• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سفر کہاں سے شروع کیا تھا، کچھ یاد ہے؟ یا پھر ایسی یادیں بھی ہیں جنہیں کافر جان کر فراموشی کی قتل گاہ میں دفن کردیا گیا ہے؟ ایک حوالہ قائد اعظم کی وہ تقریر ہے جو انہوں نے قانون ساز اسمبلی کا صدر منتخب ہونے کے بعد 11؍اگست 1947ء کو کی تھی، لیکن اس قانون ساز اسمبلی کا اجلاس ایک دن پہلے یعنی 10؍اگست 1947ء کو کراچی میں بلایا گیا تھا اس کا مقصد ایک عارضی چیئرمین کا انتخاب تھا کہ جو صدر کے باقاعدہ انتخاب کے اجلاس کی صدارت کرے، اس عہدے کیلئے لیاقت علی خان نے جو گندر ناتھ منڈل کا نام پیش کیا کہ جو مشرقی بنگال کے ایک دلت رہنما تھے، خواجہ ناظم الدین نے اس کی تائید کی، اس افتتاحی اجلاس کے 55؍ممبران نے جس رجسٹر پر اپنے دستخط کئے اس پر پہلا نام منڈل کا تھا، دوسرا قائداعظم کا…اور اگلے دن قائد اعظم کو اتفاق رائے سے اسمبلی کا صدر چن لیا گیا۔ انہوں نے اپنی پہلی تقریر میں کیا کہا، سب کو یاد ہے لیکن بہت سے لوگ اسے بھول جانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ پھر یہ بھی یاد کریں کہ منڈل پاکستان کی پہلی کابینہ کے وزیر قانون تھے، وزیر خارجہ سر ظفراللہ تھے کہ جو احمدی تھے، گزرے ہوئے زمانے کی دھند میں ان مناظر کوتلاش کرنے کی وجہ یہ ہے کہ پیر کے دن وزیراعظم نوازشریف نے قائداعظم یونیورسٹی کے فزکس کے سینٹر کو ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے منسوب کرنے کی منظوری دی۔ ڈاکٹر سلام کو 1979ء میں فزکس کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا، وہ پہلے پاکستانی تھے جنہیں کوئی نوبل انعام ملا ہو…اور اب، 37؍سال بعد گویا پاکستان نے اس انعام کو اور ڈاکٹر سلام کے امتیاز کو تسلیم کیا ہے، کیونکہ ڈاکٹر سلام احمدی تھے اس لئے اس ملک میں ان کے ساتھ، شدت پسند حلقوں کے دبائو میں، اتنا نامناسب سلوک روا رکھا گیا…نوبیل انعام حاصل کرکے جب وہ پاکستان آئے تو قائداعظم یونیورسٹی میں ان کا لیکچر طلباء کی ایک جماعت کے احتجاج کی وجہ سے منسوخ کردیا گیا…اور کئی باتیں ہیں جن کے بارے میں سوچ کر یقین نہیں آتا کہ کیا ہم واقعی ایک جدید، جمہوری اور مہذب قوم ہیں۔
یہ موقع پاکستان میں اقلیتوں کے تحفظ اور انسانی حقوق کی پاسداری کا جائزہ لینے کا نہیں ہے، میری سوچ کا مرکز ایک ایسا عظیم شخص ہے جس نے علم کی دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا تھا…اس دنیا میں کہ جس میں ہماری حیثیت شاید ایک بھکاری جیسی ہے۔ اب، اتنے عرصے بعد کہ جب ڈاکٹر سلام کے انتقال کو بھی 20؍برس گزر گئے ہیں یہ فیصلہ ہوا ہے کہ اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی میں ان کے نام کا فزکس سینٹر ہوگا اور یہ بھی کہ پانچ طالب علموں کو ہر سال غیر ملکی یونیورسٹیوں میں تعلیم کیلئے ان کے نام کا وظیفہ ملے گا، اس تاخیر کے باوجود، اس حکومتی فیصلے سے کچھ تسلی تو ہوئی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ انتہا پسندی، منافرت اور تعصب پھیلانے والی بااثر قوتوں کا سامنا کرنے کے عزم کا اشارہ ہے، یوں تو ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کا مقصد بھی یہی تھا کہ پرتشدد انتہا پسندی اور عقیدے کی بنیاد پر نفرت کا خاتمہ کیا جائے لیکن اجتماعی ذہن کی تربیت اور ایک نئے بیانئے کی تشکیل کا کام ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، یہ دراصل پاکستان کی سمت متعین کرنے کا معاملہ ہے، سفر کہاں سے شروع ہوا تھا، یہ یاد کرنے کا معاملہ ہے…قائداعظم کی 11؍اگست کی تقریر کو سمجھنے کا معاملہ ہے، ڈاکٹر سلام کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا ازالہ دوسرے کئی اقدامات کا تقاضا بھی کرتا ہے۔
1991ء کے آخر میں مجھے جنوبی کوریا جانے کا موقع ملا تھا، سول میں کتابوں کی ایک اتنی بڑی دکان دیکھی کہ جسے ایک ہی فلور پر دنیا کی سب سے بڑی کتابوں کی دکان کا درجہ دیا گیا تھا، وہاں ایک گیلری تھی جس میں نوبل انعام یافتہ شخصیات کی تصویریں تھیں… میں کیا بتائوں کہ ڈاکٹر سلام کی تصویر کے نیچے پاکستان کا نام دیکھ کر میں نے کیا محسوس کیا…لیکن دراصل میں اس گیلری کی ایک دوسری تصویر کا ذکر کرنا چاہتا ہوں…
آخر میں ایک ایسی تصویر تھی جس کا کوئی چہرہ نہ تھا یعنی خالی فریم…اور اس کے نیچے کچھ ایسی عبارت تھی کہ یہ جگہ اس شخصیت کی منتظر ہے جو جنوبی کوریا کا پہلا نوبیل انعام حاصل کرے۔ آپ سوچیں کسی بظاہر بہت ترقی یافتہ ملک کی یہ حسرت کتنی جائز ہے کہ اس کا کوئی شہری نوبیل انعام حاصل کرے… ہم نے تو یہ انعام دوو فعہ حاصل کیا ہے اور یہ کیا ستم ہے کہ ان دونوں کو ہمارے عوام کی ایک بڑی تعداد اپنا نہیں سمجھتی…میں یہ مانتا ہوں کہ امن کے نوبیل انعام کی وہ حیثیت نہیں ہے جو علم کے شعبے کی ہے، پھر بھی، ملالہ یوسف زئی دنیا کی سب سے کم عمر نوبیل انعام یافتہ ہیں اور پوری دنیا کیلئے وہ لڑکیوں کی تعلیم کی علمبردار ہیں، اگر ہم طالبان کی سوچ کو قبول نہ کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ملالہ پر ناز نہ کریں…لیکن شاید طالبان کی سوچ پاکستان کی ذہنی فضا کو بڑی حد تک آلودہ کرچکی ہے۔ اب پتہ نہیں کہ اچھے طالبان اور برے طالبان کی سوچ میں کوئی خاص فرق ہوتا ہے یا نہیں…ڈاکٹر سلام کے اعزاز کو رد کرکے ہم نے اپنے ملک کا کچھ نقصان بھی کیا ہے…وہ یوں کہ ان کی یہ خواہش تھی کہ نوبیل انعام سے انہیں جو شہرت ملی تھی اسے وہ پاکستان میں سائنس کی تعلیم اور ریسرچ کے فروغ کیلئے استعمال کریں، انہیں احساس تھا کہ اس میدان میں ہم کتنا پیچھے ہیں…ان کی اپنی مثال بھی نوجوانوں کا حوصلہ بڑھا سکتی ہے، آخر وہ کسی دولت مند خاندان کے ایسے بیٹے تو نہیں تھے کہ جسے بڑے اور مہنگے اسکول اور کالج میں پڑھنے کا موقع ملا ہو…جھنگ کے ایک معمولی سرکاری اسکول سے اٹھ کر انہوں نے عالمی سطح پر اپنے علم اور اپنی ذہانت کا پرچم بلند کیا…وہ اور کچھ بھی ہوں…وہ ایک پاکستانی تھے…اور وہ ایک اچھے انسان تھے…ملالہ کے بارے میں بھی یہ بات لوگ نظرانداز کردیتے ہیں کہ وہ ایک روایتی، متوسط گھرانے میں پلی بڑھی اور اس نے کسی بڑے شہر کے بڑے اسکول میں تعلیم حاصل نہیں کی… پھر بھی، اقوام متحدہ کے اسٹیج پر اس نے کسی بھی ملک کے صدر یا وزیراعظم سے زیادہ اعتماد سے تقریر کی…پوری دنیا نے حیرت سے اسے دیکھا اور سنا اور انہیں تو یہ معلوم ہے کہ یہ لڑکی پاکستانی ہے، کیا ہم بھی اس حقیقت سے واقف ہیں؟

.
تازہ ترین