• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گھن گرج سننی ہو تو وزیر داخلہ چوہدری نثار علی کا کوئی ثانی نہیں! دو روز کی پرزور سماع خراشی کے بعد معلوم فقط یہ ہو سکا کہ نیشنل ایکشن پلان (NAP) کا اُن کی وزارتِ داخلہ سے کیا لینا دینا۔ پہلی بار سمجھ آیا کہ قحط الرجالی کس بلا کا نام ہے۔ مملکتِ خداداد کی تاریخ میں پہلی داخلی سلامتی کی پالیسی کے مصنف کے طور پر خود کو پیش کرتے ہوئے موصوف کے پائوں زمین پر لگنے کو نہ تھے۔ اب بے اعتنائی کا عالم یہ کہ اپنی وزارت کی کارکردگی کا جائزہ پیش کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں اُن کے دو روز کے خطاب کے بعد جواب یہ ملا کہ عدم کارکردگی کے گناہ میں چار پانچ وزارتیں اور بھی شامل ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ ڈیڑھ درجن کے قریب جو کمیٹیاں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لئے بنائی گئی تھیں، اور ہمارے مردِ آہن کی خودستائشی کی تسلی درجن بھر کمیٹیوں کی صدارت سنبھالنے پر بھی نہ ہوئی تھی۔ چوہدری صاحب مصر تھے کہ نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی (NACTA) کی سربراہی اُن کے پاس ہو اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مابین رابطے کا ادارہ بھی اُن کے تحت۔ نو من تیل تو دستیاب ہوا، مگر اُن کی وزارتِ داخلہ کی رادھا کو ناچنے کی نہ بنی۔ وزیر داخلہ کے پارلیمنٹ میں اس بیان کہ مدارس اور علماء دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اُن کے اتحادی ہیں اور یہ کہ انہیں کسی مدرسے میں فرقہ وارانہ نفرت اور دہشت گردی کی حوصلہ افزائی نظر نہیں آئی۔ کالعدم تنظیموں کو حقیقتاً کالعدم رکھنے کے بجائے وہ فقط اُن کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے پہ قناعت کئے دکھائی دیئے۔ رہا مذہبی انتہاپسندی کا معاملہ وہ خود اُن کے نظریاتی میلانات کا غماز ہے۔ ان کے ان ارشادات سے کیا مطلب لیا جائے؟ صرف یہی کہ عسکری حصے کے سوا باقی تمام نیشنل ایکشن پلان کو اُنہوں نے سر کے بل کھڑا کر دیا ہے۔ آپ ہر سال ہزار دو ہزار دہشت گردوں کو کیفرِ کردار تک پہنچاتے رہیں اور مذہبی انتہاپسندی کی ہزارہا نرسریاں دسیوں ہزار نوخیز دہشت گرد پیدا کرتی جائیں۔ کیا یہی ہے وزیر داخلہ صاحب کا مدعا؟
ایک سال گزرنے کے بعد بھی، وزیر داخلہ ماضی کی لکیر پیٹ رہے ہیں۔ ایسے میں ماتم اُن کی ڈھائی سالہ کارکردگی پر کیا جائے یا پھر اُن کی بصیرت پر! موصوف اگر حرکت میں آئے بھی تو غیرسرکاری تنظیموں کے خلاف اور دہشت گردوں کے مالیاتی ذرائع قابو میں لانے کے لئے جو اختیارات اُنہوں نے وزارتِ خزانہ سے حاصل کئے تھے، اُس کا جو نتیجہ نکلا وہ ناقابلِ یقین حد تک مایوس کُن۔ مدارس اور سرکاری تعلیمی اداروں کے نصاب میں تبدیلی پہ اُن کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ دلاسے دینے کے سوا اُن کے پاس چارہ ہی کیا رہ گیا ہے؟ نیکٹا اور دوسرے ادارے ابھی بننے ہیں۔ فرقہ واریت جہاں نظر آئی (جو اُنہیں ابھی تک نظر نہیں آئی) وہ سختی سے پیش آئیں گے۔ ہمیں وہ بائولا شخص یاد ہے جس نے دس گھنٹے تک اسلام آباد میں وزارتِ داخلہ کو تگنی کا ناچ نچوایا تھا۔ تاریخ دہرائے جانے پر کارل مارکس نے خوب پھبتی کسی تھی کہ یہ کہنے والے بھول گئے کہ ایک بار کامیڈی کی صورت اور دوسری بار ٹریجڈی لئے۔
نیشنل ایکشن پلان (NAP) کے حوالے سے حربی میدان تو افواجِ پاکستان کے ہاتھ میں تھا اور اُنہوں نے سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں اور اُن کے اڈوں کا صفایا کر کے دکھا دیا۔ بلوچستان بھی فوج ہی کے پاس ہے اور وہاں وزیرداخلہ ناراض بلوچوں کو واپس قومی دھارے میں لاتے کہیں بھی تو نظر نہیں آئے۔ البتہ کراچی آپریشن پر اُن کا جادو ایسا جاگا کہ ماضی یاد آنے لگا۔ فاٹا اور بلوچستان کے علاوہ اگر کہیں کامیاب آپریشن ہوا تو وہ صرف سندھ ہے جہاں رینجرز نے دو برس سے زائد عرصے میں شہر کو 80 فیصد دہشت گردی سے پاک کر دیا ہے۔ بھتہ خوری تقریباً ختم اور ٹارگٹ کلنگ بھی کافی کم ہو گئی۔ اگر تو مقصد یہی تھا تو وہ تقریباً پورا ہونے کو ہے۔ ایسے میں صوبائی خودمختاری کے حوالے سے کچھ تحفظات پیدا ہوئے ہیں بھی تو اس کا آئینی و سیاسی حل موجود ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک صوبے کی درخواست پر اُس کی مدد کے لئے وفاقی حکومت پیراملٹری فورس بھجوائے اور درخواست کندہ ہی فارغ کر دیا جائے۔ ایسے میں وفاق اور صوبے میں چپقلش کا سہرا جناب چوہدری نثار کے سر ہی سجایا جا سکتا ہے۔ رینجرز قانونی و انتظامی طور پر وزارتِ داخلہ کے تحت ہیں اور وزارتِ داخلہ اس کے ضوابط (SOPs) تشکیل دیتی ہے۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ جو مینڈیٹ دیا گیا اس سے تجاوز کیا وزیر داخلہ کے ایما پر کیا گیا یا کسی اور کے؟ وزیراعظم نواز شریف تو دیگر سیاسی قوتوں اور صوبوں کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی پر کاربند نظر آتے ہیں، جبکہ اُن کے وزیر داخلہ گورنر راج اور وفاق کی مداخلت کی دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں۔
بہتر یہی ہو گا کہ وزیراعظم اور سندھ کے وزیر اعلیٰ بیٹھ کر اختلافات دور کریں اور کراچی آپریشن کو ایک متعین نظام الاوقات اور طے شدہ دائرئہ کار میں رہتے ہوئے انجام بالخیر تک پہنچائیں۔ اسی میں وفاقی و صوبائی جمہوری سلسلے کی بھلائی ہے۔ نہ کہ کرپشن کا شور مچا کر آپ ایک صوبے پر چڑھ دوڑیں اور پنجاب اور چھوٹے صوبوں کے مابین خلیج بڑھا دیں۔ اور اس خوش فہمی کا شکار ہو کر کہ احتساب کی تپش آپ تک نہ پہنچے گی۔ کرپشن کے خاتمے اور احتساب کو ایک دوسرے سے حساب چکانے کے لئے استعمال کرنے کی بجائے، ایک حقیقی، خود مختار، طاقتور اور غیرجانبدار احتساب کمیشن تشکیل دیجئے جس میںسب سیاستدان اپنی صفائی کے لئے اس کے حضور پیش ہوں۔ اسی میں مکتی ہے اور احتساب کی عزت افزائی۔ ورنہ دونوں بدنام اور پامال۔
وزیر داخلہ کی نیشنل ایکشن پلان رپورٹ کے بعد تو لگتا ہے کہ اس عظیم الشان قومی اتفاقِ رائے سے بنا یا گیا دہشت گردی کے خلاف ہمہ طرفہ منصوبہ صحیح ہاتھوں میں نہیں۔ اس پلان کے سویلین حصے کی ناکامی کے باعث سیکورٹی اداروں کے بڑھتے ہوئے عمل دخل پر اعتراض کی اخلاقی گنجائش کمزور ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ان کو اُن کاموں پر لگا دیں جو اُن کا نہیں۔ بہتر ہو گا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مذہبی و فرقہ وارانہ انتہاپسندی کے خلاف بڑی نظری و فکری، علمی و درسی، ثقافتی و تہذیبی اور سیاسی و جمہوری جنگ سے جوڑا جائے۔ جب تک مذہبی انتہاپسندی ختم نہیں ہوگی، دہشت گردی پھلتی پھولتی رہے گی۔ دہشت گردوں کا صفایا کرنا ہے تو مذہبی و فرقہ وارانہ انتہاپسندی کے خاتمے کے لئے علم و فن، قلم و کتاب، اور فکر و نظر کے میدانوں میں حکومتی اداروں، سیاسی جماعتوں، تعلیمی اداروں، ثقافتی انجمنوں اور ذرائع ابلاغ کو میدان میں اُترنا ہوگا۔ اگر ایسا نہیں ہوتا اور اس کی وزیر داخلہ کو کہاں پروا، تو پھر دہشت گردوں کو شکست دے کر بھی مملکتِ خداداد مذہبی و فرقہ وارانہ انتہاپسندوں کے ہاتھوں تار تار ہو جائے گی۔ ہم یہ افغانستان، عراق، شام، یمن اور لیبیا میں دیکھ رہے ہیں۔ کیا پاکستان بھی اس انتہاپسندانہ طوائف الملوکی کا شکار ہو جائے گا؟ خدا وہ وقت نہ لائے!
تازہ ترین