• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2017 کی آمد آمد ہے اور بقول ڈینئل فرینکلین آنے والا سال بڑی تبدیلیوں کا سال ہونے جارہا ہے۔ 2017 میں ایشیا میں بالشویک انقلاب کے 100 سال مکمل ہونے والے ہیں۔ اسی سال کارل مارکس کی شہرہ آفاق کتاب ’’داس کیپٹل‘‘ کے 150برس مکمل ہو جائیں گے۔ 500 برس قبل مارٹن لوتھر نے مذہب کے بارے میں جو تشریح کی اس سے پروٹیسٹنٹ ریفریشن کا آغاز ہوا۔
یہ سب تو تاریخ ہے اور 2017مختلف حوالوں سے اہم ہے لیکن مستقبل میں جو کچھ ہونے جارہا ہے اس لحاظ سے بھی اکنامسٹ 2017کوانتہائی اہم قرار دیتا ہے۔ اس سال ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر کا حلف اٹھائیں گے اور صدر کے ساتھ دونوں ایوانوں میں ریپبلکن کی اکثریت کے باعث ان کے پاس اہم فیصلے کرنے کی طاقت آجائے گی۔ ان کے بقول امریکہ میں یہ سال بڑی کنسٹرکشن کا سال ہوگا۔ سڑکیں چوڑی ہوں گی، دیواریں بنیں گی (صرف اینٹوں کی نہیں بلکہ خیالات کی بھی) اور اوباما کے کئے گئے بہت سے اقدامات واپس ہوں گے۔اس کے ساتھ شدت پسندی میں بھی شاید اضافہ ہوگا۔
امریکہ میں اس طرح کےزلزلے کا اثر یورپ اور ایشیا میں بھی پڑے گا۔ یورپ ٹوٹے گا۔ ایشیا میں پیوٹن اور قوت کے لئے جدوجہد کرے گا اور چین میں شی چن پنگ بھی بے پناہ قوت حاصل کرے گا۔ انڈیا ترقی کے لحاظ سے روشن ستارے کی مانند ہوگا اور امریکہ اس سے اور زیادہ قربت حاصل کرے گا۔ ایسے میں جب دنیا ٹیکنالوجی کے حساب سے اورزیادہ ترقی یافتہ ہوگی۔ کمپیوٹر اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی بدولت بے پناہ ترقی ہوگی اوروہی لوگ اور ملک آگے بڑھیں گے جن کے ہاں اس حوالے سے ترقی ہوگی۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس سب کے لئے ہم تیار ہیں اور کتنے تیار ہیں؟ اپنی تیاری کا کچھ حال تو آج صدر ممنون حسین کے ایک بیان سے ہی ظاہر ہے جس میں انہوں نے کوسنے دیتے ہوئے بدعنوانوں کو بے شرم اور بے غیرت کے خطابات دیئے ہیں۔ کہتے ہیںکہ بدعنوانی کے باعث یہ بدعنوان تن کر کھڑے ہیں۔ اس کے خاتمے کےلئے جناب صدر نے قوم کو کہا ہے کہ وہ کرپشن کے خلاف متحدہوجائے۔ سوال یہ ہے کہ جناب صدر قوم تو بدعنوانی کے خلاف متحد ہو ہی جائے گی مگر کیا آپ کا کام صرف کوسنے دینا ہی ہے۔ آپ نے جن لوگوں کو بدعنوان کہہ کر مخاطب کیا ہے اس میں کیا آپ کے بہت سے رفقا کار شامل نہیں ہیں؟ اپنے خطاب میں آپ نے چیئرمین نیب کو بھی مخاطب کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کی کاوشیں قابل تعریف ہیں مگر کیا واقعی ایسا ہے؟ ابھی کچھ ہی دن پہلے سپریم کورٹ نے نیب کی سرزنش کی اور کہا کہ یہ کچھ نہیں کرتے۔ خود آپ کی برسراقتدار جماعت کے سربراہ پاناما لیکس کے حوالے سے کرپشن کے الزامات کا سامنا کر رہےہیں۔مانا کہ سپریم کورٹ نے نئے بینچ بنا کر کارروائی نئے سرے سے شروع کرنے کا کہا ہے مگر کیاجو دستاویزات نوازشریف صاحب کے خاندا ن اور خودان کےوکیل نے عدالت میں پیش کیں کیا عدالت نے انہیں غیرتسلی بخش نہیں کہا؟ اس حوالے سے نوازشریف صاحب ابھی تک عمران خان اور بلاول بھٹو کے الزامات کاخاطرخواہ جواب دینے سے قاصر ہیں۔ اگر آپ پاناما لیکس کے مقدمے کی سماعت اوراس میں نامزد ہونےوالے حکمران خاندان کے عیش عشرت کے معیار کاجائزہ لیں تو جواب ملتا ہے کہ یہ ہے وہ پاکستانی قوم جس کے بل بوتے پر حکمران خاندان کی عیاشیاں چلتی ہیں۔ کبھی باپ اپنی بیٹی کو کروڑوں روپے تحفے میں دیتاہے اور کبھی اس کے بیٹے لندن میں اربوں روپے کے فلیٹ خریدتے ہیں۔ اتنے ہی اگر یہ پاکستانی قوم کے ہمدرد ہیں تو یہ فلیٹ اور کاروبار پاکستان میں کیوں نہیں لئے گئے؟ یہ سرمایہ کیسے باہر گیا؟ اس پر کتنا ٹیکس دیا؟ یہ اپنے انکم ٹیکس گوشواروں میں کیوں ظاہر نہیں کیا؟ جس دبئی کی مل کے بیچنے پر یہ فلیٹ خریدے گئے وہ تو نقصان میں تھی پھر اس پر منافع کیسے ہو گیا؟ یہ درمیان میں قطری شاہزادہ کہاں سے آگیا اور اس قطری شاہزادے کے خاندان کو اور نواز نے کے لئے پھر تلور کے شکار کے لئے حکومتی سرپرستی میں ایسی مراعات کیوں دی جارہی ہیں؟
جناب صدر! تاثر ہے کہ آپ کے ساتھیوں کی ایسی مبینہ لوٹ مار کے باعث نچلی سطح پر بھی کرپشن پھیلتی ہے۔ آپ خود اخبارات میں پچھلے چند دنوں کی رپورٹس پڑھ لیں تو آپ کو خوب اندازہ ہو جائے گا کہ صورتحال کس قدر خراب ہے؟ اس قدر خراب کہ آپ کی حکومت صاف دودھ اور پانی کی فراہمی کو بھی یقینی نہیں بنا سکتی۔ سپریم کورٹ میںپیش کردہ دود ھ اور پانی کی پرائیویٹ کمپنیوں کے حوالے سے ہی رپورٹ پڑھ لیں۔ 60فیصد سےزائد کمپنیاں نہ صرف غیرمعیاری دودھ اور پانی فروخت کر رہی ہیں بلکہ یہ لوگوں کی جیبوں اور صحتوں سے کھیل رہی ہیں۔ دریا غلاظت کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ سبزیاں اسی غلاظت میں اُگ رہی ہیں۔ تعلیم کے نام پر صرف فراڈ ہے اور یہاں کی رقم میٹرو اور اورنج ٹرین پر لگ رہی ہے۔ یہ سب لوگ بدعنوان نہیں تو اور کیاہیں؟ اگر آپ اس سب کا سدباب نہیں کرسکتے تو کوسنے دینے کے بجائے عملی کام کریں۔




.
تازہ ترین