• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گیارہ مئی کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے تقریبا ایک ماہ خوب سوچ و بچار کر کے ابتدائی طور پر 25 رکنی وفاقی کابینہ تشکیل دی تو یہ احساس پختہ ہو گیا کہ وہ ملک میں اختیار کے ساتھ احتساب کی نئی روایت پروان چڑھانے کے اپنے منشور پرکاربند ہیں۔ بطور وزیر اعظم حلف اٹھانے کے بعد جب انہوں نے وفاقی کابینہ کے پہلے اجلاس میں ہی ٹیم کے ارکان کو باور کرا دیا کہ تین ماہ بعد ہروفاقی وزیر کی کارکردگی کو جانچا جائے گا اور جانچ پڑتال کے اس عمل میں جواطمینان بخش نتائج ظاہر نہ کر سکا اس کی گاڑی سے جھنڈا اتار لیا جائے گا تو یہ یقین بھی ہو گیا کہ اب کارکردگی ہی میرٹ ٹھہرے گی ،وزیر اعظم نے اس تنبیہ کے ساتھ ہی وفاقی کابینہ کے ارکان کویہ ہدایت بھی کی وہ اپنی وزارتوں کے اہداف کے بارے میں 15 روز میں ایکشن پلان تیار کر کے پیش کریں تو حکومت کے عوام کی خدمت کرنے کے عزم کا اندازہ بھی ہو گیا۔ تاہم صد افسوس کہ پھر وہی ہوا جو 68 سال سے اس ملک میں ہوتا آیا ہے کہ نہ تو حکومتی گھڑی نے پندرہ دن گزرنے کا الارم بجایا اور نہ ہی وزیر اعظم ہائوس کے کیلنڈر نے تین ماہ گزرنے کا صفحہ پلٹا۔ دن ،مہینے اور سال گزرنے پر جب پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے پڑائو ڈالا،حکومت پر دبائو بڑھا تو خود احتسابی کا بھولا ہوا وعدہ پھر یاد آگیا۔اور تو اور قائد ایوان سمیت حکومتی ارکان کو پارلیمنٹ کا بھولا ہوا راستہ بھی یاد آگیا جہاں وقفہ سوالات،توجہ دلائو نوٹسز،تحاریک التواء اور نکتہ ہائے اعتراضات کے ذریعے وفاقی حکومت سے باز پرس کی جاتی ہے اور اسے جواب دہ بنایا جاتا ہے۔ کہاوت ہے کہ ٹوٹا ہوا بازو اپنے ہی گلے کو آتا ہے،مسلم لیگ ن پر براوقت آیا تو اس نے بھی پارلیمنٹ کو ہی پناہ گاہ بنایا جس پر سینیٹ میں قائد حزب اختلاف بیرسٹر اعتزاز احسن نے ایک دلچسپ لطیفہ سناتے ہوئے حکومت کو اس نا فرمان بیٹے سے تشبیہ دی تھی جو تھانیدار کی طرف سے پٹائی کرنے پرماں کو پکارنے لگا تھا اور ماں نے بیٹے کی چیخ و پکار سن کر تھانیدار کو شاباش دی تھی کہ’ جیوندا رے تھانیدارا توں اس نوں ماں تے یاد کرا دتی اے‘۔ انقلاب اور آزادی مارچ سے سبق سیکھ کروزیر اعظم نواز شریف نے ایک بار پھر حکومت کو عوام اور اس کے نمائندہ ادارے پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ بنانے کا عزم کیا اور وفاقی وزراءکی کارکردگی کا احتساب کرنے کا اعلان کر دیا،وفاقی وزراء سے باز پرس کرنے کے لئے انہیں چار نکات پر مشتمل بریفنگ تیار کرنے کو کہا گیا جن کی بنیاد پر ان کی کارکردگی کو جانچا جانا تھا، وزراء کی کارکردگی کو جانچنے کے لئے جو معیارات مقرر کئےگئے وہ یہ تھے کہ وزارت سنبھالنے کے بعد پارٹی کے منشور پر کتنا عمل کیا گیا، وزارت کے زیر انتظام اداروں اور محکموں میں کیا اصلاحات متعارف کرائیں،عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کیا اقدامات کئے اور مستقبل کے لئے کیا اہداف مقرر کئے۔وزیر اعظم اپنی ٹیم کی کارکردگی کی مانیٹرنگ کے لئے اس بار اتنے سنجیدہ تھے کہ انہوں نے گزشتہ سال 28 اکتوبر کو وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس طلب کیا جس کا صرف ایک ایجنڈا تھا کہ تمام وفاقی وزراء اس خصوصی اجلاس میں باری باری اپنی کارکردگی پیش کریں گے اور یہ اجلاس اتنے دن مسلسل جاری رہے گا جب تک یہ ایجنڈا پورا نہیں ہو جاتا۔ اس اہم کام کی تکمیل کے لئے وزیر اعظم نے پارٹی کے چیئرمین راجہ ظفر الحق اور سیکرٹری جنرل اقبال ظفر جھگڑا کو بھی وفاقی کابینہ کے اس اجلاس میں خصوصی شرکت کے لئے بلایاتھا تاکہ وفاقی وزراء کی کارکردگی کی روشنی میں ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے وہ وزیر اعظم کی معاونت کر سکیں۔ خود احتسابی کے اس عمل کا اہم پہلو یہ بھی تھا کہ وفاقی وزراء سے ان کے زبانی دعوے سننے سے پہلے وزیر اعظم نے اپنے آفس کے ذریعے وفاقی کابینہ کے تمام ارکان کے بارے میں جائزہ رپورٹیں تیار کرا لی تھیں جو انہیں آئینہ دکھانے کے لئے کافی تھیں، مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوں وفاقی وزراء کی جان پر بنی ہوئی تھی اور وہ اپنی کارکردگی رپورٹ کی تیاری کے لئے ماہر بیوروکریٹس کی خدمات ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ اسے ملک کی بد قسمتی کہیں یا ان وفاقی وزراء کی خوش قسمتی کہ وفاقی کابینہ کے اس خصوصی اجلاس کی صرف ایک نشست ہی منعقد ہو سکی ،ملکی حالات کے جبراور حکومتی ترجیحات کے باعث وفاقی وزراءکی کارکردگی جانچنے کا خواب ایک بار پھر شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ انہوں نے بھی سکھ کا سانس لیا، بعض وزراء نے تو پارلیمنٹ کی راہداریوں میں ایک دوسرے کو مبارکبادیں دیں اس ناچیز نے خود سنا جن کے پاس کارکردگی کے نام پر وفاقی کابینہ میں پیش کرنے کو کچھ نہ تھا۔
بعض وزراءایسے بھی ہیں جو صرف مراعات اور پروٹوکول سے لطف اندوز ہو رہے ہیں کیوں کہ انہیں پہلے دن سے اپنا قلمدان ہی پسند نہیں آیا اور بعض ایسے بھی ہیں جو مہینوں اپنے آفس جانے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ قارئین کو یہ بھی بتا دوں کہ وفاقی وزراتوں کی کارکردگی جانچنے کی راہ میں مسلسل روڑے اٹکائے جارہے ہیں کیوں کہ کچا چٹھہ سامنے آنے کا خدشہ ہے۔
اس دعوے سے متعلق حقائق یہ ہیں کہ چند ماہ پہلے وزیر اعظم صاحب نے وفاقی وزیر منصوبہ بندی کو یہ ذمہ داری تفویض کی کہ وہ وزارتوں کی کارکردگی کی مانیٹرنگ کے لئے ایک میکانزم ترتیب دیں اورمختلف معیارات کی روشنی میں رپورٹ تیار کر کے پیش کریں،وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے وزارتوں کی کارکردگی کا تعین کرنے کے لئے ایک میکانزم بنایا جسے پرفارمنس ایگریمنٹ کا نام دیا۔ یہ ایگریمنٹ متعلقہ وزارت اور وزیر اعظم کے مابین ہونا تھا،اسی ایگریمنٹ کے تحت ایک پرفارما تیار کیا گیا،ابتدائی طور پر گیارہ وزارتوں کا انتخاب کیا اور انہیں یہ پرفارما پرُ کرنے کے لئے بھجوایا جس میں اس وزارت کے منصوبوں سے لے کر بجٹ تک تمام تفصیلات شامل تھیں لیکن متعلقہ وزارتوں نے اس ضمن میں تعاون کرنے سے انکار کر دیا،احسن اقبال نے وزیر اعظم کو صورتحال سے آگاہ کیا لیکن بات آئی گئی ہو گئی اور انہوں نے بھی ساتھی وزراءکی ناراضگی مول لینے کی بجائے چپ سادھنے میں ہی عافیت جانی۔ ویسے بھی انہیں گزشتہ دنوں حکومتی ترجیحات کا اس وقت بخوبی ادراک ہو گیا تھا جب انہوں نے حکومت کی وسط مدتی کارکردگی کے جائزے کے لئے ایک ورکشاپ منعقد کرنا چاہی تو وزیر اعظم کے ارد گرد موجود لوگوں نے عین اسی دن سرمایہ کاری کانفرنس کا انعقاد کر کے انہیں اس ’نیک کام‘ سے باز رہنے کا اشارہ دے دیا تھا۔ اب وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے رضاکارانہ طور پر اپنی وزارت کی کارکردگی کی رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کر کے اپنے ان ساتھیوں کے لئے ایک بار پھر مشکلات پیدا کر دی ہیں جو گزشتہ ڈھائی سال سے مختلف حیلے بہانوں کے ذریعے خود احتسابی کے عمل سے بچتے آئے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ چوہدری نثار کے اس عمل کو ان اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں کی طرف سے بھی سراہا گیا ہے جو کراچی میں بد عنوانی اور دیگر جرائم میں ملوث اپنے ساتھیوں کو احتساب سے بچانے کے لئےرینجرز کو اختیارات دینے پر راضی نہیں ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم عدل سے کام لیتے ہوئے اپنی کابینہ کے ارکان کے درمیان کارکردگی کی بنیاد پر ردو بدل کرنے کا وعدہ پورا کرتے ہیں یا گزشتہ ڈھائی سال کی طرح آئندہ بھی مصلحت سے کام لیا جائے گا۔
تازہ ترین