیہ شریک تھے ۔ قاسمی صاحب کے سوالات پر انہوں نے لطیف پیرائے میں ظفر اقبال کی شخصیت اور فن پر گپ شپ کی ۔ اس دوران ہمارا ایک ’’متنازع‘‘ سا کالم ’’غالب ؔ بنام ظفر اقبال‘‘ بھی زیر بحث آیا۔ ظفر اقبال نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے پسند کیا اور اجلاس کے بعد کمال مہربانی سے ہمیں شاباش بھی دی ، جو کسی بھی جونیئر لکھاری کے لئے انر جیٹک ٹانک کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ’’ماضی کے دریچوں سے ‘‘ کے عنوان کی نشست میں اختر وقار عظیم نے اپنے پی ٹی وی کے دور کی خوبصورت یادیں حاضرین سے شیئر کیں ۔ ’’کل اور آج کا تھیٹر‘‘مقررین کمال احمد رضوی، اورنگزیب لغاری اور مسعود اختر کے گراں مایہ خیالات کی بنا پر بڑا معلوماتی اور فکر انگیز رہا۔ ’’یادِ رفتگانــ‘‘ شاید سب سے خوبصورت سیشن تھاجس میں محبوب ظفر نے احمد فرازؔ ، مسعود اشعر نے عبداللہ حسین ، ڈاکٹر انور محمود خالد نے اشفاق احمد، ناہید قاسمی نے پروین شاکر جبکہ ایک اور سیشن میں حسن عباس رضا نے نور جہاں کے حوالے سے دلوں کو چھو لینے والی گفتگو کی ۔ ’’مزاح نگاری کا سفر‘‘ کے عنوان سے نظم اور نثر پر دوالگ الگ اجلاس ہوئے ۔ ’’نظم‘‘ میں انور مسعود ، ڈاکٹر انعام الحق جاوید اور سرفراز شاہد کی گفتگو اور شاعری سے حاضرین محظوظ ہوئے جبکہ ’’نثر‘‘ کے سیشن میں ڈاکٹر یونس بٹ ، حسین احمد شیرازی ، گل نوخیز اختر ،ناصر محمود ملک ، اشفاق احمد وِرک ،علی رضا احمد اور خود ہم نے اپنی اپنی تحریریں پڑھ کر سنائیں جبکہ ڈاکٹر فوزیہ چوہدری اور مظہر کلیار نے مزاح نگاری کے سفر پر روشنی ڈالی ۔ فیسٹیول کے اختتامی اجلاس کی صدارت گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ نے کی ۔ پہلے روز کی شام ’’کلاسیکل رقص‘‘ کے سیشن میں نگہت چوہدری نے اپنے فن کاشاندار مظاہرہ کیا۔ طبلے کی تال ، ہارمونیم کے سُر اور پازیب کی جھنکار کے سنگم نے لوگوں کے دِل موہ لئے ۔ ہم ذاتی طور پر نگہت کے فن کے بہت مداح ہیں تاہم ہمیں فقط ایک چھوٹا سا اعتراض ان کے نام پر ہے ، جو ان کے فن کے ساتھ میچ نہیں کرتا۔ مراد یہ ہے کہ وہ اپنے نام میں ’’ چوہدری‘‘ کی جگہ کوئی خوبصورت سا ترنم خیز لفظ لگا لیں تو ان کے نام اور فن میں مزید نکھار پیدا ہو سکتا ہے ۔ چوہدری کے لفظ میں کوئی خاص رِدھم نہیں ہے جبکہ نگہت کی تو پہچان ہی رِدھم ہے ۔ اگریہ ممکن نہیں تو پھر چوہدریوں کو چاہئے کہ وہ ہی اپنے ناموں کے ساتھ یہ لفظ ہٹا دیں ۔دوسری شام انور شعور کی صدارت میں پاک و ہند مشاعرہ ہوا ۔پاکستان کے تمام نامور شعراء کے علاوہ انڈیا سے عبید صدیقی ،رنجیت سنگھ چوہان اور فرحت احساس جیسے مایہ ناز شعراء نے رات گئے تک حاضرین مشاعرہ کے دلوں کو گرمائے رکھا ۔ جنہوں نے جم کر مشاعرہ سنا اور دل کھول کر شعراء کو داد دی ۔ یہاں ہم معذرت کے ساتھ ایک گسترانہ سی بات عرض کرنا چاہتے ہیں کہ میدانِ ادب میں روز بروز ’’شاعرات ‘‘کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ، جس سے جینوئن شاعرات کا نام اور کام متاثر ہو رہاہے ۔ شعرائے کرام سے التماس ہے کہ براہِ کرم اپنے فن پر ہی توجہ مرکوز رکھیں ، لوگ آپ حضرات کے کلا م کو بہت پسند کرتے ہیں۔ آخری شام محفل موسیقی منعقد ہوئی ۔تحسین رعنا کی ہیر گائیکی نے ماحول سحر انگیز بنا دیا۔ بعد میں شفقت سلامت علی ، ثریا ملتانیکر ، راحت ملتانیکر اور عارف لوہار نے اپنی اپنی آواز کا جادو جگایا اور یوں یہ شاندار میلہ اختتام پذیرہوا۔ اسے کامیاب بنانے میں چیئرمین الحمرا عطاء الحق قاسمی کے ساتھ ان کی ٹیم ، کیپٹن (ر) عطا محمد خان، صبح صادق اور ذوالفقار احمد ذلفی کو بھی خراج تحسین پیش کیاجانا ضروری ہے جنہوں نے فیسٹیول کے انتظامات اور مہمانوں کی آئو بھگت میں دن رات ایک کئے رکھے ۔
الحمراء اکاادبی و ثقافتی میلہ تو 13دسمبر کو ختم ہو گیا مگر اس کی کیف آفریں یادیں شرکاء کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی ۔جس ہوٹل میں مہمانوں کو ٹھہرایا گیا وہاں خوش قسمتی سے ہمارے روم میٹ ممتاز مزاحیہ شاعر سرفراز شاہد تھے ۔ پردیس میں نیند انہیں بھی کم ہی آتی ہے اور ہمیں بھی ۔ چار راتیں تھیں اور رات چار بجے تک ہماری گپ شپ جاری رہتی ۔ جن اربابِ ادب سے ہمارا نیاز مندی کا نیا رشتہ قائم ہوا ان میں انور شعور ، حسن عباس رضا ، محبوب ظفر، جبار مرزا ، عقیل عباس جعفری اور طارق نعیم شامل ہیں ۔ یہ سب ہمارے ’’ہوٹل فیلو‘‘ بھی تھے ۔ صبح الحمراء کے لئے جاتے ہوئے گاڑی میں سفر بڑا خوشگوار گزرتا ۔ رات گئے ہوٹل واپسی پر اور بھی زیادہ خوشگوار گزرتا۔
الحمراء فیسٹیول میں شریک تمام قلمداروں اور فنکاروں کی متفقہ رائے تھی کہ ایسی ادبی کانفرنسیں اور فیسٹیول جہالت، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے اندھیروں کو دور کرنے کے لئے ضروری ہیں ، جواحیائے علو م کی تحریک، جستجو اور تحقیق کے فکری دھاروں کو رواں کرنے کے ساتھ ساتھ ایک روادار اور وسیع النظر سماج کے قیام میں کلیدی کردارادا کرتی ہیں۔ گویا قلم کی طاقت کا صحیح استعمال مستقل امن قائم کرنے کا ضامن ہے ۔ہم احمد فراز کے الفاظ میں اس موقف کو زیادہ بہتر انداز میں بیان کر سکتے ہیں کہ ۔
اسے ہے سطوتِ شمشیر پر گھمنڈ بہت
اسے شکوہِ قلم کا نہیں ہے اندازہ
تازہ ترین