• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتے عمرے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس گھر جا کر کیا ہوا ،کیسے شب و روز گزرے، آنکھ کہاں نم ہوئی ، سینہ کہاں شق ہوا، دل کہاں پسیجا، دامن کیسے تر ہوا، خوف کہاں کہاں محسوس ہوا، حوصلہ کیسے کیسے ملا یہ سب لکھنے کی تاب نہیں ہے۔عمل کمتر اور علم محدود ہے۔ بس اتنا لکھنا بہت ہے کہ وہاں پہنچا تو احساس ہوا کہ میں ان عبادت گزار لوگوں سے بہت کمتر اور حقیر ہوں۔نہ میں ان مقامات مقدسہ پر پہنچنے کے قابل تھا نہ انکی زیارت کے لائق۔ اپنے گناہوں پر پشیمان سا اپنی خطائوں کی گٹھڑی تھامے میں خوف زدہ سا دبکا رہا۔ کہیں کوئی جان نہ لے ، کہیں کوئی پہچان نہ لے۔ توبہ کا در تو کھلا تھا، رحمت کا آسمان تو نور برسا رہا تھا مگر مجھ سا گنہگار ہاتھ پھیلاتے ہوئے ڈرتا رہا۔ معافی مانگتے گھبراتا رہا۔ اسکی رحمت سے شکوہ نہیں اپنے اعمال کا بوجھ نہیں سنبھالاجاتا تھا۔ ایک احساس تھا کہ مجھ سا گناہ گار کوئی نہیں اور اس سا رحیم بھی کوئی نہیں ۔بس چپ سی لگی تھی ۔خامشی سی چھا گئی تھی۔ سناٹا سا ہو گیا تھا۔ پھر کیا ہوا ۔ روشنی کو ظہور کیسے ہوا؟آسمان پر بادل کیسے آئے ؟ابابیلیں فضا میں کیسے اڑانیں بھرنے لگیں یہ سب لکھنے کی تاب نہیں ۔ یہ راز ہے۔ ذاتی سی بات ہے۔ دل میں رہنے کے لائق۔
سعودی عرب میں بہت سے دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ سب کے ذکر کا موقع تو نہیں مگر جہانزیب منہاس کی بات کئے بغیر بات نہیں بنے گی۔ پیشے کے اعتبار سے تو ڈیزائنر ہیں۔ مسجد نبوی میں ہی ایک دفتر میں کام کرتے ہیں۔ اس مقام مبارکہ کے توسیعی منصوبے میںانکا ہنر بھی شامل ہے۔ بنیادی طور پر صحافی ہیں ۔ ہر اس شخص سے دیرینہ مراسم ہیں جن کے ساتھ رابطہ ضروری ہے۔ منیٰ حادثے کے موقع پر انکی بروقت رپورٹنگ ہر چینل پر دکھائی گئی۔ سعودی عرب میں ہونے والے اہم واقعات کے بارے میں پاکستان سے انہی سے رائے لی جاتی ہے۔ پاکستانی کمیونٹی میں بہت مقبول یہ نوجوان ایک خدائی خدمت گار کی طرح مدینہ منورہ میں ہر پاکستانی کی مدد کے لئے ہر لمحہ سینہ سپر رہتا ہے۔خدمت اسکا بنیادی مقصد ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں زائرین مدینہ جاتے ہیں۔ یہ سب سے رابطہ رکھتے ہیں۔ سب کا بھلا سوچتے ہیں۔ دن رات کی فکر سے ماوراء رہتے ہیں۔ جو بھی ان سے ملے ان کے گن گاتا ہے ۔ دعائوں میں یاد رکھتا ہے۔
سلطان کیکاوس کیانی ۔ نام بھی منفرد اور شخصیت بھی۔ فطرتاً مہمان نواز ۔ صحت کے شعبے سے تعلق ہے۔اتنے برسوں سے مدینہ میں مقیم ہیں کہ اب واقعی سلطان لگتے ہیں۔ عربی بھی اسی خوش الحانی سے بولتے ہیں۔ صحت کے شعبے میں کام کرنے والے جب بیمار ہوتے ہیں تو علاج کے لئے بیرون ملک جاتے ہیں۔ کیکاوس کیانی نے کہیں جانے سے انکار کیا۔ مدینہ سے روانگی انکو گوارا نہیں تھی۔ مسجد نبوی کے اطراف میں دعا کرتے رہے۔ بیماری بھی ختم ہو گئی اور پریشانی بھی۔ اس اعتقاد اور اعتماد والے لوگ کم ، کم ہی نصیب ہوتے ہیں۔
مختار علی اور فیصل طفیل دونوں جدہ میں مقیم ہیں۔ مختار تو کمال کے خطاط ہیں ۔ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر جانے پہچانے جاتے ہیں۔ خطاطی کے ہنر کو ہی حصول رزق کا ذریعہ بنا لیا۔ ان اصحاب سے ملاقات کی وجہ خطاطی نہیں شاعری ہے۔ دونوں ہی کمال کے شاعر ہیں۔ لفظ کو برتنے کے ہنر سے واقف ہیں۔ شعر کے قواعد جانتے ہیں۔ قافیے ردیف کے اثر سے واقف ہیں۔ غزل اور چھوٹی بحر میں شعر کہنا جانتے ہیں ۔ ان سے ملاقات کیا ہوئی صحرا میں پھول کھل گئے۔ بروقت اور بر محل جملہ کہنے کا ہنر سب کو نہیں آتا۔ شکیل صاحب اس ہنر سے واقف بھی ہیں اور بات کہنے کا سلیقہ بھی جانتے ہیں۔ جدہ میں اردو کی خدمت کے سلسلے میں ان دو افراد کا کام بہت قابل ذکر ہے۔ اردو کے فروغ کے لئے تنظیم بنائی گئی ، مشاعرے کروائے گئے ، مشاہیر کو دعوت دی گئی، تقاریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس نیک کام میں یہ دونوں نوجوان اس طرح بڑھ چڑھ کر لگے ہوئے ہیں جیسے یہ انکا فرض منصبی ہو۔انہی کے لئے تفویض ہو ۔ انہی کا منصب ہو۔
مختار علی کاشعر ملاحظہ کریں۔
کس نے کہا تھا عشق میں شامل کرو ہوس
اب مستقل وصال کا ماتم کیا کرو۔۔۔
اور فیصل طفیل کہتے ہیں۔
یہ بھی اچھا ہوا ٹوٹا نہ ستارہ کوئی
ورنہ الزام تو مجھ خاک نشیں پر آتا
ان احباب کا ذکر تو ضروری تھا ہی اب مرحلہ چند سوالوں کا ہے۔بہت سنا تھا کہ وہاں عورتوں پر ظلم ہوتا ہے۔ پردے کی پابندی زبردستی کروائی جاتی ہے۔عورتوں کو اپنی آواز بلند کرنے کا حق نہیں جینے کا حق نہیں۔ ہمیں ہی دیکھیںہمارے ہاں تو عورت کو آزادی ہے۔ پردہ کرنا اپنا اختیار ہے۔ ڈرائیونگ کا حق حاصل ہے۔ لیکن یہاں صورت حال بہت مختلف پائی۔ عورتیں پردہ ضرور کرتی ہیں مگر یہ ان پر مسلط نہیں ہے انکی حفاظت کے لئے ہے۔ عورتیں سب کام کرتی ہیں۔ دکانوں میں سیلز گرل بھی ہیں۔ بیوٹی شاپس بھی چلاتی ہیں۔ سڑک پر رات کے کسی بھی وقت بے خوف خطر اکیلے سفر کر سکتی ہیں۔ اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی بدتہذیبی یا مار پیٹ کی شکایت کر دے تو قانون فی الفور حرکت میں آتا ہے۔ عدالت میں ایسے مردوں کو فورا سزا سنائی جاتی ہے۔ امیر اور غریب میں فرق نہیں برتا جاتا۔ ہمارے ہاں کی آزادی کا کیا فائدہ جہاں گاڑی چلانے والی خواتین کی تعداد اتنی نہیں جتنی تیزاب سے جل کر مرنے والیوں کی ہے۔ ہم اس آزادی کی آڑ میں گھروں میں مار پیٹ بھی کرتے ہیں اور اکیلی عورت کو سڑک پر دیکھ کر سب کے دلوں میں شیطان بھی جاگ جاتا ہے۔
پاکستان میں یو ٹیوب پر ایک مدت سے پا بندی رہی۔ چند بدبختوں نے کچھ گستاخانہ مواد یو ٹیوب پر ڈالا اور پورے پاکستان میں بھونچال آگیا۔ مظاہرے ہوئے۔ آگ لگائی گئی۔ حیرت اس بات پر ہوئی کہ سعودی عرب جو خانہ خدا ہے جہاں روضہ رسول ہے جہاںکا تقدس تمام مسلمانوں پر فرض ہے وہاںیو ٹیوب پر کوئی پا بندی نہیںہے ۔ مکہ اور مدینہ میں بھی یوٹیوب آسانی سے کھل جاتی ہے۔ اس بارے میں دریافت کیا تو جواب ملا کہ کسی کتاب میں اگر کوئی گستاخانہ مواد ہے تو اس کتاب پر پابندی لگائی جائے نہ کہ تما م کتابوں کو بین کر دیا جائے۔ یو ٹیوب نہ ہونے کی وجہ سے پاکستانی جن مذہبی معلومات سے محروم ہو ئے وہ کچھ اس طرح سے ہیں۔ یو ٹیوب پر قران پاک کی کسی بھی آیت کا ترجمہ مع تفسیر کسی بھی وقت ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ کسی فقہہ سے متعلق کسی مسئلے کا حل ہر فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو انکے علماء کے مطابق مل جاتا ہے۔مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سال کے بارہ مہینے اور چوبیس گھنٹے لائیو دیکھا جا سکتا ہے۔ مقامات مقدسہ کی زیارت انتہائی قریب سے کی جا سکتی ہے۔ کعبہ شریف کا اندرونی منظر جسکی زیارت صرف بادشاہوں کو نصیب ہوتی ہے ایک عام آدمی یو ٹیوب پر دیکھ سکتا ہے۔ غار حرا جسکی بلندی تین ہزار فٹ ہے اور غار ثور جسکی بلندی پانچ ہزار فٹ ہے اسکی زیارت گھر بیٹھے کی جا سکتی ہے۔سعودی حکومت نے اپنے مین سرور پر ایسا فلٹر سسٹم لگا رکھا ہے کہ توہین آمیز خاکے تو کیا کوئی بھی فحش مواد نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ سسٹم اور مین سرور کے فلٹر چند آئی ٹی ایکسپرٹس کو سعودی عرب بھیج کر ٹریننگ کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو اپنی آئی ٹی پالیسی کو ان نکات پر تشکیل دینا ہو گا۔ ورنہ پاکستانی بہت سی مقدس اور متبرک زیارات اور مناظر سے محروم رہ جائیں گے۔یاد رکھیئے ۔علم کے دروازے بند کرنے سے جہالت کا اندھیرا پھیلتاہے اور ہمیں تو حکم ہے کہ مشاہدہ کرو، سیکھو، جانواور علم حاصل کرو۔
تازہ ترین