• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آزادی کے41برس بعد30جون1988کو پاکستان کے داخلی وبیرونی قرضوں کا مجموعی حجم523ارب روپے تھا۔ 20برس بعد30جون2008کوان قرضوں کا حجم5603ارب روپے کے اضافے کے ساتھ 6126 ارب روپے ہوگیا ۔ پیپلز پارٹی کے5سالہ دور میں پاکستان کے مجموعی قرضوں کے حجم میں8167ارب کا زبردست اضافہ ہوا اور یہ قرضے 14293ارب روپے تک پہنچ گئے ۔ موجودہ حکومت کے دور میں منفعت بخش اداروں کے حصص فروخت کرنے، سعودی عرب سے1500ملین ڈالر کی نقد امداد ملنےاور قومی تعلیمی پالیسی2009کے تحت2015میں جو رقوم تعلیم کی مد میں مختص کی جانی تھیں وفاق اور صوبوں کی جانب سے ان میں1350 ارب روپے کم مختص کرنے اور ترقیاتی اخراجات میں کٹوتیاں کرنے کے باوجود صرف27ماہ میں ان قرضوں میں4233 ارب روپے کا اضافہ ہوا اور ستمبر2015میں پاکستان پرقرضوں کا حجم 18526ارب روپے تک پہنچ گیا۔ 2015میں تعلیم کی مد میں1350ارب روپے کم مختص کرنے کے باوجود وزیراعظم نے11دسمبر2015کو کہا کہ ہر بچے کے اسکول جانے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔
پاکستان قرضوں کو اپنے وسائل سے ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لئے موجودہ حکومت نے بڑے پیمانے پر اہم قومی اثاثوں کو غیر ملکیوں کے ہاتھ فروخت کرنے کا پروگرام بنایا ہے ۔ قومی سلامتی اور قومی مفادات کوتو اس سے خطرات لاحق ہونگے ہی یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص اپنے روزمرہ کے گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لئے بیوی کے زیورات فروخت کرے اور اس کا فخریہ اعلان بھی کرے۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار نے ایک سوال کے جواب میں قومی اسمبلی کو تحریری طور پر بتلایا ہے کہ قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت بہتر بنانے کے لئے حکومت مجموعی ملکی پیداوار اور ٹیکسوں کی وصولی کے تناسب کو2017-18تک بڑھاکر13فیصد تک لے جانے ،کم شرح سود پر بیرونی قرضے لے کر مہنگی شرح سود کے داخلی قرضے ادا کرنے اور قومی اثاثوں کی نج کاری سے حاصل ہونے والی رقوم کا90فیصد پرانے قرضوں کی ادائیگی کے لئے استعمال کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔یہ عزائم پریشان کن ہیں ۔ پچھلے ڈھائی برسوں سے وزیر خزانہ کی تقاریر میں متعدد بار کہاگیا تھا کہ2017-18تک ٹیکس اور جی ڈی پی کے تناسب کو15فیصد تک لے جانے کا ہدف ہے اور یہ ہدف حاصل کرلیا جائے گا ۔ اب قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت بہتر بنانے کے نام پر اس تناسب کو بڑھانے کا دعویٰ کرتے ہوئے ہدف کو کم کرکے13فیصد کردیا گیا ہے ۔ ہم گزشتہ برسوں سے 15فیصد کے اس ہدف کو قطعی ناکافی قرار دیتے رہے ہیں ۔ اب یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ مسلم لیگ(ن)کی حکومت وفاق اور پنجاب میں ٹیکسوں کے ضمن میں2018تک اپنے انتخابی منشور پر عمل درآمد نہیں کرے گی ۔ وزیر اعظم، وزیر خزانہ اور وزیر منصوبہ بندی یہ دعویٰ بدستور کررہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے منشور پر ہرحال میں عمل کیا جائے گا یہ بات بھی پریشان کن ہے کہ ممبران پارلیمنٹ اور حزب مخالف کے سیاستدانوں نے بھی معیشت کے لئے تباہ کن اس فیصلے کا نوٹس ہی نہیں لیا ۔ گزشتہ کم ازکم 22 برسوں سے اسٹیٹ بینک کی سالانہ رپورٹوں، وزارت خزانہ کے سالانہ اقتصادی جائزے ، سال بہ سال پیش کئے جانے والے وفاقی بجٹ اور سول وفوجی حکمرانوں کی تقاریر میں ٹیکس اور جی ڈی پی کے تناسب کو بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا جاتا رہا ہے مگر طاقتور طبقوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے یہ عزائم صرف سیاسی نعروں کی حد تک محدود رہے ہیں ۔ آج بھی نہ صرف وفاقی حکومت بلکہ چاروں صوبائی حکومتیں بھی ہر قسم کی آمدنی پر موثر طور پر ٹیکس عائد کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ پاکستان کی بر آمدات موجودہ مالی سال میں بھی مالی سال2011سےکم رہیں گی جبکہ 2010-11میں ترسیلات کا حجم11.2ارب ڈالر تھا موجودہ مالی سال میں تقریباً20ارب ڈالر رہے گا ۔ ہویہ رہا ہے کہ ٹیکس چوری اور لوٹی ہوئی دولت ہنڈی کے ذریعے ملک سے باہر بھیجی جاتی ہے اور ترسیلات کے نام پر ان کا ایک حصہ پاکستان واپس آجاتا ہے ۔ انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق111(4)کے تحت ان رقوم کو قانونی تحفظ مل جاتا ہے ۔ صاف ظاہر ہے کہ20ارب ڈالر کی ترسیلات کا ایک حصہ دراصل ترسیلات ہیں ہی نہیں۔ یہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے ۔ اگر ان ترسیلات کے حجم میں بیرونی عوامل کی وجہ سے کمی ہوتی ہے تو پاکستان کی معیشت اس جھٹکے کو سنبھال نہیں سکے گی کیونکہ یہ تر سیلات سرمایہ کاری کے بجائے اصراف کے لئے استعمال ہورہی ہیں۔
وزیر خزانہ نے قومی اثاثوں کی نج کاری سے حاصل ہونے والی رقوم کا90فیصد پرانے قرضوں کی ادائیگی کے لئے استعمال کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ قانونی ضرورت بھی ہے مگریہ بات قطعی بے معنی ہے کیونکہ ماضی میں ہوتا رہا ہے کہ قرضے ادا کرنے کے ساتھ ہی نئے قرضے لے لئے جاتے ہیں ۔ اب بھی یہی ہوتا نظر آرہا ہے ۔ مالیاتی ذمہ داریوں اور قرضوں کو محدود کرنے کے ایکٹ کے تحت حکومت ملک کے قرضوں کو60فیصد تک رکھنے کی پابند ہے مگر اس کی مسلسل خلاف ورزی ہورہی ہے ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ایکٹ میں ترمیم کی جائے کہ نج کاری کی رقوم سے جو قرضے ادا ہوں انہیں60فیصد کے ہدف میں شامل نہ کیا جائے ۔ پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ نے17نومبر2015کوایک ضمنی سوال کے جواب میں قومی اسمبلی کو بتلایا کہ قومی اداروں کی نج کاری مسلم لیگ(ن)کے منشور کا حصہ ہے اور اسی منشور کی بنیاد پر ہم انتخابات جیت کر اقتدار میں آئے ہیں چنانچہ حکومت کی نج کاری پالیسی پر سوالات اٹھانا بے معنی بات ہے ۔ انہوں نے واضح کیا یہ کہنا کہ حکومت کی پالیسی کے تحت نہ صرف نقصان میں چلنے والے بلکہ منفعت بخش حکومتی شعبے کے اداروں کی بھی نج کاری کی جائے گی۔ یہ بات درست نہیں ہے کہ منفعت بخش اداروں کی نج کاری مسلم لیگ ن کے منشور میں شامل ہے۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ حزب مخالف کی کسی پارٹی نے بھی اس غلط بیانی کا نوٹس نہیں لیا۔ یہ بات بھی نوٹ کرنا اہم ہے کہ مسلم لیگ ن کے منشور میں پی آئی اے کی نج کاری کرنے کے بجائے ری اسٹرکچرنگ کرکے اسے منافع بخش اور خطے کی ممتاز ایئرلائن بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا مگر ڈھائی برس کا عرصہ گزرنےکے باوجود اس کی ری اسٹرکچرنگ نہیں کی جاسکی۔نج کاری کمیشن کے چیئرمین نے8دسمبر2015کوکہا کہ چونکہ پی آئی اے تسلسل کے ساتھ بھاری نقصانات دکھارہی ہے اس لئے اس کی نج کاری کی جارہی ہے ۔ اس سے قبل انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں معلوم ہے کہ پی آئی اے کو منافع بخش ادارہ بنایا جاسکتا ہے مگر خدشہ ہے کہ اگر اگلے عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی اقتدار میں آگئی تو پھر وہ اس ادارے کو تباہ کردے گی چنانچہ اس کی نج کاری کی جارہی ہے ۔ حقیقت بہرحال یہ ہے کہ وزیر خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے گورنر کے دستخطوں سے19اگست2013کو ایک خط آئی ایم ایف کوبھیجا گیا تھا جس میں یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ مشترکہ مفادات کونسل کے ایک حالیہ اجلاس میں چاروں صوبوں اور وفاق نے نج کاری کی منظوری دےدی ہے حالانکہ ایسی کوئی منظوری دی ہی نہیں گئی ۔ چاروں صوبائی حکومتیں اور سیاستدان اس معاملے میں خاموش ہیں ۔
کرپشن ،ٹیکسوں کی چوری اور آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے ہم تعلیم کی مد میں مناسب رقوم مختص نہیں کررہے۔ وزیر اعظم نے فرمایا ہے کہ ہر بچے کے اسکول جانے تک ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے مگر پوری ذمہ داری سے یہ کہنے پر ہم مجبور ہیں کہ2050 تک بھی ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ۔
تازہ ترین