• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یقینا آپ تائید فرمائیں گے کہ جو بندہ آدھے گھنٹے کی ملاقات میں دس مرتبہ اپنی پارسائی کا ڈھنڈورا پیٹے وہ عملی زندگی میں ہر طرح کی دو نمبری روا رکھتا ہے ۔ جو خواتین و حضرات بات بات پر اپنی سچائی کی قسمیں اور آپ کے کان کھاتے ہوئے زور دیتے ہیں کہ انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، وہ اول درجے کے چھوڑو اور جھوٹے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ہمارا ایسا قلم کار ہر جگہ سینہ تان کر تکرار کرے کہ اس نے قلم کبھی نہیں بیچا تو اس سے مراد یہ ہے کہ یا تو وہ اپنے قلم کی حرمت کا سود اکر چکاہے یا پھر اس کا قلم خریدنے کے لئے کسی نے پھوٹی کوڑی تک کی آفر نہیں کی۔ جو ذرا سی بات پر تنک کر گرجے ’’ ایسی ویسی نہیں ہوں میں ‘‘ وہ ایسی ویسی ہی ہوتی ہے …تائید فرمانے کا شکریہ ۔ ہمارے سماجی رویوں کے تضادات بڑے دلچسپ اور عجیب ہیں ۔ اگر آپ کا محبوب ہر ملاقات میں یہ تسبیح پڑھنا ضروری سمجھتا ہے کہ آپ اس کی پہلی اور آخری محبت ہیں تو سمجھ لیں کہ دال میں ضرورکچھ کالا ہے اور اگر خود آپ بھی ہر مرتبہ اپنے محبوب کو ایسی یقین دہانی کرانا لازمی تصور کرتے ہیں تو آپ کی داڑھی میں بھی کئی تنکے ہیں ۔ حالانکہ اگر دونوں پہلی ہی ملاقات میں ایک دوسرے کو بتا دیں کہ وہ کتنی مرتبہ یہ جھک مار چکے ہیں تو ان کی زندگی آسان ہو جائے ۔ اگر اربابِ اقتدار میں سے کوئی پرجوش عزم کا اظہار کرے کہ ہم لوڈ شیڈنگ ختم کر کے دم لیں گے توپھر بلا تاخیر مایوس ہو جائیے کہ ایسا ویسا کچھ نہیں ہوگا۔ جب کوئی وزیر با تدبیر کسی نئے ٹیکس یا تیل کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کرتے ہوئے جانکاری دے کہ عام آدمی پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا تو عام آدمی کو چاہئے کہ وہ اپنی دھوتی اور بنیان کو مضبوطی سے پکڑ لے ۔ ایسی خوشخبریوں سے ان اشیاء کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں ۔ جو خاتون باتوں کی MP3 سی ڈی ہوتی ہے وہ اپنا تکیہ کلام دہرائے ہی چلی جاتی ہے کہ میں تو زیادہ نہیں بولتی ۔ جو پڑوسیوں کے گھریلو معاملات کی ٹوہ میں پی ایچ ڈی ہوتی ہے ، وہ یہ راز چٹخارے لیتے بتاتے ہوئے یہ ضرور کہتی ہے کہ میں دوسروں کے معاملات میں دلچسپی نہیں رکھتی ۔ جو ہمہ وقت اپنے ضمیر کی آواز سننے کا ورد کرتے رہتے ہیں ، ان کی مراد اصل میں ضمیر ہاکر ہوتا ہے جو لاری اڈے پر آوازیں لگاتا ہے ۔
آپ نے کئی جاہلوں کو الیکشن ہارنے کے بعد کہتے سنا ہوگا کہ عوام جاہل ہیں جو صالح اور نیکو کاروں کو چھوڑ کر بد کرداروں کو ووٹ دیتے ہیں ۔ جو دنیا کے سامنے ہر روز دنیا کو طلاق دیتے نہیں تھکتے،ان کے دل کے نہاں خانوں میں دنیا کی محبت کاسمندر ٹھاٹھیں مار رہاہوتا ہے ۔ جو اپنے کردار کی بلندی کے دیپک راگ چھیڑنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ، ان کے کردار میں ضرور جھول ہوتا ہے ۔ ایک متمول تاجر اپنی خاتون دوست سے شادی کا خواہاں تھا۔ اس نے لڑکی کا کردار جاننے کے لئے ایک پرائیویٹ سراغ رساں ایجنسی کی خدمات حاصل کیں ۔ ایجنسی نے اپنا سیکریٹ ایجنٹ خاتون کے پیچھے لگا دیا، جس نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ لڑکی نہایت شریف اور اچھے کردار کی حامل ہے ، البتہ پچھلے دو ماہ سے ایک مشکوک چال چلن کے تاجر کے ساتھ دیکھی جا رہی ہے ۔ ایک دفعہ ہمارے دوستوں کی محفل میں ایک اجنبی صاحب آ بیٹھے اور خود ہی اپنے کردار کی عظمت کے گن گانے لگے ۔ اس حوالے سے جب انہوں نے چوتھی مرتبہ کسی شاعر کایہ شعر دہرایا کہ ’’تُساں شملے اُچے رکھے /اَساں ناڑے سُچے رکھے‘‘ تو ان کا ایک ناہنجار سا محرم بول پڑا ’’کچھ شرم کرو یار! ابھی کل ہی تو پڑوسن کے ساتھ پکڑے جانے پر محلے بھر میں بے عزت ہوئے ہو ‘‘۔
جو نرگسی طبیعت اپنے علاوہ باقی تمام لوگوں کی بے ایمانی پر کڑھتا ہے وہ خود بے ایمانو ں کا چیئرمین ہوتا ہے ۔ جو اپنے تئیں خود کو علوم پر اتھارٹی سمجھتے ہیں ، وہ حقیقت میں خالی کنستر ہوتے ہیں ۔ دانش کے نام پر ہمہ وقت دھول اڑانے والا سب کچھ ہو سکتا ہے مگر دانشور نہیں ۔ جو موقع بے موقع خم ٹھونک کر دعویٰ کرے کہ اس نے کبھی اپنے بچوں کو حرام نہیں کھلایا یا کسی کا حق نہیں مارا تو وہ دراصل اپنے اندر کی چوری کو چھپا رہا ہوتا ہے ۔ کچھ لوگ جو ہر روز گلے اور اسپیکرپھاڑ کر اتحاد بین المسلمین کے درس دیتے ہیں ، انہی کے رشحاتِ فکر سے فرقہ وارانہ فسادات جنم لیتے ہیں ۔ قبر و آخرت سے لوگوں کو ڈرانے والے خود ان سے کبھی نہیں ڈرتے ۔ جو خود کو قوم کے لئے چھتناور شجر گردانتے ہیں وہ اصل میں ٹنڈ منڈ ،سوکھے اور بے ثمر درخت ہوتے ہیں ۔ اکثر جو دوسروں کو جہاد کے فضائل پر لیکچر دیتے نہیں تھکتے، خود جہاد کے موسم میں اہسپتال میں داخل ہو جاتے ہیں ۔ خود کو حب الوطنی کے قطب مینار سمجھنے والے ہی وطن کی جڑیں کھوکھلی کرتے ہیں ۔ جنہوں نے قومی غیرت اور خود مختاری کو اپنے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے ، وہی ریاست کی غیرت اور عملداری چیلنج کرنے والوں کے سکہ بند حمایتی ہیں ۔ جو ہر دم ملکی مفادات کا سود اکرنے والوں پر لعنتیں بھیجتے ہیں ،وہ خود ڈالرز اور درہم و دینار کے ڈھیروں کے آگے ڈھیر ہو جاتے ہیں ۔’’مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید‘‘ (عطر وہ ہے جو خود چہار سو خوشبو پھیلائے ،نہ کہ عطا ر بتائے کہ یہ عطر ہے ) پارسا وہ ہے جسے لوگ پارسا کہیں ۔ سچا وہ ہے جسے دوسرے سچا سمجھیں ۔ باکردار وہ ہے جس کے کردار کی خلق ِ خدا گواہی دے ۔ سچی محبت نظر کے رستے خود ہی ’’فریق مخالف‘‘ کے دل میں گھر کر جاتی ہے ۔ جس محبت کا دن میں کئی مرتبہ یقین دلانا پڑے وہ مشکوک محبت ہوتی ہے ۔ کسی کے باضمیر ہونے کا سرٹیفکیٹ وہ جاری کرتے ہیں، جن سے اس کا واسطہ پڑتا ہے۔ عالم وہ ہے جسے لوگ عالم سمجھیں اور اس سے مستفید ہوں۔ دانشور وہ ہوتا ہے جس کی دانش سے معاشرہ منور ہوکر خود اس کی دانش کی شہادت دے۔ سروں پر تنگ نظری کے آہنی خول چڑھا کراپنے تئیں خود کو دانشور قرار دیاجا سکتا ہے لیکن ظالم سماج تو انہیں کنوئیں میںٹر ٹرانے والا ایک جاندار ہی سمجھتا ہے۔ اگر کوئی قوم کے لئے چھتناور شجر ہے تو اسے خود یہ گردان کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس کی چھائوں میں سکون پانے والوں کی محبت ہی اس کی سند ہوتی ہے۔ صرف متشاعر ہی کو ہر جگہ اعلان کرنا پڑتا ہے کہ وہ شاعر ہے۔ شعراء کو تو لوگ خود ہی سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ اگر کوئی حکومت عوام دوست ہے تو حکمرانوں کو اپنے کارناموں کے نقارے بجانے کی حاجت نہیں ہوتی، یہ اختیار عوام کے پاس ہے اور وہ بن مانگے اسے عوام دوستی یا دشمنی کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیتے ہیں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ علم، رواداری، منطق، دلیل، معقولیت کے بغیر اور انتہا پسندی، عدم برداشت اور جھوٹ کے اجارے میں معاشرہ اسی طرح بلاک رہتا ہے، جیسے بدون شام، ایران، عراق اور انڈونیشیا 34ممالک کا ’’مسلم بلاک‘‘ ہے۔
تازہ ترین