• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اُمید کی شہادت ہوئے، آٹھ برس بیت گئے! محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا خلا پورا ہونے کو نہیں۔ لیاقت باغ میں بی بی نے مذہبی انتہاپسندی و دہشت گردی کے خلاف مزاحمتی پرچم بلند کیا اور جامِ شہادت نوش کیا تھا۔ جب سب بلوں میں گھسے تھے یا پھر کھلے عام دہشت گردوں کے ہم نوا۔ وطن واپسی پر ہی اُن کے قافلے کو خون میں نہلا دیا گیا تھا، یہ جتلانے کو کہ دبئی معاہدہ توڑنے پر کیا سزا دی جاسکتی ہے۔ پر وہ کہاں رُکنے والی تھیں، گھر پہ مقید چیف جسٹس کی رہائش گاہ پہ جھنڈا لہرانے کے بعد وہ طالبان کے زیرِ تسلط سوات پر قومی پرچم لہرانے چل نکلی۔ دہشت کے اتحاد کے خلاف اعلانِ مزاحمت پر شہادت کے سوا اُسے مل بھی کیا سکتا تھا اور اس کے خونِ ناحق کا فیصلہ ہوا نہ ہونا ہے۔ تاریخ کے صفحات اس کے خون سے رنگے تو گئے، مگر خوں کا حساب لئے بغیر۔ اور پیپلز پارٹی ’’جمہوریت، اصل انتقام ہے‘‘ کے پیچھے منہ چھپاتی نظر آئی۔ انتشار کے آسان راستے پر چل نکلنے کی بجائے، صبر کے مشکل راستے کو اختیار کرتے ہوئے، آصف زرداری نے ’’پاکستان کھپے‘‘ کی راہ سجھائی۔ اور یہ سمجھائے بغیر کہ کونسا ’’پاکستان کھپے‘‘ اور ’’کون سا پاکستان نہ کھپے‘‘؟ جاتے جاتے بے نظیر پیپلز پارٹی کو پھر سے عوام کی حمایت اور انتخابی جیت کا تحفہ دے گئی۔ تاریخ میں ایسا کئی بار ہوا ہے کہ جانشینوں نے اپنے عظیم رہنمائوں کے ورثے کو اس بری طرح سے تباہ کیا ہو جس طرح عوام کی حاکمیت کی داعی جماعت کی مرکزی و صوبائی حکومتوں نے کیا۔ زبان زدِ عام ہے کہ جو کام ضیاء الحق، اور مشرف نہ کر پائے وہ پی پی پی کے اپنے گورکنوں نے کر دکھایا۔
جب ذوالفقار علی بھٹو کو تختۂ دار پر چڑھایا گیا تو اُن کے زیادہ تر بزرگ ساتھی غائب ہو گئے تھے، لیکن یہ اُس کی ہونہار اور بہادر بیٹی تھی جس نے جمہور کے پرچم کو بلند رکھا اور ثابت یہ کر دکھایا کہ وہ فقط اُس کی سیاسی میراث نہیں، بلکہ حقدار تھی۔ کون ہے جو آج بھی بی بی کی صلاحیتوں اور شخصیت کے کہیں آس پاس پھٹکتا دکھائی دے۔ بی بی نے جب پتوار سنبھالی تو زمانے کی کایا پلٹ رہی تھی، سرد جنگ ختم ہونے اور سوویت یونین ٹوٹنے کو تھا یا پھر یوں کہئے کمیونزم کا سوویت ماڈل پٹ گیا تھا۔ دُنیا میں واحد سرمایہ دار سپرپاور کا ڈنکا بج چکا تھا۔ نئے حالات میں اشتراکیت اور عوامیت پسندوں کیلئے بڑے نظری و سیاسی سوال اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ بی بی کی قیادت کا اصل امتحان یہی تھا اور اُس نے بھٹوازم یا بھٹو عوامیت پسندی (Populism) کی نئی طرح سے قلب ماہیت کی۔ قومیانے کی پالیسی کی جگہ پبلک پرائیویٹ شراکت داری اختیار کی۔ بھٹو کی زور زبردستی کے طریقوں کی جگہ جمہوری طرزِ عمل، بھارت سے ہزار سال جنگ کی بجائے دائمی امن، مذہبی قدامت سے سمجھوتے کی بجائے، مذہبی رواداری اور سماجی و معاشی حقوق کےلئے ایسی معاشی حکمتِ عملی جس میں غریب و محنت کش عوام کیلئے ایک صحت مند زندگی کی ضمانت۔ یہ پی پی پی کی پرانی عوامیت پسندی کا ایک زیادہ توانا رُخ تھا اور سماجی و عوامی جمہوریت کا پر تو۔ یہ بی بی ہی تھی جس نے اُوپر تلے دو آمریتوں کو شکست دی تھی اور جمہوریت کو پھر سے عوام کی جھولی میں ڈالا تھا وگرنہ وہ بھی تھے جو دس برس کیلئے چلتے بنے تھے۔
بی بی کی شہادت کے بعد جو بڑی ٹریجڈی ہوئی وہ ہے اس کا خلا۔ زیرک آصف زرداری نے بی بی کے تہذیبوں کے ٹکرائو کو روکنے کےلئے تہذیبوں میں مصالحت کے نظریئے کو پاکستانی سیاست میں مصالحت کیلئے استعمال کیا اور یوں کہ پیپلز پارٹی اور اس کی مخالف دائیں بازو کی جماعتوں کی سیاست و معیشت میں فرق کرنا محال ہو گیا۔ اُن کے خیال میں زمانہ بدل گیا تھا اور بھٹوز کے مزاحمتی و عوامی سیاست کے تصور میں اُنہوں نے سبق یہ حاصل کیا کہ اب زمانہ مفادات کی سیاست اور ہر حال میں اقتدار کو برقرار رکھنے کا ہے۔ جس کیلئے عوامی نعروں کی ضرورت ہے نہ کسی عوامی پروگرام کی اور سیاست فقط جوڑ توڑ اور شطرنج کی چالوں کا نام ہے۔ جس میں ان کا اب بھی کوئی ثانی نہیں (ایک زرداری سب پہ بھاری)۔ آصف زرداری کبھی بھی عوامی قبولیت حاصل نہ کر پائے جبکہ عوامیت پسند پیپلز پارٹی تو چلتی ہی رہی کرشماتی شخصیات کے سحر میں۔ جب بھٹوز کا سحر مانند پڑا تو پی پی پی کے چراغ گل ہونے لگے اور یہ سکڑ کر رہ گئی ’’سندھ کی رانی‘‘ کے صوبے کی حد تک۔ لیکن غریب عوام الناس کے دل ابھی بھی بھٹوز اور خاص طور پر بی بی کیلئے محبت سے بھرے ہیں۔ کوئی اور نہیں جو اب تک ان کی جگہ لے سکا ہو، عمران خان بھی نہیں!
جیالوں نے گڑھی خدابخش کے شہیدوں کے مزاروں پر حاضری دی کہ شاید وہ عوامی و جمہوری آواز پھر سے ان قبروں سے پھوٹ پڑے۔ پاکستان میں شہیدوں کے سب سے بڑے مزار سے عقیدت تو کی جا سکتی ہے اور ان کی قربانیوں سے جذبوں کو جلا تو مل سکتی ہے، مستقبل کیلئے عوام کی رہنمائی نہیں۔ اس کیلئے عوامی قیادت اور عوامی پروگرام چاہئے، جس کے قابل آصف زرداری ہیں اور نہ بلاول بھٹو ابھی تیار۔ کبھی کبھار کے زور دار عوامی خطاب کے ذریعے بلاول ایک مقبولِ عام رہنما بننے سے رہے، حالانکہ اُن میں بھٹوز کے سحر کی جواں سال تصویر کی جھلک کبھی کبھی دکھائی دیتی ہے۔ محترمہ بے نظیر تب بھٹو بن پائی تھیں جب اُنہوں نے پی پی پی کے چالاک و ناکارہ جغادریوں سے جان چھڑا کر اپنی قیادت کا لوہا منوایا تھا۔ اُسی تبدیلی میں شہید بھٹو بے نظیر کے ساتھ تھے۔ اب جب بلاول بھٹو ماں کے قدموں کے نشانوں پہ چلنے کی کوشش کرتے ہیں تو اُن کی انگلی اپنے انتہائی پختہ کار والد آصف زرداری کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اور جب تک بلاول باپ کی انگلی پکڑ کر چلتے رہیں گے، نابالغ ہی رہیں گے اور بی بی کا خلا رہے گا۔ بچے کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کیلئے والدین کا ہاتھ چھوڑنا پڑتا ہے اور غالباً باپ بیٹا دونوں اس کیلئے تیار نہیں۔ آصف زرداری ایک نہایت شفیق اور جہاندیدہ باپ ہیں، اُنہیں اپنے بچے کو اپنا راستہ طے کرنے دینا چاہئے۔ وہ ایک آدھ بار گرے گا اور اسکے بعد دیکھئے وہ کیسے فراٹے بھرتا ہے۔
بی بی کی اس آٹھویں برسی پر پیپلز پارٹی کو پھر سے اپنے گڑھ سندھ میں ایک بڑا چیلنج درپیش ہے۔ اس بار اسے ’’پاکستان کھپے‘‘ کی بجائے ’’آمرانہ وفاق نہ کھپے‘‘ کا چیلنج درپیش ہے۔ وفاقی حکومت نے آئین کی دفعات 147, 148, 149 کو ایک طرف رکھتے ہوئے رینجرز کو وہ تمام اختیارات بھی دے دیئے ہیں جو صوبائی خودمختاری سے ٹکراتے ہیں۔ نہ جانے کیوں ایک وفاقی ایجنسی جس نے کراچی کے امن کی بحالی کیلئے نہایت قابلِ ستائش کارکردگی کا مظاہرہ کیا کو صوبائی حکومت سے متصادم کیا جا رہا ہے؟ اطمینان کی بات یہ ہے کہ رینجرز نے اتنا اچھا کام کیا کہ 22 روز سے اُس کی عدم موجودگی کے باوجود کراچی میں امن رہا اور پولیس نے خلا پیدا نہیں ہونے دیا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وفاق اور صوبہ باہم مشاورت سے صورتِ حال کو خراب ہونے سے روکیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے ایک اصولی مؤقف اختیار کرنے کے باوجود صبر و تحمل سے کام لیا ہے۔ یہ پی پی پی ہے جس کی پاکستان گیر وفاقی سیاست کے نتیجہ میں سندھیوں نے وفاقی راہ اختیار کی اور ’’سندھو دیش‘‘ والوں کو گھاس نہیں ڈالی۔ لیکن اگر وفاقی حکومت سندھ میں بلوچستان کے انتظامی ماڈل کو متعارف کروانا چاہتی ہے تو اس کا نتیجہ بلوچستان سے بھی زیادہ خطرناک نکلے گا۔ یہ پاکستان اور جمہوریہ کے بہترین مفاد میں ہے کہ وفاقیت آئین کی عملداری کو اور صوبائی خودمختاری کا احترام کیا جائے! ایک وفاقیت پسند اور محب وطن پیپلز پارٹی کو اور ایم کیو ایم کو بھی دیوار کی جانب نہ دھکیلا جائے۔ سندھ کی یہی پارٹیاں ہیں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی پُراستقامت ہیں۔آٹھ برس سے پیپلز پارٹی ہوا میں ہاتھ پائوں مار رہی ہے، جبکہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ پاکستان کے محروم و مظلوم عوام آج بھی بھٹوز کے سماجی جمہوری پروگرام کی آس لئے ہیں۔ اور پیپلز پارٹی ہے کہ اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ بلاول بھٹو کو سیاست میں لانے کا پروجیکٹ بار بار متحرک اور غیرمتحرک کیا جاتا رہا ہے۔ وقت ہے کہ بلاول بھٹو اک نئے عوامی جمہوری اور سوشل ڈیموکریسی کے پروگرام کے ساتھ عوام کے پاس جائیں۔ پاکستان کے عوام کو پی پی پی تو بار بار مایوس کرتی رہی ہے، لیکن غریب عوام نے بھٹوز کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ کیا آصف زرداری بلاول کی انگلی چھوڑنے کو تیار ہیں اور کیا بلاول بھٹو خود سے اپنا راستہ بنانے پر آمادہ۔ یہ ہے وہ سوال جو آج پی پی پی کو درپیش ہے۔ اُمید کی شہادت کے بعد پھر سے اُمید کی امامت یہ ہے بلاول بھٹو کا مشن!
تازہ ترین