• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بی بی شہید تو اچھی حکمرانی کا پروگرام لے کر آئی تھیں

محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو ہم سے بچھڑے 8 سال ہو گئے ہیں ۔ آج جبکہ ان کی آٹھویں برسی 27 دسمبر کو منانے کی تیاریاںکی جا رہی ہیں تو ساتھ ہی ان کی پارٹی کی قیادت کو خراب حکمرانی اور کرپشن کے حوالے سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کی مرکز میں5 سال تک حکومت رہی اور سندھ میں تو مسلسل پونے8 سال سے حکومت موجود ہےتاہم پیپلز پارٹی کو عوامی مقبولیت حاصل ہونے کے باوجود اس کی حکومت کے بارے میں لوگوں کا تاثر اچھا نہیں ہے یہ ایک انتہائی افسوس ناک امر ہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اگر آج ہوتیں تو شاید یہ صورت حال نہ ہوتی کیونکہ اس مرتبہ جب وہ طویل جلا وطنی کے بعد واپس آئی تھیں تو وہ پہلے سے مختلف لیڈر تھیں اور ان کے پاس بہترین حکمرانی ( گڈ گورننس ) کے ذریعے انتہا پسندی ، آمریت اور عالمی سازشوں کا مقابلہ کرنے اور پاکستان کو خوش حال و ترقی یافتہ، روشن خیال مملکت بنانے کا ایک واضح پروگرام تھا ۔ اس گڈ گورننس کے پروگرام سے وہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام میں ایک پر امن انقلاب برپا کرنا چاہتی تھیں ۔
18 اکتوبر 2007 ء کو جب وہ نئے پروگرام اور نئے عزم کے ساتھ کراچی ایئرپورٹ پر اتریں تو عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ان کے استقبال کے لئے کراچی میں امڈ آیا تھا ۔ انہوں نے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی اپنے اس عزم کا کھل کر اظہار کرنا شروع کر دیا کہ وہ پاکستان کے لوگوں کی تقدیر بدلنے آئی ہیں ۔ان کی تقریروں میں الفاظ کے چناؤ اور لب و لہجے سے یہ بات واضح ہو رہی تھی کہ وہ اپنے عظیم والد شہید ذوالفقار علی بھٹو کے ان الفاظ کی پاسداری کر رہی ہیں ، جو الفاظ بھٹو شہید نے موت کی کال کوٹھڑی سے محترمہ بے نظیر بھٹو کو لکھے گئے خط میں کہے تھے ۔ وہ الفاظ یہ تھے کہ ’’ آج کی نوجوان نسل صرف اور صرف یہ چاہتی ہے کہ حکومت ان کے ساتھ دیانت داری اختیار کرے ۔ ‘‘ 18 اکتوبر کو کراچی کی شاہراہ فیصل پر کارساز کے مقام پر بم دھماکا ہوا تو محترمہ بے نظیر بھٹو کی کتاب ’’ مفاہمت ‘‘ کا مسودہ بھی انسانی خون میں لت پت ہو گیا ۔ اس مسودے میں ایک جگہ لکھا ہوا تھا کہ ’’ غربت ، ناخواندگی ، بھوک اور خراب حکومت کے خلاف جہاد کا اعلان کرنا اپنے حقیقی معنوں میں کہیں زیادہ اسلامی ہے ۔ ‘‘ یہ ایک جملہ اس کتاب کا حاصل ہے ۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے مفاہمت کا جو فلسفہ دیا ، اس کی بنیاد بھی اچھی حکمرانی اور انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام ہے ۔ انہوں نے نہ صرف مسلم ممالک کی حکومتوں پر زور دیا کہ اچھی حکمرانی قائم کریں اور غربت ، بھوک ، جہالت اور افلاس کے خاتمے کے لئے اقدامات کریں بلکہ انہوں نے ترقی یافتہ مغربی ممالک کو بھی یہ مشورہ دیا کہ وہ اسلامی ممالک میں اس مقصد کے لئے تعاون کریں ۔ مغربی ممالک کے اس تعاون سے اسلامی معاشرے مغرب کے قریب آئیں گے اور مفاہمت کی راہ ہموار ہو گی۔
اپنی کتاب ’’ مفاہمت ‘‘ میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک ایسی مثال دی ، جس پر بہت غورو خوض کرنے کی ضرورت ہے ۔ وہ لکھتی ہیں کہ ’’ دہشت گردی کا ایک نیٹ ورک امریکی صحافی ڈینیل پرل کے قتل میں ملوث ثابت ہوا ۔ افغانستان میں طالبان کے زیر اثر علاقوں میں اس نیٹ ورک نے جابجا تندور اور اوون بیکریاں قائم کی تھیں ۔ ہر روز مائیں اور باپ ان بیکریوں پر آکر اپنے گھرانوں کے لئے مختص کردہ نان لے جاتے تھے ۔ گھر کے ہر فرد کے لئے تین نان مختص تھے ۔ یہ خاندان بھوک سےمر رہے تھے اور اب ان کے پیٹ بھرنے لگے تھے ۔ افغانستان میں اس کی طرف سے قائم کی گئی ہر تندور بیکری میں اسامہ بن لادن کی تصویر آویزاں ہوتی تھی ۔ ماں باپ جب اس روٹی کا راشن حاصل کرتے تھے ، جس سے ان کے بچوں کی زندگی کا سامان ہونا تھا تو کریڈٹ اسامہ بن لادن کو ملتا تھا۔ اس طرح طالبان اور القاعدہ کےلئے پورے افغانستان میں دوستانہ جذبات بڑی تیزی سے پھیل گئے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بار پھر طالبان افغانستان کے بڑے حصے کو کنٹرول میں لئےہوئے ہیں ۔ جزوی طور پر اس کا سبب وہ دوستانہ جذبات ہیں ، جو غریبوں ، بھوکوں ، ننگوں اور بے گھروں کو فراہم کی جانے والی سماجی خدمات کی بدولت پیدا ہوئے ۔ اگر یہی ماڈل پوری مسلم دنیا میں دہرایا جائے اور بین الاقوامی برادری بھی اپنی خدمات فراہم کرے اور عوام سے اس کا کریڈٹ حاصل کرے تو اسلام اور مغرب کے باہمی تعلقات کو آنے والے سالوں میں بے پناہ دوستانہ جذبات میسر آ سکتے ہیں ۔ ‘‘ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے یہ واضح کر دیا ہے کہ عوام کی خدمت کی جائے تو ان سے بہت گہرا رشتہ قائم ہوتا ہے ۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اسی فلسفے کی بنیاد پر پاکستان کے لئے گڈ گورننس کا ایک واضح پروگرام لے کر آئی تھیں ۔ انہوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ وہ ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گی اور ایسی عوام کو ایسا نظام حکومت دیں گی کہ لوگ آمریت اور انتہا پسندی کی طرف راغب ہی نہ ہو سکیں ۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جہاد کو خراب حکومت کے خلاف جہاد میں تبدیل کر دیا تھا ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انتہا پسندی کو شکست دینے کے لئے اچھی حکمرانی کا ہونا ضروری ہے ۔ اچھی حکمرانی نہ صرف انتہا پسندی کا راستہ روکے گی بلکہ اس سے جمہوریت کو بھی تقویت ملے گی۔ انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’ انتہا پسندی ، عسکریت پسندی ، دہشت گردی اور آمریت ایک دوسرے کا پیٹ بھرتے ہیں اور یہ سب غربت ، مایوسی اور عدم مساوات کے ماحول میں پھلتے پھولتے ہیں ۔ انہوں نے ایک دیانت دار اور اچھی حکومت کے لئے جو اقدامات تجویز کئے تھے ۔ ان میں غربت کا خاتمہ ، ایک مستحکم اور نمو پذیر متوسط طبقے کو وجود میں لانا ، خواتین سمیت تمام کمزور طبقات کو ترقی کے مساوی مواقع فراہم کرنا ، لوگوں میں امید اور حقیقی مواقع فراہم کرنے والا تعلیمی نظام وضع کرنا ، لوگوں کو بنیادی ضرورتیں فراہم کرنا اور پائیدار معاشی ترقی کے حالات پیدا کرنا شامل ہیں ۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان کے لئے اپنے اس پروگرام کو ’’ فائیو ای ‘‘ (5E) کا نام دیا تھا ۔ یعنی اکنامک ڈویلپمنٹ ، ایجوکیشن ، ایمپلائمنٹ، امپاورمنٹ اور انرجی کا پروگرام۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے آخری سالوں میں دنیا بھر میں جو لیکچرز دیئے یا تقریریں کیں یا مضامین لکھے ، ان سب کا مرکزی خیال وہی تھا ، جس کی طرف شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے خط میں اشارہ کیا تھا ۔ حکومت اور حکمرانوں کو بہت زیادہ دیانت داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا کیونکہ آج کی نسل اس معاملےمیں بہت زیادہ حساس ہو چکی ہے ۔ شفافیت اور میرٹ کا نظام وضع کرنا ہو گا اور بلا امتیاز احتساب کو رائج کرنا ہو گا ۔ انہوں نے آمریت کے ساتھ ساتھ خراب حکمرانی کو بھی مسلم معاشروں میں بحرانوں کا بنیادی سبب قرار دیا ہے ۔ انہوں نے ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ موجودہ وقت معمول سے بڑھ کر کچھ کر دکھانے کا متقاضی ہے ۔ ‘‘
آج یہ بات انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتی ہے کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اچھی حکمرانی کا ایک پروگرام لے کر وطن واپس آئی تھیں اور اس پروگرام کے ذریعہ عوام دشمن اور سامراجی قوتوں سے ٹکرانا چاہتی تھیں لیکن آج ان کی پارٹی پر خراب حکمرانی اور مبینہ کرپشن کی وجہ سے ایسی تنقید ہو رہی ہے ، جو پہلے کبھی پیپلز پارٹی پر نہیں ہوئی تھی ۔ آمر اپنی تمام تر طاقت کے باوجود پیپلز پارٹی کو ختم نہیں کر سکے لیکن پیپلز پارٹی پر ہونے والی یہ تنقید، خراب حکمرانی اور کرپشن اس کے لئے بہت بڑا خطرہ بن گئی ہے ۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی 8ویں برسی کے موقع پر ان کی نہ صرف بہت زیادہ یاد آرہی ہے بلکہ ان کی شہادت کے عظیم سانحے سے ہونے والے نقصان کا بھی شدت سے اندازہ ہو رہا ہے۔
تازہ ترین