• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
راقم نومبر کے دوسرے ہفتے لاس اینجلس پہنچا ، دو دن وہاں گزارنے کے بعد مجھے اپنے میزبان کے ہمراہ سان فرانسسکو جانا تھا۔ مغربی ساحل کے ساتھ ساتھ یہ کوئی ساڑھے پانچ سو کلو میٹر کا سفر ہے، جو ہم نے بائی روڈ طے کیا۔ صدارتی انتخابات گو ختم ہوچکے تھے، مگر امریکی روایت کے برعکس ہَلا ّ گُلا ّ ابھی تک جاری تھا۔ اخبار ، ریڈیو، ٹی وی ، ہر جگہ الیکشن ، تبصرے ہی تبصرے اور ٹرمپ کی کامیابی پر صفِ ماتم تقریباً چھ گھنٹے کے اس سفر میں ہم بھی ریڈیو سے مستفید ہوتے رہے۔ کبھی یہ چینل ، کبھی وہ چینل، مگر پھر سوئی ایک اسٹیشن پر رک گئی۔ جہاں ایک دلچسپ پروگرام آن ایئر تھا۔ منتخب صدر کے درجن بھرحامیوں سے فرداً فرداً پوچھا جارہا تھا کہ اس نے ٹرمپ کو ووٹ کیوں دیا؟ باتیں سب کی دلچسپ تھیں مگر ہم سب آپ کو نہیں سنواسکتے۔ دیگ میں سے ایک دانہ چکھ لیجیے۔ نیلسن نے کہا کہ وہ ایک پائپ بنانے والی فیکٹری میں15برس سے ملازم تھا اور 52ہزار ڈالر سالانہ کمالیتا تھا۔ فیکٹری منافع میں جارہی تھی اور اس کی توسیع کے منصوبے بن رہے تھے کہ یکایک چھانٹی شروع ہوگئی اور ایک بے رحم صبح اُسے بھی فارغ کردیا گیا۔ پتہ چلا کہ چین کے پائپوں نے مارکیٹ پر یلغار کردی ہے،جو مقامی پروڈکٹ سے آدھی قیمت پر بک رہے ہیں اور پھر بیکاری میرا مقدر بن گئی۔ سوچتا ہوں کہ اگر بیوی اسکول ٹیچر نہ ہوتی تو میرا کیا بنتا۔ بے روزگاری الائونس سے تو خرچے نہیں چلتے۔ پروگرام کے دیگر شرکاءنے بھی اس سے ملتی جلتی کہانیاں سنائیں۔ صنعتوں کی بندش اور کساد بازاری کے سبب جن کا روزگار متاثر ہوا تھا اور ٹرمپ نے انہیں اچھے دنوں کی واپسی کی امید دلائی تھی۔ پروگرام میں شامل صرف ایک شخص نے ذرا مختلف بات کی،اس نے کہا کہ میں نے ہیلری کو ووٹ اس لئے نہیں دیا کہ وہ اسٹیٹس کو کی نمائندہ ہے۔ شوہر(کلنٹن) نے فری ٹریڈ کے معاہدوں کی بھرمار سے امریکہ کو دنیا بھر کے مال تجارت کاڈمپنگ گرائونڈ بنادیا تھا اور بیوی نے رہی سہی کسر نکال دینا تھی۔ ٹرمپ نے امریکیوں کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کے خلاف کم از کم آواز تو اٹھائی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ نو منتخب صدر نے 60فیصد سفید فام امریکیوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے۔ خاص طور پر وہ گورے جو زیادہ پڑھے لکھے ہیں اور بلیو کالر ملازمتوں سے روزی روٹی کماتے ہیں۔ دنیا بھر سے غیر قانونی طور پر امریکہ آنے والی سستی لیبر، صنعتوں کی بندش اور بیرون ملک منتقلی نے ان کے لئے کہیں زیادہ گمبھیر مسائل پیدا کردیئے۔ جس سے اکثریت بے روزگار ہوگئی اور جو اس عذاب سے بچ بھی گئے، ان کے پیشے اور انکی مہارتیں بتدریج آئوٹ آف ڈیٹ ہوتی چلی گئیں۔ جس کا براہِ راست اثر ان کے مشاہروں پر ہوا۔ آجر سودے بازی پر اتر آیا۔ ایک لاکھ ڈالر کمانے والے کو 40ہزار کی بھی آفر ہوئی تو اس کے پاس کوئی آپشن نہ تھا۔ جس سے ان کا معیار زندگی متاثر ہوا۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں اس مسئلے پر توجہ مرکوز کئے رکھی اور مسلسل کہتے رہے کہ مجھے ان امریکیوں کی فکر ہے، جن کے پاس یونیورسٹی کی ڈگریاں نہیں، کوئی بڑا ہنر بھی نہیں جانتے اور انہیں زیادہ سے زیادہ سیمی اسکلڈ کہا جاسکتا ہے۔ جنہیں زیادہ پیسوں کا لالچ بھی نہیں،بس اتنا چاہتے ہیں کہ زندگی مناسب طور پر گزرتی رہے۔ یہ متوکل اور بے ضرر سی مخلوق چاند کی خواستگار نہیں۔ مگر بد قسمتی سے ہم انہیں یہ بھی نہیں دے پارہے۔ ماڈرن ٹیکنالوجی، آٹومیشن اور بین الاقوامی تجارت کے نام پر ان سے زندہ رہنے کا حق چھینا جارہا ہے، جو کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں۔ ٹرمپ نے امریکہ سے دوسرے ممالک منتقل ہونے والی ملازمتوں کو ’’چوری شدہ جابز‘‘ کا نام دیا اور کہا کہ مال مسروقہ کی واپسی اور اصل مالکان کے حوالے کرنے میں مزید دیر نہیں کی جائیگی۔
انتخابی مہم کے دوران بین کثیر القومی تجارتی معاہدات کی بھی خوب خبر لی گئی۔ متعدد مواقع پر کہا گیا کہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی آڑ میں70ہزار فیکٹریاں بھارت، چین، سنگاپور اور میکسیکو منتقل ہوگئیں جس سے ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ امریکی شہری متاثر ہوئے۔ جن میں سے کچھ بیروزگار ہوگئے، تو کچھ کے مشاہرات شرمناک حد تک کم ہوگئے۔ امریکیوں کے حقوق اور ان کے رزق پر ڈاکہ کی یہ ایک ایسی واردات ہے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ ہم تجارتی معاہدوں کے خلاف نہیں، مگر انہیں ریاست کے مفاد میں ہونا چاہئے۔ مبہم قسم کے کثیر القومی معاہدوں کی بجائے ہم دو طرفہ تجارتی معاہدوں کو فروغ دیں گے۔ کثیر القومی اور عالمی قسم کے جملہ معاہدوں پر نظرثانی کی جائیگی اور ان کی آڑ میں اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ کوئی امریکہ جیسی عالمی طاقت کو نِکّو بناسکے۔2015میں طے پانے والے ٹرانس پیسفک پارٹنر شپ معاہدہ کا تذکرہ بالالتزام ہوا اور ٹرمپ نے برملا کہا کہ صدارتی حلف لینے کے بعد پہلا کام جو وہ کرنے جارہے ہیں،وہ اس منحوس معاہدہ سے علیحدگی کا اعلان ہوگاجس میں اوباما کو نہ جانے کیا خوبی نظرآئی تھی۔ حالانکہ بحر الکاہل کے ساحل پر واقع اس بارہ ریاستی تجارتی معاہدہ میں امریکہ کیلئے سوائے خجالت کے کچھ بھی نہیں۔ ٹرانس پیسفک پارٹنر شپ میں جاپان، ملائشیا، آسٹریلیا، کینیڈا اور میکسیکو کیلئے تو کشش ہوسکتی ہے۔ مگر امریکہ کیلئے یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔
ٹرمپ کی کامیابی پر تبصروں کی کوئی کمی نہیں۔ ایک اچھوتا کمنٹ بنارس یونیورسٹی کے شعبہ اقتصادیات کے پروفیسر تریپاٹھی کا بھی پڑھ لیجئے۔’’انتخابی مہم میں ٹرمپ نے امریکی عوام کے ساتھ دل کی باتیں کیں، سیدھی اور دو ٹوک ا نہیں سیاسی فلاسفی میں الجھایا اور نہ ہی بین الریاستی معاملات کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کی۔ صرف اور صرف معاش کی بات کی اور اسے بھی اوورسمپلی فائی کرکے دال روٹی تک محدود کردیا۔ آخری دم تک ٹرمپ کی ناکامی کی پیشن گوئیاں لانے والے بھول گئے تھے کہ موصوف کے اس درجہ سادا اور بے ساختہ انداز نے امریکیوں کے دلوں کو چھولیا تھا۔ وہ چپکے سے جوق درجوق نکلے اور ٹرمپ کی صندوقچیوں کو ووٹوں سے بھردیا‘‘۔چوری شدہ ملازمتوں کے حوالے سے نو منتخب صدر کی دلسوزی اور فکر مندی اپنی جگہ، مگر کیا وہ واقعتاً اس ’’مال مسروقہ‘‘ کو امریکہ واپس لاپائیں گے؟ ماہرین کے مطابق چانسز ففٹی ففٹی ہیں اور انتخابی لفاظی کو حقیقت کا رنگ دینا کچھ آسان نہ ہوگا۔ البتہ ایک شعبہ ایسا ضرور ہے جس پر مناسب توجہ دی گئی، تو کثیر تعداد میں بلیو کالر جابز پیدا کی جاسکتی ہیں اور وہ ہے انفراسٹرکچر اور تعمیرات کا شعبہ۔ حسب ِ وعدہ موصوف اس شعبہ کی سرکاری اور نجی کمپنیوں کی سرپرستی میں کامیاب رہے،تو بڑھتی ہوئی بےروزگاری پر قابو پانے کے خاصے امکانات ہیں۔


.
تازہ ترین