• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز میں ہر حکومت خواہ سول ہو یا فوجی، یہ اپنا فرض منصبی سمجھتی ہے کہ وہ ٹیکس چوری اور کرپشن کے ذریعے کمائی ہوئی دولت کو قانونی تحفظ فراہم کرے۔ موجودہ حکومت نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 میں ایک نئی شق شامل کرنے کیلئے انکم ٹیکس (ترمیمی) ایکٹ 2016کا اجرا کیا ہے جس کے تحت جائیداد کی خریداری میں کالے دھن کو بھی استعمال کیا جاسکے گا اور وہ بھی صرف تین فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر۔ اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ شرح کالے دھن کا تین فیصد نہیں بلکہ0.5فیصد ہے۔ اتنی کم شرح پر ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اجرا دنیا کے کسی ملک میں نہیں کیا گیا۔ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم ان اثاثوں پر دی جاتی ہے جو خفیہ رکھے جا سکتے ہیں۔ مثلاً نقد رقوم بشمول لاکرز میں رکھی ہوئی رقوم۔ ہمارے علم کے مطابق دنیا کے کسی ملک نے غیر منقولہ جائیداد پر ٹیکس ایمنسٹی نہیں دی۔ 0.5 فیصد پر ایمنسٹی کا اجرا اس طرح ممکن بنایا گیا ہے کہ ایف بی آر نے جائیداد کی جو مالیت مقرر کی ہے وہ اس رقم سے تقریباً نصف ہے جس پر جائیداد کی خرید و فروخت ہو رہی ہے یا اب ہوگی۔ یہ بات ایک مثال کے ذریعے واضح ہو جائے گی۔ ایک شخص ’’الف‘‘ نے ایک بڑے شہر میں اپنا ایک ہزار مربع گز کا بنگلہ مارکیٹ کے نرخ کے مطابق 110ملین روپے میں ’’ب‘‘ کو فروخت کرنے کا تحریری معاہدہ کیا۔ ڈپٹی کلکٹر کے ریٹ کے مطابق اس بنگلے کی رجسٹریشن 36ملین روپے میں کی جاسکتی ہے۔ ایف بی آر نے چابکدستی سے اس کی مالیت سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے اب صرف 50ملین روپے مقرر کردی ہے اور 6دسمبر 2016ء کو انکم ٹیکس آرڈیننس میں جو نئی شق شامل کی گئی ہے، اس کے تحت ’’ب‘‘ (جائیداد کا خریدار) اب صرف 50 ملین روپے (ایف بی آر ریٹ) اور36 ملین روپے (ڈی سی ریٹ جس پر سودے کی رجسٹریشن ہوگی) کے 14ملین روپے کے فرق پر صرف 3فیصد یعنی 4لاکھ 20ہزار روپے ٹیکس ادا کر کے اس رقم کو کالے دھن سے سفید بنا کر جائیداد کی خریداری میں استعمال کر سکتا ہے اور محکمہ انکم ٹیکس اس سے یہ سوال نہیں پوچھے گا کہ اس کے پاس یہ پیسہ کہاں سے آیا۔ یہ قدرت کی عجب ستم ظریفی ہے کہ سپریم کورٹ نے6 دسمبر 2016 کو ہی پاناما لیکس کے مقدمے میں یہ سوال اُٹھایا ہے کہ وزیر اعظم کے بچوں نے لندن میں جو جائیدادیں خریدی ہیں اس کے لئے ان کےپاس پیسہ کہاں سے آیا۔
انکم ٹیکس ترمیمی ایکٹ 2016کے نتیجے میں دی جانے والی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں ظالمانہ معصومیت کا اظہار کرتے ہوئے اس حقیقت کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا کہ مندرجہ بالا مثال میں بنگلے کی قیمت فروخت 110ملین روپے ہے نہ کہ ایف بی آر کے ریٹ کے مطابق50ملین روپے چنانچہ ’’ب‘‘ کا60ملین روپے کا کالا دھن بھی اس جائیداد کی خریداری میں استعمال ہو جائے گا۔ صاف ظاہر ہے کہ ایک ہزار مربع گز کے بنگلے کی خریداری میں سفید ہونے والے کالے دھن کا حجم74ملین روپے ہے نہ کہ14ملین روپے، اس کالے دھن پر ’’ب‘‘ کو صرف4 لاکھ 20 ہزار روپے ٹیکس دینا ہوگا جو کہ صرف تقریباً0.5 فیصد بنتا ہے۔ دوسری طرف ’’الف‘‘ کے پاس 60ملین روپے کا کالا دھن ا ٓجائے گا۔ اس بات کا خدشہ موجود رہے گا کہ اس ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے غیر منقولہ جائیداد فروخت کرنے والوں کو کئی ہزار ارب روپے کا کالا دھن ملے گا جس کا ایک حصہ دہشت گردوں کی فنانسنگ کے لئے بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں میں پاکستان میں متعدد ٹیکس ایمنسٹی اسکیمیں آچکی ہیں۔ ان سب کا مقصد ناجائز دولت کو تحفظ دینا اور بدعنوان عناصر کو نوازنا ہی رہا ہے چنانچہ ان حکومتوں نے کالے دھن کی معیشت کو عملاً فروغ ہی دیا ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4) کے تحت لوٹی ہوئی دولت کو بھی تحفظ دینے کا قانونی راستہ مستقل طور پر موجود ہے۔ یہ شق اور حالیہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم دونوں مالیاتی این آر او ہونے کی بنا پرغیر آئینی ہیں۔ موجودہ حکومت نے تاجروں کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کی بظاہر کوشش کی لیکن آخرکار ایک حکمت عملی کے تحت ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اجراء کردیا۔ یہی حکمت عملی اب غیر منقولہ جائیداد سیکٹر کے ضمن میں بھی اپنائی گئی ہے۔ پاناما لیکس کے سیاسی مضمرات کچھ بھی ہوں مگر ایسا نظر آرہا ہے کہ آگے چل کر پاکستان سے لوٹ کر یا ٹیکس چوری کر کے جو رقوم ملک سے باہر منتقل کی گئی ہیں ان کو پاکستان واپس لانے کے نام پر ایک ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اجرا کردیا جائے گا۔
مسلم لیگ (ن) کے منشور میں کہا گیا ہے کہ کالے دھن کو سفید ہونے سے ہر حالت میں روکا جائے گا اور معیشت کو دستاویزی بنایا جائے گا۔ حالیہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اجراء کر کے اس عزم کی نفی کردی گئی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے منشور میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومتوں کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اس اصول پر عمل کرنا ہوگا کہ ریاست اس غیر منقولہ جائیداد کو قومی ملکیت میں لے جن کی مالیت کم بتائی گئی ہے۔ پاکستان میں جائیداد کی مالیت ڈپٹی کلکٹر ریٹ (ڈی سی ریٹ) کے مطابق مقرر کی جاتی ہے جو اوسطاً اصل مالیت سے تقریباً 65فیصد کم ہوتی ہے۔ ڈی سی ریٹ صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ چنانچہ تحریک انصاف کے پاس سنہری موقع تھا کہ وہ خیبر پختونخوا میں ڈی سی ریٹ کو بڑھا کر مارکیٹ ریٹ پر لے آئے۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر حالیہ ٹیکس ایمنسٹی کے اجراء کرنے کا جواز ہی باقی نہیں رہتا۔ واضح رہے کہ اس ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے قومی خزانے کو ایک ہزار ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوسکتا ہے۔ یہ امر افسوس ناک ہے کہ حالیہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں بھی انکم ٹیکس کے سالانہ گوشوارے داخل نہ کرنے والوں کو بھی اس بات کی اجازت ہے کہ وہ کروڑوں روپے کی جائیدادیں خریدتے رہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4) کو منسوخ کیا جائے اور اگلے دو ہفتوں میں ایک ایسا قانون بنایاجائے جس کے تحت کسی بھی شخص، ادارے صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کو فروخت کی جانے والی کسی بھی غیر منقولہ جائیداد کی قیمت فروخت سے 10 فیصد زیادہ قیمت کی پیش کش کر کے یہ جائیداد خریدنے کا حق ہوگا۔ اس سے حالیہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم خود بخود غیر موثر ہو جائے گی جس سے ٹیکس چوری اور رشوت وغیرہ سے کمائی ہوئی دولت کو تحفظ مل رہا ہے۔

.
تازہ ترین