• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکمرانی جمہوریت موجود، نظریاتی جمہوریت غائب۔ مملکت کا وجہ وجود ایک نظریہ، گم گشتہ ہو چکا۔ جمہور نے جمہوریت کی قوت سے نظریاتی اتفاق رائے دکھایا، نظریاتی مملکت کا وجود ممکن بنایا۔ مفاداتی سیاست آماجگاہ بنا چکی۔ بدقسمتی، ایسی جمہوریت بچانا، ذمہ داری اور مجبوری بن چکا۔ کیسی جمہوریت؟ مقتدر طبقہ کی ذات اور خواہشات تک محدود۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم عملاً چار انتظامی مملکتیں جنم دے چکی۔ اٹھارہویں ترمیم، تیسری دفعہ وزیراعظم بننے کے عوض، پیپلزپارٹی اور اے این پی کے لیے نوازشریف کا تحفہ سمجھیں۔ تعلیم، صحت، تجارت، خزانہ، معدنیات، وسائل، ہر اہم معاملہ، چاروں صوبوں کے دائرہ کار میں سب مالک و خودمختار۔ صوبوں کی موجودہ خودمختاری کے سامنے شیخ مجیب کے چھ نکات پر وجہ نزاع، ناقص، لغو اور بے کار ہی کہلائے گی۔
رہنما اصول قومی شعار بنے تو کرنے کے سارے کام آسان رہے۔ رہنما اصول قومی ترجیح، ہر شعبہ ہائے زندگی میں مضبوط ومربوط ادارے وجود میں آئے۔ نظریہ، قومیت، جغرافیہ، زبان، جہاں جہاں جس نکتے پر باشندگان مملکت کا اتفاق رائے تھا، وہی رہنما اصول ٹھہرا۔ امریکہ، یورپ، جاپان، چین، بھارت، روس جو جو ملک کرہ ارضی پر حاوی نظر آتے ہیں سب کے اندر ایک قدر مشترک، اپنے نظریہ اور رہنما اصول کے تابع پالیسیاں ترتیب دیں۔ مسلمانان ہند کی تحریک آزادی کو نظریاتی جہت کے تابع لائے۔ تحریک آزادی کا رہنما اصول بنا۔ رہنما اصول بھلا تھا کیا؟ بقول عظیم قائد، ’’چودہ سو سال پہلے، محمد رسولﷺ فرقان الحمید کی صورت میں جو کچھ چھوڑ گئے، مسلماناں ہند کا رہنما اصول یہی کچھ ہے‘‘۔ عظیم قائد کا اپنا فرمان، ’’ایسی آزادی نہیں چاہئے، جس میں مسلمانان ہند کے لیے علیحدہ نظریاتی مملکت موجود نہ ہو‘‘۔1936-37ہندوستان میں منعقد ہونے والے پہلے عام انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کو شکست کا سامنا رہا۔ عظیم قائد اور فلسفی حکیم الامت نے شکست کی وجوہات اپنے وجود کے اندر تلاش کیں۔ عظیم قائد نے پیر و مرشد کے خطوط کی روشنی میں ساتھیوں کے سامنے نسخے کی تفصیلات رکھیں، دلجمعی سے پرکھیں۔ نظریہ میں جائے اماں پائی۔ پوری قوت سے مسلمانانِ ہند کو ایسی نظریاتی پکار دی، پورا ہندوستان گونج اٹھا۔ چاروں اطراف سے لبیک، لبیک کی آوازیں، کانوں کے پردے پھاڑنے لگیں۔ تین سال پہلے شکست فاش سے دوچار ہونے والی پارٹی، 23 مارچ 1940 لاہور، ایک جم غفیربادشاہی مسجد کے سائے تلے،وسیع وعریض میدان، ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ان گنت جمہور امڈ آیا۔شک نہیں کہ جب ’’ان الدین عنداللہ الاسلام‘‘(آل عمران19:) رہنما اصول بنا تو جمہور نے آمنا و صدقنا کہا۔ رنگ، نسل، زبان، فرقہ بندی سے بالاتر ہوکر نظریاتی مملکت کے لیے جدوجہد، تاریخ انسانی کا ایک سنہری باب ہے۔ 1946-47کے انتخابات میں، عظیم قائد اور ان کے ساتھیوں کو تاریخی کامیابی ملی۔ 27رمضان المبارک، جمعۃ الوداع آزادی کا دن۔ عظیم قائد نے مانگا نہ وہم وگمان میں۔ اسٹینلے وولپرٹ نے 14اگست 1947 پر اپنی تحقیقی کتاب (Shameful Flight) میں ’’تاج برطانیہ کی اس عاجلانہ حرکت کو شرمناک کہا اور پاکستان کو ناکام بنانے کی سازش قرار دیا‘‘۔ ناشکری یا ناشناسی، ہر دو صورتوں میں اللہ کی گرفت، لازم وملزوم ٹھہری۔ کیا موجودہ افراتفری، نفسا نفسی، خوف، ڈر، چھینا جھپٹی، باہمی تصادم، اللہ کی گرفت ہی؟ آج کی ساری سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی صورت، اقتدار پر قابض ہیں۔ تصورِ پاکستان سے نابلد یا سرے سے نظریہ سے چڑ، بہرطور ہر دو صورتوں میں بیخ کنی میں مستعد ومصروف ہیں۔ آج دنیا میں پاکستان واحد مملکت جو اپنے رہنما اصول سے برأت لے چکا۔ اہل وطن! یہ بات ازبر کرلو۔ مملکت خداداد کا وجود، ’’اسلام اور اردو زبان‘‘ کے ساتھ نتھی ہے۔ آج نظریہ لاموجود۔ تو پھر موجودہ جمہوری نظام کس جانور کا نام ہے؟ اپنی ذات پر حیف کہ ایسی جمہوریت کی حمایت میں سینہ سپر رہا جو پاکستان کے لیے تعویز نہیں سرطان ہے۔ پچھلے دو سالوں کے پُرخطر اور کٹھن مراحل سے بچتی بچاتی مفاداتی جمہوریت 2018کے الیکشن کے انتخابات کی جانب کامیابی سے گامزن ہے۔ موجودہ نظام سے مستفید نظریاتی طور پر بانجھ پارٹیاں، قومی سانحہ ہی تو ہیں۔ مالی واخلاقی کرپشن جھوٹ، بددیانتی، نااہلی کے الزامات میں گھرے جمعیت سیاستدان و سیاسی پارٹیاں آج بھی اقتدار میں اور آنے والے انتخابات میں بھی اپنے اپنے صوبوں میں ایسی کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کی طرف گامزن ہیں۔ کچھ اطراف تو مزید پُرخطر ہیں۔ مثلاً سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کی اپوزیشن خود ایم کیو ایم، بلا شرکت غیرے مالک ہے۔ دیہی سندھ میں پیپلزپارٹی کی یہی کیفیت، اکیلی دندناتی پھرتی ہے۔ اگرچہ پنجاب کی کثیر تعداد (خصوصاً پڑھا لکھا پنجاب) نے پورے جوش وجذبے سے تحریک انصاف کو مسلم لیگ ن کے مقابلے میں پذیرائی بخشی۔ عمران خان کی ہمت کہ نااہلی، کم استعدادی، منفی، سازشی، محلاتی، احمقانہ سیاست اور بے ہنگم ہوس اقتدارنے تحریک انصاف کو نمبردو اپوزیشن پارٹی کی مضبوط جگہ سے کمزور تر مقام پر پہنچا دیا ہے۔ موجودہ صورت حال، پانامہ لیکس پر اگرفیصلہ ن لیگ کے خلاف آتا ہے تو تحریک انصاف کا کچھ دال دلیا بچ جائے گا۔ بفرض محال، موجود شواہد کی نشاندہی بھی یہی، فیصلہ تحریک انصاف کے خلاف آتا ہے تو نہ صرف تحریک انصاف کا ’’مکو ٹھپا‘‘ جائے گا، پنجاب کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنا ہو گا۔ صوبہ سندھ کی شہری ودیہی سیاست کی طرز پر نئی سیاست پنپے گی۔ جملہ ہائے معترضہ (تفصیلی بات اگلے کالم میں)، اہم بات اتنی کہ تحریک انصاف کے اکابرین نے آج ہی فیصلہ کیا ہے کہ’’ عوامی عدالت میں بھی جائیں گے۔ یعنی، عدالت پر دبائو ڈالنے کے لیے عوامی دبائو بڑھائیں گے‘‘۔ اس سے پہلے عدلیہ پر دبائو بڑھانے کی ناکامی پر ہی تو اعتماد متزلزل ہوا۔ بے وقوفوں کی طرح عدالت پر عوامی دبائو کے ہنر کو دوبارہ آزمانے کی ٹھان لی ہے۔ ساتھ ہی حسب سابق سوشل میڈیا کو استعمال میں لا کر عدالتوں کو زدوکوب کرنے کی مشقت بھی جاری ہے۔ عدلیہ کے خلاف تحریک انصاف کی مہم جوئی ہر زاویہ سے قابل مذمت ہے۔ تحریک انصاف کی سیاست ایسی رہی تو 2018 میں مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں، ایم کیو ایم یا پیپلزپارٹی جیسا مینڈیٹ ملنے کو ہے، انتہائی خطرناک رحجان ہوگا جبکہ کے پی میں نتائج بمطابق آج کی طرز پر ہوں گے۔موجودہ صورت حال میں تحریک انصاف، شیر پائو گروپ اور جماعت اسلامی نے مل کر الیکشن لڑا تو موجودہ مقتدر ٹولہ صوبہ پر اپنی گرفت مزید مضبوط کر جائے گا۔ بلوچستان میں آج کی طرز بھانت منی کا کنبہ ہی حکومت کرے گا۔ بعد از2018ءکا سیاسی نقشہ آج کا تسلسل ہی سمجھیں۔ ہمیشہ کی طرح چنائو جمہور کرے گا اور اپنے ارمانوں کا خون اپنے ہاتھوں ہی ہوگا۔ بہرحال یہ جمہوریت کہلائے گی۔ عظیم قائد کے متعین رہنما اصول پامال رکھنے میں ملال ایسے ہی نظر نہ آئے گا۔ اردو زبان ’’گھر کی لونڈی‘‘ اور غیر ملکی زبان ’’گھر کی مالکن‘‘ رہے گی۔ دھڑکا، موجودہ صورت حال میں قحط الرجال، دور دور تک دیدہ ور قیادت کا فقدان، مخدوش حالات کو بہتر کون بنائے گا؟




.
تازہ ترین