• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1971ء سے 16دسمبر کا دن ہماری تاریخ میں یوم سیاہ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔یہ وہ دن تھا جب مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوا ۔اس سانحے کے 43سال بعد16دسمبر ہی کے دن ایک اور بڑا المیہ پیش آیا۔دہشت گردوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول کو نشانہ بنایا۔122بچوں سمیت ایک سو پچاس کے لگ بھگ افراد خون میں نہلا دئیے گئے۔یہ شاید پاکستان ہی نہیں دنیا کی تاریخ کا بہت بڑا المیہ تھا جب چند لمحوں کے اندر اندر ہنستے مسکراتے بچوں کے سینے چھلنی کر دئیے گئے۔پوری قوم لرز کر رہ گئی ۔معصوم بچوں کے لہو نے کروڑوں ہم وطنوں کو رُلا دیا۔
16دسمبر دو حوالوں سے ہمارے لئے غم اور دکھ کا دن بن گیا۔تین دن قبل ایک سال پہلے جنم لینے والے المیے کی یادمیں آرمی پبلک اسکول پشاور میں ایک بڑی تقریب منعقد ہوئی۔وزیر اعظم نواز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف سمیت وزرائے اعلیٰ،گورنر صاحبان اور سیاسی رہنمائوں نے اس تقریب میں شریک ہو کر معصوم شہیدوں کو خراج تحسین پیش کیا۔وزیر اعظم نے آرمی پبلک ا سکول کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ آئندہ یہ دن یوم عزم تعلیم کے طور پر منایا جائے گا۔سانحہ پشاور ایسی ہی شاندار تقریب کا تقاضا کرتا تھا۔جانے والے لوٹ کر نہیں آتے۔جن مائوں کی گود اجڑ گئی وہ اپنے شہید بچوں کو کیسے بھلا سکتی ہیں۔لیکن یہ پہلو بھی ہے کہ پوری قوم نے ان بچوں کو اعزاز دیا۔حکومت اور ریاست نے ان کی عزت افزائی کی۔ملک کے کتنے ہی تعلیمی ادارے ان کے نام سے منسوب کر دئیے گئے اور ان کا اسکول اب یونیورسٹی کہلائے گا۔
قومیں وہی زندہ رہتی اور ترقی کرتی ہیں جو اپنے المیوں سے سبق سیکھتی ہیں۔انہیں اپنا ماضی یاد رہتا ہے ۔اس لئے نہیں کہ وہ مایوس اور بے عمل قومیں ہوتی ہیں اور ماضی کے المیوں کو یاد کر کے روتی رہتی ہیں،اس لئے کہ وہ ان سانحوں کے اسباب پر غور کرتی ہیں۔سوچتی ہیں کہ یہ المیہ کیوں پیش آیا؟ کیا اس میں ہماری غفلت اور کوتا ہی کا بھی کوئی عمل دخل ہے؟ اور اگر ہے تو ہمیں مستقبل میں اس طرح کے سانحوں سے بچنے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟ یہی وہ لائحہ عمل ہے جو سانحوں کو سبق آموز واقعات میں بدل دیتا ہے ۔اگر صورت حال اس کے برعکس ہو،یعنی یہ کہ ہم اپنے المیوں کو یاد ہی نہ رکھیں،یا ان کے اسباب پر غور ہی نہ کریں اور اگر کریں بھی تو کوئی سبق نہ سیکھیں۔ان واقعات کی یاد منائیں بھی تو محض رسمی سی کارروائی کر کے بھول جائیں تو پھر تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے۔ المیے کسی نہ کسی شکل میں بار بار پیش آتے رہتے ہیں۔
16دسمبر کو پشاور اے۔پی۔ایس میں ہونے والی تقریب اسی جوش اور جذبے کے ساتھ منائی گئی۔ پورے ملک کی سیاسی اور فوجی قیادت نے ایک جگہ جمع ہو کر معصوم شہیدوں کو خراج تحسین پیش کیا۔اسی طرح یہ عہددہرایا گیا کہ ہم دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ کر کے دم لیں گے ۔ پاکستانی میڈیا نے بھی خصوصی پروگرام پیش کئے۔ یہ ضروری تھا کہ قوم کو یاد دلایا جائے کہ ایک سال پہلے کتنا بڑا المیہ پیش آیا۔
لیکن کیا 16دسمبر1971ء اب ہماری تاریخ کا حصہ نہیں رہا؟ وہ بھی تو کوئی چھوٹا المیہ نہ تھا، اس دن قائد اعظم کا پاکستان دو حصےہو گیا۔ بعض لوگوں کی سازشوں اور ہوس اقتدار کی وجہ سے ہمارے ان فوجیوں کو ہتھیار ڈالنا پڑے جو بڑے مشکل حالات میں بھی نہایت جو انمردی سے لڑے تھے۔اصل میں یہ فوجی نہیں سیاسی شکست تھی۔باقی ماندہ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت قائم ہوئی۔بھٹو صاحب نے جسٹس حمودالرحمن کی سربراہی میں ایک کمیشن بھی قائم کیا جس کا کام سانحے کے اسباب کا جائزہ لینا اور مستقبل کے لئےاپنی سفارشات پیش کرنا تھا۔اس کمیشن نے بڑی محنت سے کئی سو صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ بھی پیش کر دی۔لیکن کئی سال گزرنے کے باوجود کسی کو کچھ پتہ نہ چلا کہ کمیشن نے سانحہ مشرقی پاکستان کے کیا اسباب بیان کئے ہیں اور اس طرح کے سانحوں سے بچنے کے لئے کس طرح کی سفارشات پیش کی گئی ہیں۔تقریباً تیس سال بعد پرویز مشرف کے دور میں ایک بھارتی اخبار نے اس رپورٹ کے کچھ حصے شائع کئے۔بعد ازاں مشرف حکومت نے کچھ مزید حصے جاری کر دئیے۔لیکن اُن سفارشات پر آج تک عمل نہیں ہوا جو حمودالرحمان کمیشن نے تجویز کی تھیں۔
ماناکہ سانحہ مشرقی پاکستان کو 44 سال کا طویل عرصہ گزر گیا ہے ۔لیکن کیا اس سانحے کا اب اتنا بھی حق نہیں رہا کہ ’’یوم سیاہ‘‘ پر اس کا برائے نام ذکر ہی کر لیا جائے۔ان دنوں تو حسینہ واجد کی حکومت چُن چُن کر ایسے افراد کو پھانسیوں کی سزائیںدے رہی ہے جنہوں نے بھارتی فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے وطن کا دفاع کیا۔ان کا جرم یہ قرار دیا جا رہا ہے کہ وہ پاکستان کا نام لیتے تھے۔چند روز قبل ڈھاکہ یونیورسٹی نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان سے کوئی رابطہ نہیں رکھا جائے گا۔ بھارتی لیڈروں کو آزادی کے تمغوں سے نواز ا جا رہا ہے۔کیا ان حالات میں ہماری سیاسی قیادت کو سقوط ڈھاکہ کا سانحہ یاد نہیں کرنا چاہئے تھا،کیا ہمارے میڈیا کو 16دسمبر1971 کے المیے کو مکمل طور پر بھول جانا چاہئے تھا؟ کیا ہماری جامعات میں اس حوالے سے تقاریب کا انعقاد نہیں کیا جانا چاہئے تھا،کیا ہمیں اپنے ان شہیدوں کو یاد نہیں کرنا چاہئے تھا جنہوں نے پاکستان بچانے کے لئے اپنی جانیں قربان کر دیں۔
16دسمبر اے۔پی۔ایس کے المیے کے حوالے سے تو یاد رکھا گیا جو اچھی بات ہے۔لیکن سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے بے رخی کا مظاہرہ کیا گیا۔نہ حکومت نے اسے ضروری سمجھا نہ سیاسی قیادت کو اس کی ضرورت کا احساس ہوا اور نہ ہی میڈیا نے پاکستان کی نئی نسل کو بتایا کہ چوالیس سال قبل پاکستان پر کیا گزری تھی۔یہ اسقدر معمولی سانحہ تو ہر گز نہ تھا کہ جسے فراموش کیا جاتا۔کم از کم آج کی نسل کو یہ تو پتہ چلنا چاہئے تھا کہ حسینہ واجد کن لوگوں کو کیوںپھانسیاں دے رہی ہے۔
تازہ ترین