• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج سے تین دن بعد 27دسمبر، بی بی کا یوم شہادت ہے!
گزرے ہفتہ پاکستان پیپلزپارٹی کے جواں سال چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اسلام آباد تشریف لے گئے، بلاول پارلیمنٹ ہائوس بھی گئے، سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی سےملاقات کی، پارٹی کے دیرینہ جیالے قاضی سلطان محمود کی یادوں کا احترام کرتے ہوئے ان کی رہائش گاہ پر جا کے تعزیت کی، بڑی بوڑھیاں بینظیر بھٹو کے فرزندارجمندکی دید پراشک بار بھی ہوئیں، سینیٹ جانے کے موقع پر وزیٹرز گیلریوں میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، پارلیمنٹ کےارکان سمیت سب نے مستقبل کے خواب کا والہانہ استقبال کیا ، جن کی سیاست جدا تھی وہ بھٹوز کی قومی خدمات کے اعتراف میں بلاول کی محبت کے اسیر ہوئے، ایسالگتا تھا پارلیمنٹ اور آئین کی بالادستی جیسے ادارے اور اقدار پاکستانی ریاست کی بدصورتی کواپنے من میں کسی حسین پیکر میں تبدیل کرنے جارہی ہیں!
سب سے انمٹ لمحہ!
وہ تھا جب زرداری ہائوس اسلام آباد میں آرمی پبلک اسکول کے شہدا کے ایصال ثواب میں قرآن خوانی کروائی گئی، سوگوار فضا میں عزم کی شمعیں روشن کیں!
گزرے ہفتے! اسلام آباد کے اس دورے میں انہوں نے پی پی سیکرٹریٹ میں بھی بھرپور وقت گزارا۔ کون کون ان سے ملا، ایسی کوئی تفصیل میرے پاس نہیں۔ چونکا میں بہت ہی محترم قلمکار کے اس انکشاف پر جس کے مطابق، پی پی کے سیکرٹریٹ میں ’’ان کاپی پی پی میں شامل کچھ نئے چہروں نےاستقبال کیا، یہاں بلاول کو بعض لیڈروں نے جو اُن کے والد کے دور ِ حکومت میںنمایاں ہوئے، بریفنگ کے دوران یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ اپنی تقریروں میں کشمیر کا زیادہ تذکرہ نہ کریں کیونکہ مسئلہ کشمیر اب ختم ہو گیا ہے‘‘ تشویش انہیں یہ ہے ’’یہ مشورہ ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے کو دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو قومی سیاست میں مسئلہ کشمیر پر ڈٹ جانے کی وجہ سے ہی ابھرے تھے‘‘ اور یہ کہ ’’ذوالفقار علی بھٹو نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’کشمیر کی آزادی کے لئے ایک ہزارسال تک جنگ لڑنا پڑی تو لڑیں گے‘‘ ساتھ ہی انہیں ایک دوسری تشویش نے آن لیا جس کی رو سے ’’کل کلاںبلاول کو یہ مشورہ بھی دیاجاسکتاہے کہ ’’روٹی کپڑامکان‘‘کا نعرہ بھی پرانا ہو گیا ہے۔ یہ نیا دور ہے اب اس کی جگہ پارٹی کو نیا نعرہ اپنانا چاہئے!‘‘جیسا کہ اعتراف کیا جاچکاہے، میرے لئے وہ بہت ہی محترم و مکرم قلمکار ہیں، پورے اخلاص سے ان کی دونوں الجھنوں کا احترام کرتا ہوں، بس اس اضافے کے ساتھ، بلاول نوجوان ہے، ذہنی ادراک میں لیکن انہی صلاحیتوں سے فیض یاب کیا گیا، جو اپنی اس نوعمری میں پی پی کے ’’کاہل اورسست رہنمائوں‘‘ کا عنوان منتخب کرکے انہیں اپنی کارکردگی دکھانے یا پارٹی سے سبکدوش ہوجانے کا‘‘ انتباہ کرسکتے ہیں وہ اپنی نظریاتی سیاسی وراثت کے بنیادی تاریخی اجزا اور برصغیر کی دھرتی پہ موجود شعلہ فشاں عوامی احساسات کے بیرومیٹر سے قطعی بے خبر نہیں ہوسکتا۔ پی پی ایک قومی سیاسی جماعت ہے جس میں متنوع جہات کے لوگوں کی موجودگی اور ان کے اثرات اپنا رنگ دکھاتے رہتے ہیں، مگرپاکستان پیپلزپارٹی کی بنیادی دستاویز کی امانت جسے سپرد کی گئی اس نے بھی ایک امانت دار کوکھ سے جنم لیا ہے، وہ یہاں کے عوام یا عالم تمام کے عوام، کی جس میں فلا ح و نجات ہے اس سے کبھی سرمو انحراف نہیں کرے گا۔ میں نے بی بی شہید کی یاد میں ان کےفرزند اصیل کا ذکر کیا، اب چلتے ہیں ان سے جڑی بعض یادوں کی جانب، جن کے لئے مرتضیٰ انجم اور بی بی شہید کے ’’سائے‘‘ بشیر ریاض کے مرتب کردہ مواد سے استفادہ کیا گیا۔
’’دوسری مدت ِ اقتدار کے دوران مجھے سیکورٹی پر بریفنگ دینے کے لئے ایک مرتبہ پھر جنرل ہیڈکوارٹر ز میں مدعو کیاگیا۔ ڈائریکٹر ملٹری آپریشن میجر جنرل پرویز مشرف (جو بلاشبہ بعد میں چیف آف آرمی اسٹاف اور اقتدار چھین کر صدر بنے) نے مجھے بریفنگ دی۔ مجھے یہ گھسا پٹا منظر محسوس ہواکیونکہ ایک مرتبہ پھر میں نے یہ سنا کہ اگر میں احکامات جاری کردوں تو پاکستان کس طرح سری نگر پرقبضہ کرسکتا ہے۔ مشرف نےاپنی بریفنگ ان الفاظ پر ختم کی کہ فائربندی ہو جائے گی اور پاکستان کا مقبوضہ کشمیر کےدارالحکومت سری نگر پرقبضہ ہو جائے گا۔ میں نےان سے استفسار کیا اس کے بعد کیا ہوگا؟ وہ میرے سوال پر حیران ہوئے اور کہا کہ اس کےبعد ہم پاکستان کا جھنڈا سری نگرکی پارلیمنٹپر لہرا دیںگے۔پھر کیا ہوگا؟ میں نے جنرل سے پوچھا۔ اس کے بعد آپ اقوام متحدہ جائیں گی اور انہیں بتائیں گی کہ سری نگر اب پاکستان کے کنٹرول میں ہے،اس کے بعد کیاہوگا؟ میں نےاصرارجاری رکھا، میں دیکھ سکتی تھی کہ جنرل مشرف اس قسم کے سخت سوالوں کے لئے تیار نہ تھے اور اس صورتحال سے گھبرا گئے۔ انہوں نے کہا کہ اور..... اور آپ انہیں بتائیں گی کہ نئے جغرافیائی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا کا نقشہ تبدیل کردیں۔
’’میں جو کچھ لکھتاہوں وہ کمزوریوں سے پر ہے۔ میں بارہ مہینےسےقید تنہائی میں ہوں اور تین مہینے سےموت کی کوٹھری میں ہوں اورتمام سہولتوں سے محروم ہوں۔ میں نے اس خط کا کافی حصہ ناقابل برداشت گرمی میں اپنی ران پر کاغذ کو رکھ کر لکھا ہے۔ میرے پاس حوالہ دینے کا کوئی موادیا لائبریری نہیں ہے۔ میں نے نیلا آسمان بھی شاذو نادر ہی دیکھا ہے۔ حوالہ جات ان چند کتابوں سے لئے گئے ہیں جن کو پڑھنے کی بھی اجازت تھی اور ان اخبارات و رسائل سے لئے گئے ہیں جوتم یا تمہاری والدہ اس دم گھونٹنے والی کوٹھری میں مجھ سے ہفتہ میں ایک بارملاقات کرنے کے وقت ساتھ لے کر آتی ہو۔ میں اپنی خامیوں کے لئے بہانے نہیں تراش رہا ہوں لیکن اس قسم کے جسمانی اور ذہنی حالات میں گرتی ہوئی یادداشت پر بھروسہ کرنا مشکل ہوا کرتا ہے۔
میں پچاس سال کا ہوں اور تمہاری عمر میری عمر سے نصف ہے۔ جس وقت تم میری عمر کو پہنچو گی تمہیں عوام کے لئے اس سے دگنی کامیابی حاصل کرنی چاہئے جس قدر کہ میں نے ان کے لئے حاصل کی ہے۔ میر غلام مرتضیٰ جو میرا بیٹا اور وارث بھی ہے وہ میرے ساتھ نہیں ہے اور نہ ہی شاہنواز اور صنم میرے ساتھ ہیں۔ میرے ورثے کے حصہ کے طور پر اس پیغام میں ان کو بھی شریک کیاجائے۔
امکانات تو بہت زیادہ ہیں، دائو پر بہت کچھ لگا ہوا ہے! میں آنے والی نسل کے لئے ٹینی سن کا مایوس کن لیکن اسی طرح سے آفاقی پیغام چھوڑتا ہوں کہ ’’50 سال کی عمر میں میں کیسا ہو جائوں گا اگر قدرت نے مجھے زندہ رکھا جبکہ اس پچیس سال کی عمر میں دنیا کو اس قدر تلخ پاتا ہوں۔‘‘ (ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی، 21جون 1978۔ بی بی شہید کے نام بھٹو صاحب کا ایک خط، )
’’ہم پہلے ہی انٹیلی جنس بیورو پر شک کااظہار کرچکے ہیں مگراس شک کو دور کرنے کے لئے کوئی انتظامات نہیں کئے گئےہیں، ہمیں شک ہے کہ ’’اٹھارہ اکتوبر (2007) کو سفید کار میں بم دھماکہ ہوا تھا‘‘ پیپلزپارٹی کی سربراہ کاکہنا تھا ’’پاکستان کے بعض ادارےہر دور میں خودساختہ رہنما پیدا کرتے رہے ہیں پہلے انہیں پروان چڑھاتے ہیں اور کام نکل جانے کےبعد انہیں مار دیا جاتا ہے، جیسے نیک محمد اور مولانا غازی عبدالرشید کو بنایاگیا، اب مولانا فضل اللہ کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔ سوات میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے جمہوریت کو غیر مستحکم کرنے اور اسے تباہ کرنے کی کوشش ہے۔‘‘
’’ایک دفعہ ایک شام طے پایا کہ لبرٹی میں جا کر جوس پیا جائے، وہاں جا کر بی بی نے پیجارومیں بیٹھ کر جوس پیا۔ پھر ایبٹ روڈ پرمرغ چنے کھانے کا پروگرام بنا۔ چنانچہ ڈرائیور کو ایبٹ روڈ چلنے کا کہا۔ مسز عذرا خالد اور میں ان کے ساتھ تھے۔ پھر یوں ہوا کہ ملتان سےایک پارٹی لیڈر ناظم حسین شاہ نے ہمارا پیچھا شروع کردیا۔ بی بی نے یہ دیکھا تو گاڑی کا رخ دوسری طرف کرنے کو کہا لیکن اس کے باوجود اس نے تعاقب جاری رکھا۔ بی بی کے کہنے پر میں نے ان کےپاس جا کر کہا کہ آپ پیچھا نہ کریں، بی بی کو اپنی پرائیویسی میں اس قسم کی دخل اندازی پسند نہیں، اس نے یہ دلچسپ جواب دیا کہ میں تواپنی لیڈر کاپیچھا کر رہا ہوں، آخر کار انہوں نے مان لیاکہ انہیں پیچھا نہیں کرنا چاہئے۔ چنانچہ ہم ایک چکر کاٹنے کے بعد دوبارہ ایبٹ روڈ آئے اور مرغ چنے کھائے۔اپریل 1986 میں جلاوطنی کے بعد بی بی نے پنجاب کا دورہ کیا۔ ہم جس شہر جاتے وہاں بی بی کی پسندیدہ جلیبی اور برفی تلاش کی جاتی۔ بی بی کو ساحر لدھیانوی کا یہ گیت ’’کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے‘‘ بہت پسند تھا۔ مکیش کی آواز میں یہ یادگار گیت وہ دوران سفراکثر سنا کرتیں۔ مجھے بھی مکیش کےگانے پسند تھے اور ہم نے مکیش کے گانوں کے کیسٹ بی بی کے لئے حاصل کئے جس سے وہ اپنی سیاسی مصروفیات کے بعد اکثر محظوظ ہوتی تھیں اور ان کا دیرینہ ملازم عرس دوران سفر اس کیسٹ کو اپنے ساتھ رکھتا اورکسی کو ہاتھ نہ لگانے دیتا۔
1984 میں محترمہ نے پاک ٹی ہائوس کے معروف ویٹر شریف بنجارہ کو ایک لاکھ روپے کی مالی امداد دی جس سے اس نے اپنی بیٹی کی شادی کافریضہ ادا کیا، اس کے کچھ عرصہ بعد ہی وہ انتقال کرگئے۔ بی بی کی عادت تھی کہ وہ عوامی رابطہ مہم کے دوران عموماً غریب لوگوں سے ملاقات کرتیں۔ غربت زدہ خواتین کو گلے لگاتیں اور ان کی مدد کرتیں۔ بی بی کو اولیا کرام سے بہت عقیدت تھی اور وہ مزارات جاکر دعا اور نفل ادا کیا کرتیں، وہ تو ہم پرست نہیں تھیں لیکن اس سے انہیں ذہنی و قلبی سکون ملتا۔‘‘ (بشیرریاض )

قرآن کریم کی مقدس آیات اور احادیث نبویﷺ آپ کی دینی معلومات میں اضافے اور تبلیغ کیلئے شائع کی جاتی ہیں۔ ان کا احترام آپ پر فرض ہے ۔ لہٰذا جن صفحات پر یہ آیات درج ہوں ان کو صحیح اسلامی طریقے کے مطابق بے حرمتی سے محفوظ رکھیں۔
تازہ ترین