• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ویسے تو سوشل میڈیامیں روزانہ کی بنیادوں پر کسی منفی یا مثبت موضوع کو لے کر تنقیدی اور تعریفی لہجوں سے ’’لیس‘‘ مختلف طبقہ فکر کے لوگ ایک دُوسرے پر جملوں اور فقروں کے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہر کوئی اپنے آپ کو حق سچ بات کہنے والا ثابت کرنے کے در پے ہے اس عمل کے لئے کیچڑ اُچھالنا، الزام تراشی کرنا، بے بنیاد کہانی ترتیب دے لینا، کسی کے بیانات کو غلط طریقے سے پیش کرنا، اپنے لئے معصومیت کے لباس کی زرہ بکتر پہن کر میدان میں اُترنا، تصویروں کو اپنی منشا کے مطابق ’’ایڈیٹنگ‘‘ کرکے اُنہیں نفرت کی توپ میں رکھ کر مد مقابل کی طرف پھینکنا، دوسروں کی گفتگو کو ’’توڑ مروڑ‘‘ کر اُس کی شکل ایسی نکال لینا کہ حملہ کرنے کا بہانہ بن سکے، سوشل میڈیا کی اِس جنگ میں کلاشنکوف کی جگہ ’’قلم کوف‘‘ اور خنجر کی جگہ منفی سوچ استعمال کی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر نُمودار ہونے والے فلاسفروں سے نہ تو تعلیمی اسناد پوچھی جاتی ہیں، نہ تجربہ کا سرٹیفکیٹ مانگا جاتا ہے اور نہ ہی وہ اجازت نامہ دیکھا جاتا ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ جو چاہے لکھے یا شائع کر دے۔ آج کل یہ فلاسفی چترال سے اسلام آباد جانے والے پی آئی اے کے ATRطیارے کی تباہی کے موضوع پر ’’جھاڑی‘‘ جا رہی ہے۔ ایک گروپ سب کو شہید ثابت کرنا چاہتا ہے جبکہ دوسرا گروپ اُس سے اختلاف کر رہا ہے۔ ایک گروپ پی آئی اے کو طیارے کی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے تو دوسرا اللہ کی رضا کہہ کر دفاع کر رہا ہے۔ ایک گروپ کہتا ہے کہ پاکستان میں ATRبند کرنے کا فیصلہ دُرست ہے جبکہ دُوسرا گروپ اِن طیاروں کو محفوظ ترین قرار دے رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے فلاسفروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پی آئی اے کے چیئر مین اعظم سہگل نے استعفیٰ اِس لئے نہیں دیا کہ اے ٹی آر طیارہ تباہ ہوا اور تب وہ پی آئی اے کے چیئر مین تھے وہ ایک زندہ ضمیر اور شریف انسان ہیں، ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے شرمندگی یا ملامت محسوس کرتے ہوئے استعفیٰ دیا ہے، فلاسفروں کا ماننا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بنائے گئے صاف و شفاف انکوائری سسٹم کی کسوٹی پر ’’پرکھے‘‘ جانے کے عمل نے ان کو مجبور کیا کہ وہ استعفیٰ دے کر کہیں رُوپوش ہو جائیں۔ لیکن اُنہیں شاید معلوم نہیں کہ نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ہوتے ہوئے وہ نہ تو رُوپوش ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اُنہیں کوئی رعایت ملنے والی ہے، اُنہیں اِس طیارہ حادثہ کی انکوائری میں جواب دہ تو ہونا پڑے گا کیونکہ وہ وقت اب دُور نہیں جب سب کا حساب ہونا ہے۔ ہمسایہ ملک چائنا میں تین سو جہازوں کو کنٹرول کرنے کے لئے چند درجن ملازمین ہیں جبکہ قومی ائیر لائن کے چالیس کے قریب طیاروں کو سنبھالنے کے لئے سینکڑوں ملازمین نوکریاں کر رہے ہیں جس کی وجہ سے پی آئی اے اربوں روپوں کے گھاٹے میں ہے، اِس بے ترتیب مینجمنٹ کا جواب لینے والے بہت جلد پی آئی اے کی طرف دھیان مبذول کرنے والے ہیں ادارے کے فنڈز سے دُوسرے ممالک جا کر عیاشیاں کرنے والوں کی شامت آنے میں تھوڑا وقت رہ گیا ہے، مصروفیت ہے تو بس آخری دہشتگرد کے خاتمے کی۔ بارسلونا ائیر پورٹ پی آئی اے کے لئے تاریخ کا سب سے زیادہ منافع دینے والا اسٹیشن ثابت ہوا تھا۔ پھر چند سالوں بعد وہی اسٹیشن نقصان دینے والا بن گیا، اس وجہ سے پاکستان سے بارسلونا اور بارسلونا سے یو ایس اے کے لئے پی آئی اے نے اپنا آپریشن بند کر دیا تھا۔ تقریباً دو سال پاکستان سے بارسلونا اور بارسلونا سے پاکستان کے لئے براہ راست پروازیں بند رہیں،کمیونٹی معززین اور سفارت خانہ پاکستان نے اسپین میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کی تعداد اور اُن کے مسائل کے پیش نظر براہِ راست پروازوں کے اجرا کی درخواستیں حکومت پاکستان تک پہنچائیں اُن درخواستوں پر عملدرآمد ہوا اور اسلام آباد اور لاہور سے پیرس آنے والی قومی ائیر لائنوں کی دو پروازوں کو بارسلونا سے ہوتے ہوئے واپس پاکستان جانے کے لئے احکامات جاری کر دئیے گئے اور پہلی فلائٹ 12ربیع الاول والے دن پیرس سے بارسلونا آئی اور یہاں سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہو گئی۔ سفیر پاکستان رفعت مہدی، قونصل جنرل بارسلونا اور قونصلرز کے ہمراہ جی ایس اے اسپین اور ڈسٹرکٹ منیجر پی آئی اے لاہور بھی پہلی پرواز کے مسافروں کو الوداع کہنے ائیر پورٹ پر موجود تھے۔ پاکستانی مسافروں کے چہرے خوشی اور خوف کے ملے جلے تاثرات دے رہے تھے، وہ خوش تھے کہ آٹھ گھنٹے بعد اپنے وطن کی سر زمین پر ہونگے، لیکن کچھ ہی دن پہلے پی آئی اے کی اے ٹی آر پرواز کو حادثہ پیش آنا اور اُس حادثے کی اصل وجوہات کا نہ بتایا جانا مسافروں کے ڈرنے کی وجہ بھی بنا ہوا تھا، مسافروں کے ڈرنے کا ایک پہلو قومی ائیر لائن کی ناقص کارکردگی بھی تھا، جو پاکستانی اپنے اہل خانہ کو پاکستان رخصت کرنے آئے تھے انہوں نے بتایا کہ پاکستان جانے والے ہمارے رشتہ دار جب بارسلونا سے چلنے والی پہلی پروازکے اندر پہنچے تو انہوں نے جہاز کی اندرونی حالت کے بارے میں ہمیں فون پر بتایا کہ صفائی کا فقدان، پرانی اور ٹوٹی ہوئی سیٹیں ہمارے ڈر میں مزید اضافہ کر رہی ہیں۔ مسافروں کا کہنا تھا کہ حادثہ تو کسی بھی جہاز کو پیش آ سکتا ہے لیکن اللہ نے احتیاط کرنے کا جوحکم دیاہے قومی ائیر لائن کو اُس کے مطابق محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اِس عمل کی اُمید تو نہیں، لیکن مسافروں کو اچھی سروس دینا، مقامی کمیونٹی میں اپنی ائیر لائن کا با قاعدہ تعارف کرانا، اخبارات اور ٹی وی چینلز پر پبلسٹی کرنا، ٹکٹ سیل کرنے والے ٹریول ایجنٹس اور جی ایس اے (جنرل سیلز ایجنٹ) دوسری ائیر لائنز کی بجائے قومی ائیر لائن کی ٹکٹیں فروخت کریں، اِن ایجنٹس کی طرف سے قومی ائیر لائن کو ’’پروموٹ‘‘ کیا جانا، نئے اور بڑے جہاز، اسٹاف کی کم تعداد، ملازمین کے لئے کم مراعات اور وقت کی پابندی پی آئی اے کو یورپی ممالک میں کامیاب اور منافع بخش بنا سکتی ہے۔




.
تازہ ترین