• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
SMS: #AWC (space) message & send to 8001
Arshad.chaudhry@janggroup.com.pk
مائیکل ہارٹ کا تعلق عیسائیت سے ہے اور یہ انسانی فطرت ہے کہ جب رجحانات کا مشاہدہ کیا جائے تو انسان خود سے متعلق ہر چیز کے بارے میں متعصب رویے کا اظہار ہی کرتا ہے۔ جب معاملہ افراد کی درجہ بندی کا ہو اور بنی نوع انسان میں سب سے بااثر فرد کا تعین کرنا ہو تو بندہ تھوڑی بہت ڈنڈی مار لیتا ہے ،جس مذہب کا خود پیروکار ہو اس کےپیغمبر کے ساتھ وابستگی بشری کمزوری بن سکتی ہے،جسے رہنما قرار دے کر اس کی تعلیمات پر عمل درآمد ایمان کا حصہ ہو، اسے سب سے اہم تصور کرنا فطری امر ہو سکتا ہے،جس خطے سے تعلق ہو اس کی شناخت رکھنے والوں سے قربت انسانی جبلت کا خاصہ ٹھہر سکتی ہے ،جس مٹی سے خود جنم لیا ہو اس سے انس کا اظہار قرض تصور کیا جا سکتا ہے اور جب معاملہ انسان کی بڑائی کاہو تو اپنا پیغمبر ہی عظیم تر نظر آتا ہے لیکن یہاں معاملہ درجہ بندی سے بڑھ کر شہادت دینے کا تھا۔ مائیکل ہارٹ نے ترازو ہاتھ میں پکڑا تو مذہب سے سیاست تک ہر کسوٹی پر اگر کوئی پورا اترا تو وہ تھے محمدﷺ۔ اور وہ اپنی تصنیف ’’دی 100 ‘‘ میں برملا پکار اٹھا کہ اس روئے زمین پر بنی نوع انسان میں سب سے زیادہ با اثر شخص محمدﷺ ہی ہیں۔ انسانی تاریخ میں اگر کسی انفرادی شخصیت نے انسانیت کو سب سے سے متاثر کیا ہے تو وہ بلا شبہ محمدؐ ہی ہیں۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اگر کسی کا اثرورسوخ ہے تو بھی وہ محمدؐ ہی ہیں۔ سینکڑوں سال گزر جانے کے بعد بھی اگر انسانیت پر کسی کا پر تو نظر آرہا ہے تو وہ ذات محمدؐ ہی کی ہے۔مائیکل ہارٹ نے یہ اعتراف بھی کیا کہ دنیا کے سو بااثر ترین افراد کی فہرست مرتب کرتے ہوئے وہ مجبور ہو گیا کہ محمد ؐ کو سر فہرست رکھے کیوں کہ صرف وہ ایسی شخصیت ہیں جو نہ صرف مذہب کے میدان میں بلکہ دنیاوی لحاظ سے بھی کامیاب ترین ثابت ہوئی۔ اس کے مطابق وہ تحقیق کرنا چاہتا تھا کہ جب سے دنیا وجود میں آئی تب سے آج تک آخر وہ کون سے 100 ایسے افراد ہیں جنہوں نے نہ صرف تاریخ بلکہ دنیا پر بھی انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔اسی کھوج کے دوران اس نے یسوع مسیح اور گوتم بدھا جیسے مذہبی رہنمائوں کے بنی نوع انسان پر اثرات کو جانچا، ایڈولف ہٹلر جیسے سیاسی رہنمائوں کی پالیسیوں کا جائزہ لیا جس نے ساڑھے تین کروڑ لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا،نپولین بونا پارٹ جیسے جنرلوں کے معرکوں پر نظر دوڑائی جس نے فرانس کی جغرافیائی سرحدیں تبدیل کر دیں،جارج واشنگٹن جیسے دولت مندوں کی ترجیحات کا مطالعہ کیا جس نے امریکہ کو بنانے میں اہم کردار ادا کیا، چینی بادشاہ شی ہوینگ ٹی جیسے اصلاح پسندوں کی کامیابیوں کو پرکھا جس نے چین کو متحد کرنے کی داغ بیل ڈالی، چارلس ڈارون جیسے سائنس دانوں کی محنت شاقہ پر غور کیا جس نے انسانی ارتقاء کےبارے میں نظریہ پیش کر کے ایک نئی بحث کو جنم دیا۔
ارسطو جیسے فلاسفر کو پڑھا جس نے انسان کو نئے پہلوئوں سے روشناس کرایا، لوئی پاسچر جیسے کیمیادانوں کے تجربات کی فہرست دیکھی جس نے طب کی دنیا میں انقلاب برپا کر کے انسانیت کی خدمت کی،ایساک نیوٹن جیسے خبطی کی مطبوعات کو از بر کیا جس نے پہلی بار انکشاف کیا کہ سفید رنگ درحقیقت کہکشاں کے تمام رنگوں کا مجموعہ ہے،عظیم روم کے بانی آگسٹس سیزر جیسے صلح جو کی داستان سنی جس نے امن اور خوشحالی کا وہ پیغام دیا کہ جو دو صدیوں تک پائیدار ثابت ہوا۔ نکولس کوپرنیکس جیسے ماہر فلکیات کے مقالوں پر غور کیا جس نے زمین سمیت دیگر سیاروں کی گردش کے بارے میں نیا نظریہ دے کر کائنات کے متعلق تصور تبدیل کر دیا،جیمز کلارک میکسویل جیسے ماہرین طبیعات کی تھیوری پر سوچ بچار کی جس نے بجلی اور مقنا طیسی کشش کے بارے میں نئے قوانین پیش کر کے انسانیت کی بھلائی میں اپنا حصہ ڈالا، ولیم شیکسپئر جیسے شاعروں اور ڈرامہ نگاروں کی تصنیفات کو اپنے حافظے میں محفوظ کیا جس نے جذبات کو ایسا بیان عطا کیا کہ لفظوں کو بھی زبان مل گئی۔ تھامس ایڈیسن جیسے مجدد کی کاوشوں کو سمجھنے کی کوشش کی جس نے بلب ایجاد کر کے دنیا کو روشن کرد یا غرض یہ کہ مائیکل ہارٹ نے ہر اس شخص کو تلاش کرنے کی سعی کی جس نے نہ صرف تاریخ کا دھارا موڑا بلکہ انسانیت کو متاثر کرنے میں بھی لازوال کردار ادا کیا اوربالآخر ایسے بااثر ترین افراد میں سر فہرست وہی ٹھہرا جس کو 570ء میں ربیع الاول کی مقدس ساعتوں کے دوران اللہ تبارک تعالی نے اپنا خصوصی نائب بنا کر زمین پر بھیجا۔ جس کے ذکر کو خود خدا نے بلند کرتے ہوئے فرمایا کہ ورفعنا لک ذکرک۔ اس نبی ؐ کو دنیا کا با اثر ترین فرد قرار دینے والے غیر مسلم مصنف نے تحریرکیا کہ ان کی اس درجہ بندی پر کچھ لوگ حیران ہوئے اور کچھ نے سوالات بھی اٹھائے لیکن اس کے نزدیک اس روئے زمین پر اگر کوئی انفرادی حیثیت میں سب سے زیادہ با اثر ہے تو وہ یقینا محمد ؐ ہی ہیں۔ اس درجہ بندی کے بارے میں دلائل پیش کرتے ہوئے مائیکل ہارٹ نے لکھا کہ محمدؐ نے نہ صرف عظیم مذہب کی بنیاد رکھی بلکہ انہوں نے خود کو ایک موثر سیاسی رہنما کے طور پر بھی منوایا۔ وہ دیگر شخصیات کی طرح کسی مہذب معاشرے میں پیدا نہیں ہوئے تھے بلکہ انہوں نے عرب کے انتہائی پسماندہ علاقے میں آنکھ کھولی تھی،صرف چھ سال کی عمر میں یتیم ہونے والے بچے نے آرام و آسائش کی زندگی نہیں دیکھی لیکن وہ جان گیا کہ خالق صرف ایک ہی ہے جس نے نہ صرف کائنات تخلیق کی بلکہ حقیقی مقتدر وہی ہے۔ بقول اس غیر مسلم مصنف کےچالیس سال کی عمر میں انہیں پختہ یقین ہو گیا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور پھر وہی رب جب ان سے قرآن پاک کے ذریعے ہم کلام ہوا تو اسی آفاقی پیغام کو عام کرنے کیلئے انہوں نے وہ صعوبتیں برداشت کیں کہ انہیں ہجرت تک کرنا پڑی، رب نے جو اقراء سکھایا تو الہامی کتاب کی صورت میں وہ محفوظ کر دیا کہ یوم حساب تک جس میں کوئی زیر زبر کی ترمیم تک نہیں کر سکتا۔ ہجرت کے دوران مکہ والوں سے جنگیں لڑیں اوربالآخر ایک فاتح کے طور پر مدینے سے مکہ لوٹے۔ ان کی تبلیغ کی بدولت عرب کے بیشتر قبائل نے اسلام قبول کر لیا تھا اور وہ جو تفرقوں اور فرقوں میں بٹے ہوئے تھے ایسے متحد ہو گئے کہ تاریخ کی سب سے بڑی اور موثر سپاہ میں ڈھل گئے۔ یہ محمدؐ کی تعلیمات ہی تھیں کہ مدینہ سے شروع ہونے والی فتوحات کا سلسلہ ابو بکر صدیق ؓ، عمر ابن خطابؓ اور ان کے بعد آنے والے مسلمان حکمرانوں نے شمالی افریقہ سے اسپین تک پھیلا دیا اور ہر سو قل ھواللہ احد کی صدائیں سنائی دینے لگیں جس نے یہ ثابت کر دیا کہ محمدؐ موثر ترین سیاسی رہنما بھی ہیں۔ ان کی ذات دین اور دنیا کا وہ حسین امتزاج ہے کہ خطبہ حج الوداع کے ذریعے انہوں نے خود انسانیت کو معراج کا راستہ دکھا دیا۔ ربیع الاول کے اس مقدس اور رحمتوں والے مہینے میں بطور مسلمان ہمیں اللہ تعالی کی سب سے محبوب ہستی آنحضرت محمدؐ کا امتی ہونے پر جہاں لاکھ بار شکر ادا کرنا چاہئے وہیں ان کی تعلیمات پرعمل کرنیکا عزم کر کے دنیا اور آخرت میں فلاح کو یقینی بنانا چاہئے جن کے بارے میں غیر مسلم بھی گواہی دیتے ہیں کہ… بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔
تازہ ترین