• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تیسری بار وزیرِ اعظم بننے والے نواز شریف نجانے کیوں خارجہ پالیسی کو ابھی تک وہ اہمیت نہیں دیتے جو دینی چاہئے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے تین سال گزر نے کے باوجود ابھی تک با قاعدہ کوئی وزیرِ خارجہ مقرر نہیں کیا۔ خارجہ امور کے بارے میںتاثر ہے کہ ان کی اپنی استعداد صرف اپنے ذاتی تعلقات تک محدود ہے۔ جس کا اندازہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کے ساتھ ان کے ذاتی تعلقات سے لگایا جا سکتا ہے۔ وہ خارجہ امور کو بھی اپنی ذاتی تشہیر کے لئےاستعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ حالیہ دنوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ انکی ٹیلیفونک گفتگو کی پریس ریلیز اس کی ایک مثال ہے۔ اس قسم کی خبر سے پاکستان کو فائدہ پہنچنے کی بجائے نقصان پہنچنے کا زیادہ احتمال ہے کہ سفارتی آداب سے بے خبر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس خبر کی وجہ سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ازالے کے طور پر وزیرِ اعظم نے طارق فاطمی کو امریکہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو انکے مشیران میں سے ایک مشیرِ باتدبیر ہیں۔ اسی طرح سارک کانفرنس کے موقع پر ہندوستان نے افغانستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ ملکر کانفرنس کا بائیکاٹ کردیا۔ جس کے نتیجے میں پاکستان میں منعقد ہونے والی یہ کانفرنس ہی منسوخ کر دی گئی۔ اور پاکستان کچھ نہ کر سکا۔ خارجہ محاذ پر یہ بھارت کی ایک بڑی فتح تھی جس نے پاکستان کو اپنے قریبی ہمسائیوں کی ہمدردیوں سے بھی محروم کردیا۔ جن میں تمام برادر اسلامی ممالک یعنی افغانستان، ایران اور بنگلہ دیش شامل تھے۔ وزیرِ اعظم نے اس موقع پر بھی خارجہ پالیسی کو مضبوط بنانے کی کوشش نہ کی اپنے کسی منتخب نمائندے کو مکمل وزیر ِ خارجہ کے اختیارات تفویض نہ کئے بلکہ غیر منتخب سرتاج عزیز اور طارق فاطمی پر ہی تکیہ کئے رہے۔ کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جائے کہ ان کے منتخب اراکین ِ اسمبلی میں سے کوئی ایک شخص بھی اس قابل نہیں جو وزیرِ خارجہ کی ذمہ داریاں سنبھال سکے یا انکے نزدیک وزارتِ خارجہ کی کوئی حیثیت نہیںحالانکہ وزارتِ خارجہ بیرونی دنیا میں کسی ملک کی واحد نمائندہ حیثیت کی حامل ہوتی ہے جس کے ذریعے بیرونی دنیا اس ملک کا چہرہ دیکھتی اور اسکی شناخت کرتی ہے۔ بدقسمتی سے بیرونی دنیا میں پاکستان کی شناخت کوئی اچھی نہیں۔ لوگ ہمیں دہشت گرد ی اور مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے جانتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بیرونِ ممالک ائیر پورٹس سے لیکر عام پبلک مقامات تک لوگ ہمیں شکوک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس کا بڑا سبب ہمارے عاقبت نا اندیش حکمرانوں کی وہ تباہ کن پالیسیاں ہیں جو انہوں نے قومی مفادات کی بجائے اپنے غیر ملکی مہربانوں کو خوش کرنے کے لیے اپنائیں جس کے تحت ہمیں انتہا پسند گروہ بنانے کے لئے فنڈنگ دی گئی اور ہم نے ساری دنیا سے جنگجوئوں کو اکٹھا کیا۔ انہیں پناہ دی اور ٹریننگ دیکر اُن دشمنوں سے لڑنے کے لئے بھیج دیا جو اصل میں ہمارے دشمن تھے ہی نہیں۔ بلکہ اُن طاقتوں کے دشمن تھے جو ہمیں انکے خلاف استعمال کررہی تھیں۔ اُن دنوں جب کچھ حضرات اس خدشے کا اظہار کرتے تھے کہ ہم جو شدت پسند پال رہے ہیں ایک دن وہ ہماری گردنیں بھی کاٹیں گے مگر ان کو اپنی نظریاتی سرحدوں کا محافظ قرار دیا جاتا تھا۔ بلکہ اُس وقت ہمارے حکمرانوں کے آقائوں نے انہیں ایسی تھپکیاں دیں کہ سچ مچ اپنے آپ کو سپرپاور سے کم نہیں سمجھتے تھے اور اسی زعم میں ان ’’ فاتحین ِ افغانستان‘‘ نے تزویراتی گہرائی کے نام پر افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ سمجھنا شروع کر دیا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ جانیں ہماری گئیں اور فتح کا سہرا کسی اور کے سر بندھا۔ ہمیں ہیروئن، کاشنکوف کلچر، افغان مہاجرین اور دہشت گردی ملی اور ہمیں دہشت گرد وں کا سرپرست قرار دے کر وہ طاقتیں دنیا میں رسوا کرنے لگیں۔ جن کی خاطر ہم نے اپنی سرزمین کو ان ہی کے خون سے رنگین کردیا تھا۔ گویا سب کچھ لٹا کر بھی نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم حال ہی میں ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی کا سب سے بڑا مظاہرہ امرتسر میں ’’افغانستان کے بارے میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں ہوا ہے۔ جس کے مشترکہ اعلامیہ میں لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی کالعدم تنظیموں کا نام لیکر پاکستان کو رسوا کیا گیا ہے جس کا پاکستا ن کی طرف سے زیادہ سے زیادہ جواب یہ دیا گیا ہے کہ مشیرِ امورِ خارجہ سرتاج عزیز کانفرنس چھوڑ کر وطن واپس آگئے ہیں۔
موجودہ دور میں پاکستان کی فوج دہشت گردی کو کچلنے کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہی ہے اور ہزاروں پاکستانی خود دہشت گردی کا شکا ر ہو چکے ہیں تو یہ حقائق دنیا کو کیوں نہیں بتائے جا رہے، اور یہ حقائق کس کو بتانے ہیں، پاکستان کے سافٹ امیج کو دنیا کے سامنے کس کوپیش کرنا ہے۔ یہ سب کام وزارتِ خارجہ کے ہیں کہ وہ پاکستانی قوم کو دنیا کے سامنے ظالم کی بجائے مظلوم کے طور پر پیش کرے۔ لیکن ایسا نہ کر کے موجودہ حکومت پاکستان کی رسوائی کا باعث بن رہی ہے۔ لہٰذا نواز شریف کے موجود ہ دور کو پاکستانی تاریخ کے ناکام ترین خارجہ پالیسی کے دور کے طور پر یاد کیا جائے گا۔

.
تازہ ترین