• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انہیں ہر کام میں جلدی تھی، ان کو ربیع الاوّل پسند تھا اور ان کی سب سے بڑی خواہش شہادت تھی اور پھر وہ جلدی چلے گئے، ربیع الاوّل میں گئے اور انہیں ملی بھی شہادت ہی!
جب گرمیوں کے ایک اتوار کی شام گھر کی گھنٹی بجنے پر میں نے دروازہ کھولا اور اپنے محلے کے ہر دلعزیز تبلیغی طارق بھائی کو سات آٹھ افراد کے ساتھ کھڑ ے دیکھا، جب طارق بھائی سے ہاتھ ملاتے ہوئے میری نظر ان کے ساتھ آئے باریش افراد سے پھسلتی ہوئی سب سے پیچھے کھڑے سفید شلوار قمیض میں سر پر سفید ٹوپی پہنے جنید جمشید پر پڑی، جب سب کو نظرانداز کرتے ہوئے میں نے جنید جمشید کی طرف بڑھتے ہو ئے کہا ’’جے جے بھائی آپ یہاں‘‘ اور جب ہاتھ ملانے کی بجائے وہ آگے بڑھ کر مسکراتے ہوئے بغلگیر ہوئے تب یہ جپھی اُس رشتے میں ڈھلی کہ جو آگے چل کر سب رشتوں پر بھاری پڑا، مجھے یہ بھی اچھی طرح یاد کہ اس روز محلے کی مسجد میں عشا ء کی نماز پڑھانے اور گھنٹہ بھر بیان کے بعد جنید بھائی نے ایسی دعا کروائی تھی کہ ڈھائی تین سو لوگوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا کہ جس کی آنکھیں نہ بھیگیں۔
پھر پچھلے سال نومبر کی ابرآلود سہ پہر، ہفتے میں 2تین بار فون کرنے والے جنید بھائی کی کال آئی، علیک سلیک کے بعد بولے ’’کہاں ہو‘‘ میں نے کہا ’’جنید بھائی اپنے دفتر میں‘‘ کہنے لگے ’’کتنی بار کہا ہے کہ No جنید بھائی، صرف جے جے بھائی، خیر ایک ایڈریس میسج کر رہا ہوں، یہاں آ جاؤ، مولانا طارق جمیل آئے ہوئے ہیں‘‘، عصر کے وقت جے جے بھائی کے بتائے ہوئے ایڈریس پر جب میں اسلام آباد کے پوش سیکٹر میں ایک محل نما گھر کے وسیع وعریض ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو 20پچیس افراد کے گھیرے میں قالین پر بیٹھے مولانا طارق جمیل کا درس جاری تھا، میں ایک طرف بیٹھ گیا اور ابھی مجھے بیٹھے 5منٹ بھی نہ ہوئے ہوں گے کہ اچانک جے جے بھائی کی نظر مجھ پر پڑی، وہ اٹھے اور مسکراتے ہوئے آکر ایک گرم جوش Hug مار کر بولے ’’غائب نہ ہوجانا، بہت باتیں کرنی ہیں‘‘، مغرب سے تھوڑی دیر پہلے مولانا طارق جمیل کا درس ختم ہونے اور حاضرین کے سوال وجواب کے بعد مولانا طارق جمیل کی امامت میں نماز پڑھ کر جب میزبان وہیں قالین پر سفید چادریں بچھا کر رات کا کھانا لگا رہے تھے تو اُسی دوران جے جے بھائی جب یہ بتا چکے کہ ’’گرین ٹی اور کافی مسلمانوں کی ایجاد‘‘ اورجب وہ باسی روٹی کھانے کی تلقین کرتے ہوئے یہ سنا چکے کہ ’’جس روٹی پر رات گزر جائے، اللہ اس میں نور بھر دیتا ہے‘‘ تب میں نے ایک بے تکا سا سوال کر دیا کہ ’’جے جے بھائی شوبز کی دنیا یاد نہیں آتی‘‘، میری پلیٹ میں مرغی کا سالن ڈال کر خود دال کھاتے جے جے بھائی نے پہلے حیرانی سے میری طرف ایسے دیکھا کہ جیسے میں نے کوئی’’آؤٹ آف سلیبس‘‘ سوال پوچھ لیا ہو، پھر وہ لقمہ منہ میں ڈال کر بولے ’’شوبز کی دنیا بالکل یاد آتی ہے مگر یوں کہ اتنا قیمتی وقت وہاں کیوں ضائع کر دیا‘‘ میں نے ان کی بات کاٹی ’’لیکن وہ چکا چوند روشنیاں، وہ آٹو گراف اور فون نمبر مانگتی لڑکیاں‘‘، لقمہ چباتے جے جے بھائی نے منہ کے آگے ہاتھ رکھ کر ہنسنے کے بعد کہا ’’بھائی یہ سب تو ابھی بھی ہو رہا، گزشتہ رات ہی ایک بھلی مانس کا فون آیا ’’کہنے لگی کہ آپ کی یاد راتوں کو سونے نہیں دیتی‘‘ میں نے کہا ’’بی بی جب بھی میری یاد سونے نہ دے تو وضو کر کے نفل پڑھ لیا کرو اور ہو سکے تو تہجد بھی‘‘ اتنا کہہ کر زیرِ لب مسکراتے جے جے بھائی میری طرف جھکتے ہوئے شرارتی انداز میں بولے ’’میرا یہ جواب سن کر اس بھلی مانس نے انگریزی میں ایک بڑی سی گالی دے کر فون ہی بند کردیا‘‘ اس سے پہلے کہ میں اگلا سوال کرتا مولانا طارق جمیل کی آواز آئی ’’جنید آج بہت ہنس رہے ہو، کیا بات ہے‘‘، جے جے بھائی نے ہنستے ہوئے ہی یہ کہہ کر کہ ’’طار ق بھائی یہ باتیں بتانے والی نہیں‘‘ پھر سے سر جھکا کر کھانا کھانے اور مجھ سے باتیں کرنا شروع کر دیں۔
دوستو! کیا کیا بتاؤں اور کیا کیا سناؤں، وہ جے جے بھائی جو فائٹر پائلٹ بننا چاہتے تھے نہ بن سکے، جو ڈاکٹر بننا چاہتے تھے نہ بن سکے، جو انجینئر بننا چاہتے تھے نہ بن سکے اور کبھی کبھار اپنے بھائی ہمایوں کا گٹار بجانے والے جنہیں گلوکاری پسند نہ تھی مگر وہ گلوکار بن گئے، وہ جے جے بھائی جنہوں نے شوبز ’’بائی چانس‘‘ نہیں ’’بائی چوائس‘‘ چھوڑا اور ایسا چھوڑا کہ جب وہ شوبز کی تمام کمائی خیرات کر چکے اور جب وہ ملٹی نیشنل کمپنی کا 3کروڑ سالانہ کنٹریکٹ ٹھکرا چکے تب مالی حالت یہ تھی کہ ان کے پاس بچوں کی فیس اور والدہ کے علاج کیلئے پیسے نہ تھے، وہ جے جے بھائی سوشل میڈیا پر جن کی ایک خاتون کے ساتھ تصویر دیکھ کر جب میں نے ان کے موبائل پر ایک سخت میسج بھیجا تو چند لمحوں بعد ہی جواب آیا ’’اللہ سے معافی مانگ چکا، بھائی سے معافی کاطلب گار ہوں‘‘، وہ جے جے بھائی جن کے سامنے جب بھی میں کسی کے خلاف بات کرنے کی کوشش کرتا تو فوراً میرے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہتے ’’یہ غیبت ہے اور غیبت گناہ کبیرہ‘‘، ایک مرتبہ تنگ آ کر جب میں نے کہہ دیا ’’شیطان کی برائی کر سکتا ہوں‘‘ تو ہنس کر بولے ’’ہاں مگر اپنی برائیاں اس کے کھاتے میں نہ ڈالنا‘‘، وہ جے جے بھائی جو قبرستان میں گھنٹوں بیٹھ کر کہا کرتے ’’قبرستان والے میرے سچے دوست، اسی لئے میں یہاں ان سے دل کی باتیں کرنے آتا ہوں‘‘، وہ جے جے بھائی جن کا تکیہ کلام تھا کہ ’’اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے اپنی آخرت کی فکر کر لو‘‘ جو ہر ایک سے درخواست کیا کرتے ’’اپنی قوم کے اتحاد کیلئے کچھ کرو کیونکہ اُمت کو آپس میں جوڑنا آج کی بڑی نیکی‘‘، جو بار بار یہ دہرایا کرتے ’’ہمارے سیدھے کام بھی الٹے اس لئے ہو رہے کہ اللہ ہم سے ناراض، جب ہم اللہ کو راضی کرلیں گے تو ہمارا سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا‘‘، جن کی آنکھیں یہ بتاتے ہوئے بھیگ جاتیں کہ ’’ایک اللہ، ایک رسولؐ اور ایک قرآن کو مان کر بھی نجانے کیوں ہم ایک نہیں ہور ہے‘‘، جو کہا کرتے کہ’’مجھے پاکستان سے اتنی ہی محبت، جتنی اپنے ماں باپ سے‘‘ اور جنہیں میں نے گالیاں اور دھکے کھا کر بھی دعائیں دیتے ہی دیکھا، صاحبو! اسی جے جے بھائی کے اچانک چلے جانے سے اب تک میں یہی سوچ رہا کہ جب 14ہزار فٹ بلندی پر محو پرواز ان کا طیارہ پہلی بار ڈگمگایا ہو گا، جب مسلسل نیچے آتے طیارے کو سنبھالتے پائلٹ کی 11کوششیں ناکام ہو گئیں، جب 7ہزار فٹ نیچے آکر طیارے کے انجن نے آگ پکڑی اور جب لڑکھڑاتے اور ڈگمگاتے طیارے میں موجود چیختی چلاتی زندگیوں کی آخری ایک منٹ 25سکینڈ کی الٹی گنتی شروع ہوئی، تب ان جان لیوا لمحوں میں سڑک کے کنارے زخمی بلی کو دیکھ کر رو پڑنے اور کسی کو انجکشن لگتا نہ دیکھ سکنے والے نرم دل اور نرم مزاج جے جے بھائی پر کیا بیتی ہو گی، انہوں نے آخری بار کیا سوچا، کیا دیکھا اور کیا کہا ہوگا اور پھر روزانہ ٹی وی اسکرینوں پر حکمرانوں کی روایتی آنیاں جانیاں اور گھسی پٹی بیان بازی دیکھ اور سن کر میرے ذہن میں یہ خیال بھی بار بار آرہا کہ جس ملک میں 3سالوں میں 300ریل حادثوں پر نہ وزیرِ ریلوے سے کوئی پوچھے اور نہ وہ خود ٹس سے مس ہوں اورجس دیس میں کسی حادثے اور کسی سانحے کا کبھی کوئی نتیجہ نہ نکلا، وہاں اس بار بھی بھلا کیا ہونا، دوستو! جہاں ایک طرف یہ سب کچھ میرے دماغ میں چل رہا وہاں دوسری طرف جے جے بھائی کی جدائی کے غم میں ڈوبے دل کو میں مسلسل یہ کہہ کر حوصلے اور تسلیاں دے رہا کہ اے دل دُکھی نہ ہو کیونکہ انہیں خود ہی تو ہر کام میں جلدی تھی، انہیں ربیع الاوّل ہی تو پسند تھا او ران کی سب سے بڑی خواہش ہی شہادت تھی اسی لئے وہ جلدی چلے گئے، وہ ربیع الاوّل میں گئے اور انہیں ملی بھی شہادت ہی۔

.
تازہ ترین