• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محترم صدر ِ مملکت نے اس ہفتے جسٹس ثاقب نثار صاحب کو پاکستان کا چیف جسٹس مقرر کیا جواکتیس دسمبر 2016 کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ ہر نئے چیف جسٹس کا پرا مید نظروںسے استقبال کیا جاتا ہے کہ شاید وہ ملک کو درپیش سب سے اہم مسئلے پر توجہ دیں، جو کہ تباہ حال جسٹس سسٹم ہے ۔
دی گارڈین میں پنکج مشرا کا ایک متاثر کن مضمون ’’Welcome to the age of anger‘‘دنیا میں بڑھتے ہوئے جذباتی اشتعال کی وضاحت کرتا ہے جس کی وجہ سے 2016 ء میں ہنگامہ خیز واقعات پیش آئے ۔ جس تشویش اور اشتعال کی بات مسٹر مشرا کرتے ہیں ، اُس کی آندھی پاکستان میں بھی چل رہی ہے ۔ جو بھی اس شیر پر سواری کرتا ہے ، وہ وقتی مقبولیت کا سرخاب اپنے سر پر سجا لیتا ہے ۔ افتخار چوہدری کی عدالت مقبولیت کے ہنگام پر موقوف تھی، چنانچہ عام آدمی اس کی طرف دیکھ کر اپنے رنج و الم بھول جاتا اور امید کرتا کہ ’’وقت اچھا بھی آئے گا ناصر‘‘، یہاں تک کہ ارسلان افتخار کے اسکینڈل نے سب کچھ گہنا دیا۔ اُس کے بعد ہمیں مسائل سے نجات دلانے کا فریضہ جنرل راحیل شریف کو سونپ دیا گیا۔
اسٹیٹس کو اوراسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات کا ہدف صرف سیاسی طبقہ ہی نہیں ، ہمارے ادارے بھی ہوتے ہیں۔ فوج (جب ملک کی زمام ِ اختیار براہ ِراست اس کے ہاتھ میں نہیں ہوتی) یہ کہتے ہوئے اس اشتعال سے خود کو محفوظ رکھتی ہے کہ ملک کاآئینی نظم و نسق اور اتھارٹی سویلین اداروں کے پاس ہے۔ نیز وہ ایک منظم اور طاقتور ادارہ ہے ۔ قومی سانحات یا انتخابات کے مواقع پر عوام فوج کی موثر کارکردگی دیکھتے ہیں۔ چنانچہ عام شہری فوجی ہائی کمان کو حکمران اشرافیہ سے الگ کرکے احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن وہ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو اس نظام کا حصہ ضرور دیکھتے ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ہماری جوڈیشل تاریخ داغدار ہے (بالکل جس طرح فوجی تاریخ)، لیکن عوام کو فوج کی کارکردگی نظر آتی ہے ۔ دوسری طرف عوام دیکھتے ہیں کہ عدالتی نظام بالکل کام نہیں کررہا۔ اگر آپ ایک غلط نظام کا حصہ ہیں تو پھر آپ کے حق میں خدا سے دعاہی کی جاسکتی ہے ۔
جسٹس سسٹم کے ڈھانچے میں پائی جانے والی خامیوں کی وجہ سے قانون کی نظر میں برابری کا تصور ہنوز ایک خواب ہے ، اور عوام دیکھتے ہیںکہ انصاف کے ترازو کا جھکائو طاقتور اور دولت مند طبقے کی طرف رہتا ہے ۔اس موضوع پر درجنوں کتابیں لکھی جاسکتی ہیں کہ کس طرح نااہلی اور غفلت یا تجاہل ِ عارفانہ کی وجہ سے مقدمات میں الجھے ہوئے افراد کی زندگیاں برباد ہوگئیں، لیکن شکر ہے ہماری لیگل برادری کتابیں لکھنے سے پرہیز کرتی ہے ۔ عام شہری وکلا اور ججوں کو اپنے مسائل کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ایمانداری کی بات یہ ہے کہ عام شہری کا موقف درست ہے ۔ ہماری برادری میں اصلاحی عمل سے حد درجہ کدورت پائی جاتی ہے۔ عدالتی عمل کا قریب سے جائزہ لینے والے سمجھتے ہیں کہ جسٹس آصف کھوسہ کا بنچ نہایت جانفشانی سے بہت دیر سے التوا کا شکار کیسز کو نمٹانے کی سعی کررہا ہے ۔تاہم یہ کاوش خبر نہیں ۔ خبر یہ ہے کہ دو افراد کو سپریم کورٹ سے پھانسی کی سزا سنائی گئی ، سزا پر عمل درآمد ہوگیا، یا کچھ افراد کئی عشروںسے جیل میں بند تھے ، لیکن اب تحقیقات سے پتا چلا کہ وہ بے گناہ تھے ۔ کیا غلط عدالتی فیصلوں کی وجہ سے ضائع ہونے والی جانوں کو لوٹایا جاسکتا ہے ؟انسانی جان جانے یا عشروں تک آزاد ی سلب کرلینے کا الزام کس کی گردن پر جائے گا؟
عدالتی نظام کی حالت اتنی مایوس کن ہے کہ انفرادی طور پر محنتی اور قابل جج کافی ثابت نہیں ہوتے ۔دلیل یہ دی جاتی ہے کہ عدالتی نظام کی ناکامی کی وجہ ایگزیکٹو اور قانون ساز اداروں کی ناقص کارکردگی ہے ، لیکن یہ کوئی متاثر کن دلیل نہیں۔دکھائی جانے والی مسلسل ناقص کارکردگی نے ہمارے عدالتی نظام کی اخلاقی اتھارٹی کو مجروح کردیا ہے ۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ وکلا اور ججوں کا رویہ یہ ہے کہ ’’ہم نے کون سا یہاں رہنا ہے ، بھاڑ میں جائے سب کچھ‘‘۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ نظام زیادہ دیر تک نہیں چلے گا۔ ہم نے جوڈیشل ایڈ منسٹریشن کے دو ماڈل دیکھے ۔ ایک تو آنے والے ہر نئے چیف جسٹس کے وعدے، تقاریر، عہدے کے ساتھ آنے والی عظمت کا احساس، ججوں کی تقرری میں دلچسپی لینا کہ کس کو رکھنا اور کس کو ہٹانا ہے ، اور پھر مدت پوری ہونے پر گھر چلے جانا۔ دوسراماڈل افتخار چوہدری کا ہے جنہوں نے ہیڈلائنز کا حصہ بنتے ہوئے عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے جذبات کو تحریک دی، مسائل حل کرنے کی امیددلائی، اور عوامی دلچسپی کے معاملات کوہاتھ میں لیتے ہوئے عدالتی حکم نامے کے ذریعے کام چلایا، لیکن اصل مسئلہ اپنی جگہ پر ہی رہا۔ عدالتی نظام میں بہتری نہ آسکی ۔
پہلا ماڈل فطری چوائس ہے کہ زیادہ تر افراد اپنے عہدوںپر ترقی کرتے ہوئے اس ماحول سے آشنا ہوتے ہیں۔ وہ اسی بے حسی کا مظہر ہوتے ہیں جو ہمارے نظام کا خاصہ بن چکی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ نوجوانی میں وہ مثالیت پسند ہوں لیکن اس عہدے تک پہنچتے پہنچتے اُن پر روایت غالب آچکی ہوتی ہے ۔ وہ اپنے طویل کیرئیر کے اختتام پر اعلیٰ عہدہ، اس سے وابستہ اختیار اور پروٹوکول اور طاقت کا احساس کرتے ہوئے سرشاری میں ڈوب کر اپنی مدت پوری کردیتے ہیں۔ وہ اس عہدے کو خود پر ایک بھاری ذمہ داری تصور نہیں کرتے کہ اُنھوںنے اس نظام کی اصلاح کرنی ہے ۔ یہ نظام ہمارے اسٹیٹس کو کا حصہ ہے ۔
دوسری طرف عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے وعدے اور نعرے عوام کو مزید مایوسی کا شکار کردیتے ہیں۔ نظام ِعدل میں تنظیمی اور اخلاقی خامیاں عام ہیں۔ آپ اخلاقی حصے کی اصلاح اُس وقت تک نہیں کرسکتے جب تک اس کا تنظیمی ڈھانچہ درست نہیں ہوتا۔ عدلیہ عوامی مقبولیت کے نعرے لگاکر میڈیا کی ہیڈلائنز میں آسکتی ہے ، لیکن انصاف فراہم نہیں کرسکتی ۔
اس کے لئے نعروں کی بجائے اپنے گھر کو درست کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ تاہم اداروں کی اصلاح کا کام طویل اورمشکل ہونے کے علاوہ چکاچوند نہیںہے ۔ اس پر بریکنگ نیوز نہیں بنتی ۔ اس کے فائدے بھی کئی سال بعد ظاہر ہوتے ہیں، اورتب تک آپ جاچکے ہوتے ہیں۔ جو رہنما عوامی مقبولیت کی کشتی میںسوار ہوں ، وہ اصلاح کرنے کا خطرہ مول نہیں لیتے ۔ لیکن جج حضرات کو سیاسی رہنمائوں کا سا رویہ اپنانے اور عوامی مقبولیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ نتائج سے بے پروا ہوکر فیصلے کرسکتے ہیں۔
جسٹس ثاقب نثار ، جو اعلیٰ ترین عدالتی عہدہ حاصل کرچکے ہیں،کا شماراُن ذہین ترین ججوں میں ہوتا ہے جو ہمارے نظام کا حصہ بنے۔ اُنھوںنے مشکل ترین مقدمات میں آئینی ارتقا کو یقینی بنایا۔ لیکن ، جیسا کہ مسٹر مشرا لکھتے ہیں، ’’جذباتی اشتعال کے اس دور میں‘‘ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنا آسان کام نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ اصلاحات کی تخم ریزی کرتے ہیں؟ کیا اُن کے افعال الفاظ کی نسبت زیادہ ٹھوس ثابت ہوتے ہیں؟ اٹھارویں ترمیم کے بعد سے ججوں کی تقرری کا نظام مزید متنازع بن چکا ہے۔ تقریباً ہر تقرری میں ہی اقربا پروری کا الزام لگ جاتا ہے۔ جوڈیشل سسٹم کو درپیش مسائل سے جسٹس صاحب بخوبی واقف ہیں۔ امید کی جانی چاہئے کہ وہ اپنے پیش روئوں کے برعکس ان کے حل کی واقعی ایک مثبت کوشش کریں گے۔

.
تازہ ترین