• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتے امرتسر میںہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس نے پاکستان کے سامنے کچھ ایسے تنقیدی سوالات اٹھا دئیے ہیں جن کا ٹھوس ،قابل ِ اعتماداور نتیجہ خیز جواب دینا سول ملٹری قیادت کے لئے ضروری ہوگیا ہے ۔ پاکستان سمیت بیس ممالک نے افغانستان میں جاری خانہ جنگی ختم کرنے اور اسے سیاسی اور معاشی استحکام حاصل کرنے میں مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا ۔ وعدے اور بیانات اپنی جگہ پر ،یہ سنہری منزل فی الحال کہیں ہویدا نہیں۔ طالبان کی کارروائیاں جاری ہیں، کابل مایوسی کی دلدل میں ڈوب رہا ہے ، جبکہ نئی دہلی پاکستان کو تمام مسائل کی جڑ کے طور پر پیش کررہا ہے ۔ اور اب صدر غنی بھی اس کی آواز میں آواز ملا رہے ہیں۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا کے ایک دھڑے نے حکومت پر تنقید کی ہے کہ اس نے نریندر مودی اور اشرف غنی کو آگے سے جواب کیوں نہیں دیا۔ وزیر ِاعظم کے مشیر برائے امور ِ خارجہ، مسٹر سرتاج عزیز کو تمام تنقید ی توپوںکا سامنا کرنا پڑاکیونکہ اُنھوںنے امرتسر میں ترکی بہ ترکی جواب نہ دیا۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ وہ اس عہدے کے لئے ناموزوں شخص ہیںکیونکہ اُنہیں جی ایچ کیو، وزیر ِاعظم اور طارق فاطمی کے ساتھ اس پالیسی کو شیئر کرنا پڑتا ہے ۔
یہ تنقید جزوی طور پر ہی درست ہے ۔ اگر مسٹر عزیز کو خارجہ پالیسی کی ذمہ داری سونپی جانی ہے تو پھر اُنہیں دفتر ِخارجہ کی معاونت بھی فراہم کی جائے ۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ قومی سلامتی کے امور پر گفت وشنید کرنے اور اس کی بنیاد پر خارجہ پالیسی کو تشکیل دینے کے لئے سویلین حکومت اور فوج کے درمیان مربوط نظام موجود نہیں۔ یہ معاملہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سویلین حکومت خارجہ پالیسی ، خاص طور پر افغانستان اور انڈیا کے حوالے سے کیا چاہتی ہے ، اس کی طنابیں عملی طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہیں، چنانچہ اسی کی مرضی چلتی ہے ۔ اگر اسٹیبلشمنٹ کو آن بورڈ نہیں لیا جاتاتو سویلین حکومت پالیسی سازی یا اس کی بابت کیے گئے وعدوں کی تکمیل پر قادر نہیں۔ درحقیقت اگر اسٹیبلشمنٹ چاہے تو وہ اس ضمن میں سویلین حکومت کے اٹھائے گئے تمام اقدامات کو سبوتاژ کرسکتی ہے ۔ چنانچہ جب تک سول ملٹری اختیارات کامسئلہ حل نہیں ہوتا، مسٹر عزیز کی جگہ کسی منتخب شدہ نمائندہ کو وزیر ِ خارجہ بنا کر مسٹر فاطمی کی خدمات اس کے سپرد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
دفاعی امور پر کابینہ کی کمیٹی ،جس کی صدارت وزیر ِاعظم خود کرتے ہیں، نے بھی تین وجوہ کی بنیاد پر اس خلاکو پُر نہیں کیا ہے ۔ پہلی یہ کہ اس کی میٹنگز میں تسلسل نہیں پایا جاتا ، چنانچہ پالیسی کو اپ ڈیٹ کرنے یا اسے نافذ کرنے کا مرحلہ ادھورا رہ جاتا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ کمیٹی ذہنی صلاحیتوں سے تہی داماں ہے کیونکہ اس میں شامل سیاست دان اور سرکاری افسران اعلیٰ کوالٹی کے سویلین تھنک ٹینک کی فکری رہنمائی سے استفادہ نہیں کرتے ۔تیسری بات یہ کہ سویلینز اور وردی پوش ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے ، چنانچہ وہ اپنے حقیقی تصورات کو میز پر نہیں رکھتے ۔ ا س کی وجہ سے ان کے درمیان اتفاق ِرائے کی نوبت نہیں آتی ۔
نریندر مودی کے پاکستان مخالف ’’جارحانہ دفاع ‘‘ کی پالیسی جو بھی ہو، کابل کی اسلام آباد سے شکایت پر کان دھرنے کی ضرورت ہے ۔ دوسال پہلے صدر اشرف غنی نے جنرل راحیل شریف پر اعتماد کرتے ہوئے داخلی طور پر مخالفت اور بھارت کی ناراضی کو دعوت دی تھی کیونکہ مسٹر غنی کو توقع تھی کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لے آئےگا ۔ تاہم بعض اچھی یا بری وجوہ کی بنا پر جنرل شریف ایسا نہ کرسکے ۔ شدید مایوسی کا شکار ہوتے ہوئے صدر غنی اب بھارت کے ہمنوا بن کر عالمی برادری سے درخواست کررہے ہیں کہ وہ اس مقصد کے حصول کے لئے پاکستان پردبائو ڈالے ۔ مجوزہ حل کا اہم مطالبہ یہ ہے کہ پاک فوج اُن تمام غیر ریاستی عناصر کا خاتمہ کرے جن کی مبینہ پناہ گاہیں پاکستان میں ہیں اور وہ افغانستان میں کارروائیاں کرتے ہوئے افغان حکومت کو کمزور کرنے اور گرانے کی پالیسی رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے جاری کردہ اعلامیے میں حقانی نیٹ ورک، جیش ِ محمد،لشکر ِ طیبہ اور دیگر شدت پسندتنظیموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔
یہاں تاثریہ ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ان تنظیموں کاخاتمہ کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ناقدین کے نزدیک اس کی وجہ ان تنظیموں کا بھارت مخالف سیکورٹی ڈاکٹرائن کا حصہ ہونا ہے ۔ ان کی مدد سے افغانستان میں ’’دوستانہ حکومت‘‘ کے قیام کو ممکن بنانے کی امیدبھی لگائی گئی ہے تاکہ وہاں بھارت قدم نہ جما سکے ۔ ان غیر متوازن دفاعی معروضات کی موجودگی میں اسٹیبلشمنٹ کا زور اس بات پر ہے کہ پہلے بھارت کے ساتھ اہم تنازعات کا حل تلاش کیا جائے ، چنانچہ ہماری خارجہ پالیسی اسی کھونٹے سے بندھی ہوئی ہے ۔ اس میں اچھنبے کی کوئی بات نہیں کہ اس صورت میں علاقائی اور عالمی تنہائی اور تنقید کا سامنا کرنا لازمی ہے ۔ ایٹمی ہتھیاروںسے مسلح پاکستان، جس کے اپنے ہمسایوں ، افغانستان اور انڈیا ، کے ساتھ کشیدہ تعلقات ہوں، اور ایک ملک جو اپنی جہادی تنظیموں کو کنٹرول کرنے کے لئے تیار نہ ہو او رجس کی معیشت گراوٹ کا شکاراور جس کا معاشرہ لسانی ، مسلکی اور علاقائی کشمکش کی وجہ سے پارہ پارہ ہو، کو دیکھتے ہوئے دنیا چین کی نیند نہیں سو سکتی ۔
یہاں سے آگے بڑھنے کے لئے ہمیں یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ اس میں کسی حد تک قصوروار ہم ہی ہیں۔ ہم نے ہی نظریاتی بیانیہ تشکیل دیا اور انتہا پسندوں کے لشکر تیار کیے کیونکہ ہم ان غیر ریاستی عناصر کی مدد سے اپنے مقاصد کا حصول چاہتے تھے ۔ چنانچہ یہ خطہ اور دنیا ہم سے خطرہ محسوس کرتی ہے ۔ ہارٹ آف ایشیا کو جانے دیں، ہارٹ آف پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان معاملات کا معروضی انداز میں جائزہ لے تاکہ معقول اور منطقی متبادل امکانات کی طرف قدم بڑھایا جاسکے ۔




.
تازہ ترین