• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طیارے کے حادثے پر پورے عالم کا غم یکساں ہے۔ الفاظ، جذبات، انداز جدا جدا ہوسکتے ہیں لیکن اس واقعہ سے ہر دل پر دکھ یکساں طاری ہوا ہے، ناچیز نے پاکستان یا مسلمان کے بجائے اسے ’عالم‘ کا دکھ یوں قرار دیا کہ جہاں جہاں تک اس واقعہ کی تفصیلات پہنچ سکیں ہوں گی وہاں کے لوگ خواہ کسی بھی مذہب زبان رنگ و نسل سے تعلق رکھتے ہوں گے، بلا امتیاز انہوں نے یہ دکھ محسوس کیا ہوگا، بالکل اس طرح کہ جب پاکستان میں اس حادثے کی ابتدائی خبر آئی، تو یہ نہ جانتے ہوئے بھی کہ حادثے میں کون، کس مذہب، عقیدے، نسل، زبان کے لوگ جاں بحق ہوگئے ہیں، سب کے لیے بلا امتیاز اور کسی کے لیے کم یا زیادہ نہیں بلکہ سب کے لیے یکساں دکھ کا اظہار تھا کہ یہی انسانیت اور یہی فطرت ہے۔ یہ بھی فطرت ہے کہ جس کو آپ جانتے ہوں یا جن سے آپ کی یادیں وابستہ ہیں، آپ ان کا بطور خاص اور بار بار ذکر کریں لیکن موت کی زد میں جو بھی آئے، اس کے لیے پہلی ’آہ‘ یکساں ہی کرب و غم کا اظہاریہ ہوتا ہے۔پھر کچھ یادیں دل میں گھر کر جاتی ہیں اور کچھ رفتہ رفتہ بکھر جاتی ہیں کہ یہ بھی عین فطرت ہے۔
آئیے طیارے کے حادثے کے متاثرین کے دکھ، غم اور ان پر نازل کرب و ضرب کو پشتو مرثیے و ٹپوںمیں تلاش کرتے ہیں ۔
پروفیسر محمد نواز طائر صاحب کی تصنیف روہی ادب (تاریخ ادبیات پشتو) کا ترجمہ سید صفدر علی شاہ صاحب نے کیا ہے ، کے مطابق پشتو ادب میں سب سے پرانا مرثیہ جو اور اقِ تاریخ میں محفوظ رہ گیا ہے، 400 ہجری کے لگ بھگ شیخ اسد سوری کا ہے، غور افغانستان کا یہ باشندہ امیر محمد سوری کا دوست تھا، جب امیر محمد سوری ایک جنگ میں شکست کے بعد قید ہوئے اور کچھ ہی دن بعد ان کا جیل میں انتقال ہوا تو شیخ اسد سوری نے ایک طویل مرثیہ لکھا جس کا پہلا شعر تھا۔
د فلک لہ چارو سہ اوکڑم کوکار
زملوی ھر گُل چہ خاندی پہ بہار
یعنی، آسماں کے کاموں پر آہ و بکاہ گر کروں بھی ، پھر بھی یہ تو ہر اس پھول کو مرجھا دیتا ہے جو بہار میں کھلتا ہے۔ مرثیہ کا رواج پشتو میں کب سے ہوا ہے اس بارے میں اب تک کوئی حتمی رائے قائم نہیں ہوسکی ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سر شت انسان میں ازل ہی سے یہ خاصیت موجود ہے کہ وہ اپنی نسل کے دکھ درد پر دردمندی کا اظہار کرتا ہے۔ ان کے غم پر رنجیدہ ہوتا ہے اور جو بھی انتقال کے بعد ان سے رخصت ہوتا ہے تو اس کی جدائی کا غم اسے رونے اور بین کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ اس طرح قضائے الہٰی کے بعض سانحے ایسے ہوتے ہیں کہ اس موقع پر غم و اندوہ کا اظہار مرثیے کی زبان میں ادبیات کا حصہ بن جاتا ہے جو کسی قوم کا ملی و ثقافتی ورثہ گردانا جاتا ہے۔ بنابریں اگر مرنے والے نےکسی مقصد کی خاطر جاں جان ِآفریںکی سپرد کی ہو  تو پھروہ امر ہوجاتا ہے جیسا کہ خوش حال خان خٹک کہتے ہیں۔
ننگیالی دی چہ یادیگی
پہ سندرو ہم پہ ویر
یعنی یہ سرفروش قوم کے ہیرو ہی ہوتے ہیں جنہیں گیتوںمیں بھی اور نوحوں میںبھی یاد کیا جاتا ہے۔ مرثیے کی طرح پشتو ’ ٹپہ‘ بھی ایک قسم کا غم کا ’اظہاریہ‘ ہے، مگر اس کی دیگر اقسام نشاط انگیز تصورات و احساسات بھی لیے ہوئے ہیں۔ ٹپے کے غم انگیز حصے کو ’غاڑے‘ کہا جاتا ہے، چند نمونے اردو ترجمہ کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں۔
دَ دنیاگئی بازار دے وران شی
چہ ناآشنا خلق رازی آشنا ترے زینہ
(ترجمہ۔ دنیا کے بازار کو خدا ویران کردے، جہاں ناآشنا لوگ آجاتے ہیں اور آشنا چلے جاتے ہیں)
پرون دنیا وہ نن قیامت دے
چہ زہ ولاڑہ لالئے! اخلی رخصتونہ
( کل دنیا آباد تھی اور آج قیامت ہے، میرے سامنے میرا محبوب آخری ہچکیاں لے رہا ہے)
زمکے قلنگ دے زوراور دے
زلمی ترے اخلے رالیگے تش پالنگونہ
(اے زمین!تیرا باج (محصول) کس قدرسنگدل ہے، نوجوانوں کو لیکر خالی چارپائیوں کو لوٹا دیتی ہو)
پریگدہ چہ اوخکے مے بھیگی
مرگ مے لیدو جانان مے نہ پہ خلا کوونہ
( چھوڑ دیجیے کہ یہ آنسو بہتے رہیں، میں موت کو دیکھ رہی تھی، پھر بھی محبوب کو منایا نہیں )
زما دا گل پہ شان جانانہ
تہ رانہ لاڑے زہ دے چاتہ پریخو دمہ
اے میرے گل فام جانان، مجھے تم کس کے سہارے چھوڑ کے چلے گئے۔
خپے ئے قلارگدئی خاورے نہ دی
ھغہ زلمی دی چہ کاگہ، لہ خیالہ تلہ نہ
( احتیاط سے! لحد میں ان کے پائوں رکھنا، یہ وہ طلعت زیبا تھے جو کیا شان سے چلا کرتے تھے)
تورہ لحدہ، نوم دے ورک شہ
دگل پہ رنگ زلمی دے تورے خاورے کڑونہ
( اے روسیاہ لحد! تیرا نام نذرِ اجل ہوجائے تو نے کیا حسین چہرے مٹی مٹی کردئیے۔ جیساکہ غالب نے کہا تھا!
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا کیا صورتیں ہونگی کہ پہناں ہوگئیں
زمکے قسم بہ درلہ درکڑم
چہ خاورے نہ کڑے د جانان سپین مڑودونہ
اے لحد! تجھے قسم ہو، جاناں کی ساعد سیمیں ’سفید کلائیاں‘مٹی نہ کرنا)
زڑہ مے ماشوم شو راتہ ژاڑی
را یا دوی د تورو خاورو بشرونہ
دیکھئے، دلِ ناداں پھر طفل بنا رودیا، مجھے پھر یادلایا، پیوندِ خاک جوانیاں کیا کیا!!
اس وقت اِس طالب علم کے سامنے کاغذپر پھیلے پشتو ’غاڑے ساندے‘ و مرثیوں کےبے شمار مصرعے و اشعار پڑے آنسو بہا رہے ہیں۔ پھر یہ بھی ایک سچ ہے کہ غم کسی کا بھی ہو، اس میں اپنا غم بھی یاد آجاتا ہے۔ خدا طیارے کے حادثے کے تمام پیارے لوگوں کے درجات بلند کرے اور لواحقین کو صبر جمیل و اجر عظیم سے نوازے۔ اس وقت راقم کو اپنے وہ دوست شدت سے یاد آرہے ہیں جو کراچی میں دہشت گردوں کی سفاکی کا شکار ہوئے اور جو پختونخوا اور بلوچستان میں بارود کی خوراک بنے، بلاشبہ بچھڑنے والے بھلائے نہیں جاتے، پشتو کا ایک ٹپہ ہے۔
آشنا دَ لارے نہ ھیریگی
زئہ بہ د عمر آشنا سنگہ ھیرومہ
یعنی جس سے راہ میں شناسائی ہوجائے، وہ راہ گیر بھی نہیں بھول پاتا، پھر اے دل! تجھ سے عمر بھر کے آشنا کو بھلانے کا تقاضا کیسے کروں۔۔۔!





.
تازہ ترین