• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں ملنے والا ایک اور سیاسی وقفہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا اور اس وقفے میں بننے والی سیاسی حکومتیں ناکامی کی طرف بڑھ رہی ہیں ۔ پاکستان ، جسے دنیا ایک ناکام ریاست قرار دیتی ہے ، ایک اور بڑے بحران کی طرف گامزن ہے ۔ یہ بحران ایسا ہے ، جس کا حل آئین میں موجود نہیں ہے ۔ پاکستان اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ وہ کسی غیر آئینی اقدام کا بھی متحمل نہیں ہو سکتا ہے ۔ اس صورت حال میں پاکستان کی عدلیہ پر بہت بھاری ذمہ داریاں عائد ہو چکی ہیں اور اسے ایک نئی تاریخ رقم کرنی ہے ۔

براہ راست اور بالواسطہ غیر جمہوری حکمرانی میں رہنے والی ریاست پاکستان میں پہلا حقیقی سیاسی وقفہ 1970 ء سے 1977 ء تک ملا تھا ، جس میں ذوالفقار علی بھٹو کی سویلین حکومت نے مجموعی طور پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور پاکستان کو نہ صرف معاشی طور پر ایک ’’ جمپ اسٹارٹ ‘‘ دیا بلکہ ریاستی اداروں کو بھی مضبوط کیا لیکن وہ بھی سیاسی اور جمہوری اداروں کو مضبوط نہ کر سکے ۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ ماضی میں ہماری عدلیہ کا کردار کبھی قابل فخر نہیں رہا اور شاید پاکستان مولوی تمیز الدین کیس کے فیصلے کے نقصانات کا ابھی تک سامناکر رہا ہے ۔ اس پہلے جمہوری وقفے کے خاتمے میں اگرچہ سیاسی قوتوں کا تصادم بنیادی سبب بنا اور بین الاقوامی عوامل بھی کارفرما تھے لیکن عدلیہ نے بھی ملک و قوم کے وسیع مفاد میں فیصلے نہیں کئے ۔ دوسرا وقفہ 1988ء سے 1999تک ہے۔ اس وقفے میں پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی دو دو مرتبہ حکومتیں بنیں اور ہر مرتبہ آئینی مدت پوری کئے بغیر برطرف کر دی گئیں ۔ اس وقفے میں سویلین حکومتوں نے نہ صرف اچھی حکمرانی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ سیاسی قوتوں کے مابین تصادم کے ساتھ ساتھ سیاست میں کرپشن ، لوٹ مار ، اقرباء پروری اور غیر شفافیت کو رائج کیا گیا ۔ اس وقفے کے دوران سیاسی قوتوں پر لوگوں کا اعتماد کم ہوا ۔ بین الاقوامی عوامل کا بھی پہلے سے زیادہ پاکستانی سیاست میں عمل دخل بڑھ گیا تھا ۔ آئین کا مشہور زمانہ آرٹیکل 58 ( 2 ) (بی) سویلین حکومتوں کو آسانی سے برطرف کرنے کیلئے استعمال ہوتا رہا اور بالآخر 12 اکتوبر 1999 ء کو یہ دوسرا سیاسی وقفہ بھی سیاسی اور جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے اور سویلین اتھارٹی کے ذریعے پاکستان جیسی ریاست کو چلانے میں ناکام رہا ۔ ان تمام اسباب کے باوجود اس وقفے میں بھی مختلف مراحل پر عدلیہ کا کردار بہت اہمیت اختیار کر گیا تھا لیکن جو فیصلے کئے گئے انہیں قابل فخر نہیں کہاجا سکتا ۔عدلیہ کی طرف سے بہتر فیصلے نہ ہونے کامسئلہ اپنی جگہ موجودتھالیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جمہوری حکومتوں کے مقابلے میں فوجی حکومتوں میں گورننس بہتررہی اور معاشی ترقی بھی ہوئی۔
تیسرا اور موجودہ سیاسی وقفہ جنوری 2008 ء کے عام انتخابات سے شروع ہوا ہے اور ہماری خواہش ہے کہ یہ جاری رہے ۔ اس وقفے میں بھی دوسرے وقفے کی طرح سویلین حکومتوں کی کارکردگی خراب رہی ہے بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ بدتر ہو گئی ہے ۔ خراب حکمرانی میں سندھ کو پہلے نمبر پر قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ یہ وہ صوبہ ہے ، جہاں سے پاکستان کے سارے سیاسی اور غیر سیاسی معاملات کنٹرول ہوتے ہیں۔ ملک کی تمام جمہوری اور سیاسی تحریکیں یہاں ہی سے چلی ہیں۔ یہاں کے لوگ سب سے زیادہ باشعور ہیںلیکن اس سیاسی وقفے کا آغاز کچھ غیر معمولی حالات سے ہوا ۔ اس سے پہلے عدلیہ کی آزادی کیلئے عظیم الشان تحریک چلی ، جس نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ لوگوں کو عدلیہ پر اعتماد کرنے کا جواز مہیا کیا اور عدلیہ نے بھی ماضی سے ہٹ کر اپنا غیر معمولی کردار ادا کرنا شروع کیا ۔ دوسرا غیر معمولی واقعہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت ہے۔ ان کی عظیم قربانی کی وجہ سے بھی اس وقفے میں سویلین حکومتوں کو کام کرنے کا موقع دیا گیا ۔ تیسری غیر معمولی بات یہ ہے کہ ہمارے خطے اور دنیا کے حالات ایسے تھے ، جن میں پاکستان کی سویلین حکومتوں کو ہٹانے کی عالمی طاقتوں کو وقتی طور پر ضرورت نہیں رہی تھی ۔ ان حالات میں سویلین حکومتیں اگر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتیں تو جمہوری اور خوش حال پاکستان کے خواب کی تعبیر حاصل ہو سکتی تھی ۔ مگر بدقسمتی سے لوگوں کو جمہوری حکومتوں سے اچھی حکمرانی نہیں مل سکی ہے اور یہ موقع بھی ضائع ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے ۔ کرپشن ، لوٹ مار ، اداروں کی تباہی اور سماجی افرا تفری کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کا بڑا مسئلہ بھی درپیش ہے ۔ جمہوریت بلا شبہ اچھا نظام ہے لیکن جمہوریت جمہور کیلئے ہوتی ہے ۔ جمہور جمہوریت کیلئے نہیں ہوتے ہیں۔آئین بھی اگرجمہوریعنی عوام کو انصاف فراہم نہ کرسکے اورلوگوں کے مسائل حل نہ کرسکے توایسے آئین کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ جمہوریت اور آئین اگر کرپشن، اقرباپروری اور بیڈ گورننس کو جنم دے اور صرف اشرافیہ کے لئے ہو تو پاکستان کے عوام کو نہ آئین کی ضرورت ہے اور نہ جمہوریت کی۔ملک میں سیاسی عدم استحکام کے اسباب ایک بار پھر سندھ سے جنم لے رہے ہیں ۔ دہشت گردی، کرپشن اور خراب حکمرانی نے مل کر معاملات کو بہت زیادہ خراب کر دیا ہے ۔ سندھ میں رینجرز کے اختیارات کے حوالے سے سندھ حکومت اور وفاق کے مابین تصادم خطرناک صورت اختیارکرگیا ہے ۔ اسی طرح سندھ حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں بھی دوریاں پیدا ہو گئی ہیں ۔ وفاق نے رینجرزکو اختیارات دینے کیلئے نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ، جسے سندھ حکومت آئین کی خلاف ورزی اور سندھ پر حملہ قرار دے رہی ہے ۔ سندھ سے صوبائی اور وفاقی حکومت کے مابین اور اداروں کے جس ٹکراؤ کا آغاز ہو رہا ہے ، اس کا بنیادی سبب 18 ویں آئینی ترمیم ہے ۔ سویلین حکومتیں یہ سمجھتی ہیں کہ غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کے راستے بند ہو گئے ہیں ۔ سندھ حکومت کو تو خاص طور پر یہ زعم ہے کہ اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے ۔ 18 ویں آئینی ترمیم صرف سیاسی جماعتوں پر قابض چند خاندانوں کے تحفظ کا ذریعہ بن گئی ہے اور مسائل بڑھتے جا رہے ہیں ۔ اس صورت حال میں تصادم خطرناک حد تک پہنچ سکتا ہے ۔ اس کے تدارک کیلئے پاکستان کی عدلیہ کو ایک تاریخی کردار ادا کرنا ہے ۔ پاکستان کے نئے چیف جسٹس جناب جسٹس انور ظہیر جمالی نے اپنے منصب جلیلہ کا حلف اٹھانے کے بعد مختلف جگہوں پر جو خطاب کئے ہیں ، ان میں عدلیہ کے کردار کا تعین کر دیا گیا ہے ۔ سپریم کورٹ کے ساتھ ساتھ سندھ ہائی کورٹ پر بھی بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔
چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس انور ظہیر جمالی اور سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس سجاد علی شاہ انتہائی تجربہ کار ، ایماندار اور حالات پر گہری نظر رکھنے والے لوگ ہیں ۔ کراچی میں کراچی بار ایسوسی ایشن کے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے جناب چیف جسٹس آف پاکستان نے بجا طور پر ملک کے اصل مسئلے کی نشاندہی کی ہے ۔ وہ اصل مسئلہ جناب چیف جسٹس کے بقول کرپشن ، نااہلی اور بری طرز حکمرانی ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شاید ہم صحیح سمت سے ہٹ گئے ہیں ۔ کچھ ایسی خامیاں ہیں ، جو ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔ جناب چیف جسٹس آف پاکستان نے جس مسئلے کی نشاندہی کی ہے ، اس مسئلے کو جمہوری حکومتیں حل کرنے میں نہ صرف ناکام رہی ہیں بلکہ اس میں اضافہ کیا ہے ۔ دہشت گردی بھی اس کے ساتھ ساتھ ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ سندھ میں دہشت گردی اور کرپشن کے خاتمے کیلئے اداروں کی حدود کا تنازع پیدا کر دیا گیا ہے ۔ یہ تنازع پورے جمہوری سسٹم کیلئے خطرناک ہے ۔ جناب چیف جسٹس آف پاکستان نے سندھ گورنر ہاؤس میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا کہ پاکستان میں افراد کی بجائے اداروں کی بالادستی قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے فرمایا کہ عدلیہ کو قانون کی تشریح کا اختیار ہے لیکن وہ پارلیمنٹ کو ڈکٹیٹ نہیں کرسکتی ۔ جناب چیف جسٹس آف پاکستان نے عدلیہ کے ساتھ ساتھ دیگر اداروں کی حدود کا بھی تعین کر دیا اور انہیں اپنی حدود میں رہ کر کام کرنے پر زور دیا ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ کرپشن ، نااہلی اور بری طرز حکمرانی کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کا بھی خاتمہ کرنا ہے ۔ رینجرز کے اختیارات کا معاملہ عدالتوں میں جانے کا امکان پیدا ہو گیا ہے ۔ عدلیہ کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے ۔ کراچی میں دہشت گردی کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے بینچ نے کراچی میں کیس کی سماعت کی اور تاریخی فیصلہ کیا ۔ اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ کراچی میں دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کیلئے وفاق مداخلت کرے ۔ اسی طرح کرپشن اور بدانتظامی کے متعدد کیسز میں بھی عدلیہ نے اہم فیصلے کئے اور چیزیں درست ہوئیں ۔ اب عدلیہ کو ایک نئی تاریخ رقم کرنی ہے ۔ کرپشن ، نااہلی ، بری طرز حکمرانی اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے وفاق اور وفاقی اکائیوں کو تصادم سے بچانے کیلئے آئین کے مطابق اس طرح رہنمائی کرنا ہے کہ کرپشن اور دہشت گردوں کی معاونت کو آئین ، جمہوریت اور سول حکومتوں کی ڈھال مہیا نہ کی جا سکے ۔ اسی طرح اداروں کے درمیان تصادم کو روکنے کیلئے بھی عدلیہ کردار ادا کر سکتی ہے تاکہ معاملات غیر آئینی اقدام تک نہ پہنچیں ۔ پاکستان بہت نازک حالات سے گزر رہا ہے اور دنیا میں تبدیلیوں کے طوفان اٹھ رہے ہیں ۔ خوش قسمتی سے ہماری عدلیہ ماضی سے مختلف ہے اور اسے عوام کا اعتماد بھی حاصل ہے اور وہ نئی تاریخ رقم کر سکتی ہے ۔
بقول شاعر۔
وہ حبس ہے کے لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ
تازہ ترین