• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مارچ 2011کی دوپہر ملک شام کیلئے بڑی دردناک ثابت ہوئی ۔ شہر ڈیرہ کے ایک ا سکول کی بیرونی دیوار پر جمہوریت کے حق میں انقلابی نعرے لکھنے کی پاداش میں سیکورٹی فورسز نے چند نوجوانوں کو گرفتار کرکے شدید تشدد کا نشانہ بنایا تو شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔حکومت کے ہاتھ پیر پھول گئے اس نے مظاہرین کو پر امن طریقے سے ہینڈل کرنے کی بجائے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔اسکی ہدایات پر سیکورٹی فورسز نے فائرنگ کی جس سے متعدد مظاہرین موقع پر ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔جب یہ خبر ٹی وی پر نشر ہوئی توپورے ملک میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ۔فیس بک اور موبائل فون پر حکومت کے خلاف تحریک شروع ہوگئی ۔ صدر کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنے کیلئے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوئے تو ہزاروں نہیں لاکھوں افراد سڑکوں پر آگئے ۔حزب مخالف نے پہلے اپنے دفاع اور بعد ازاں سیکورٹی فورسز کے خلاف ہتھیار اٹھا لئے۔ عرب ا سپرنگکے نتیجے میں شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف مظاہروں اور خانہ جنگی کو شروع ہوئے چار سال آٹھ ماہ ہوچکے ہیں۔یہ خانہ جنگی ڈھائی لاکھ سے زائد افراد کی جان لے چکی ہے جبکہ پینسٹھ لاکھ سے زائد بے گھر ہوچکے ہیں۔چار بڑے شہروں دمشق،ہومس،ہاما اور آلیپو میں لڑائی بدستور جاری ہے۔ لاکھوںافرادکیمپوں میں پناہ گزین ہوچکے ہیں۔ بیس لاکھ کے لگ بھگ افراد ہمسایہ ممالک ترکی،اردن،اور سعودی عرب کے کیمپوں میں بھی مقیم ہیں۔ صدر بشار الاسد کی حمایت اور مخالفت میں دو گروہ برسرپیکار ہیں ۔
بظاہر پہلے گروپ میں تین ممالک روس عراق، ایران اور ایرانی شیعہ متحارب گروپ ہیں جبکہ دوسرے گروپ میں نو ممالک امریکہ، فرانس، ترکی، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، بحرین، اردن شامل ہیں۔ دوسرے گروہ میں تازہ ترین اضافہ برطانیہ کا ہے۔ برطانوی دارالعوام کی جانب سے شام میں دولت اسلامیہ نامی تنظیم کے خلاف برطانوی فضائیہ کی بمباری سے ملک شام میں جاری جنگ میں شامل ملکوں کی تعداد تیرہ ہوگئی ہے۔برطانیہ ان فضائی حملوں میں مشرقی شام میں دولت اسلامیہ کے زیر قبضہ آئل فیلڈز میں چھ مقامات کو نشانہ بنائےگا۔اس لڑائی کوشیعہ سنی لڑائی کا رنگ بھی دیا جارہا ہے ۔اب تک تو یہ لڑائی بظاہر بشارالاسد کی حکومت کو بچانے کیلئے ہورہی ہے لیکن درحقیقت یہ تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کی جنگ ہے۔ پیرس حملوں کےبعد سےفرانس پہلے ہی داعش کے مضبوط ترین گڑھ رقہ میں بمباری کر رہا ہے۔اقوام متحدہ انکوائری کمیشن کی تحقیقات کے مطابق یہاں پر برسر پیکارمتحارب گروہ کئی قسم کے جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔جن میں عصمت دری،تشدد،قتل اور اسی نوعیت کے دیگر جرائمشامل ہیں۔سیکورٹی فورسز نے طیاروں کے ذریعے مخالف عوام کی آبادیوں پر بم گرا ئے۔رپورٹ کے مطابق انسانی آبادیوں پر کلورین اور امونیا سے بنےکیمیائی ہتھیاروں کا بھی استعمال کیا جارہا ہے جس کے بارے میں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یہ شامی حکومت کررہی ہے جبکہ شامی حکومت کا الزام ہے کہ یہ روسی کررہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق شام میںایک کروڑ بائیس لاکھ افراد بشمول نصف بچے اور خواتین مدد کے منتظر ہیں۔
دوسری طرف سوشل میڈیا پر برطانیہ کی طرف سے شامی پناہ گزینوں کیلئے سرحدوں کو بند کرنے پر سخت تنقید جاری ہے۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر برطانیہ لوگوں کی مدد کرنا چاہتا ہے تو اسے شامی پناہ گزینوں کو قبول کرنا چاہئے۔برطانیہ کی بمباری کا ردعمل بھی سخت آئیگا۔مقامی اخبارات میں غیر ملکی فضائیہ کی جانب سے حملوں کے خلاف غم و غصہ بڑھ رہا ہے اور عوام مطالبہ کررہے ہیں کہ غیر ملکی مداخلت بند کی جائے۔بعض اخبارات یہ بھی شائع کررہے ہیں کہ بشار الاسد اور دولت اسلامیہ اندر سے ایک دوسرے کے مفادات کو تحفظ دے رہے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اصل کارروائی اسد حکومت کے خلاف ہونی چاہئے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ اور روس کیا چاہتے ہیں؟اس خطے میں دو بڑی طاقتوں کے ایما پر آٹھ سال تک عراق ایران جنگ ہوئی جس کے بعد بچے کھچے عراق کو بھی تباہ کردیا گیا۔ایران نے بوجوہ اپنے آپ کو بڑی تباہی سے بچا لیا اور پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہا ہے۔اس خطے میں لبنان،اردن،مصر اور عراق پر کٹھ پتلی حکومتیں قائم ہیں جو غیر ملکی اشاروں کے زیر اثر کام کررہی ہیں۔شام کو کمزور ترین کرنے اور اسکی تیل کی دولت کو کنٹرول کرنے کیلئے روس اور امریکہ میں کشمکش جاری ہے۔
طیارہ گرائے جانے کے بعدروس ترکی کو مسلسل خوفناک رد عمل کی دھمکیاں دے رہا ہے اور ترکی سےمعافی مانگنے پر اصرار کررہا ہے۔ اسی تناظر میں اس نےترکی پر اقتصادی پابندیاں بھی عائد کردی ہیں۔قطرکی طرف سے ترکی کی حمایت کے اعلان نے روسی کیمپ میں ہلچل مچا دی ہے۔پاکستان سمیت سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک بھی روسی جارحیت کی قطعاً حمایت نہیں کریں گے۔نیٹو کی طرف سے روس کو سفارتی حمایت ملنے کے بھی امکانات زیادہ روشن نہیں لہذٰا تیسری عالمی جنگ کا کوئی واضح امکان نہیں ہے بلکہ سفارتی صلح ہی روس ترکی تنازع کا ڈراپ سین ہوگی کیونکہ روس ایک اور بڑی جنگ میں الجھنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔کیونکہ افغان جنگ کے بعد ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے زخموں کو و ہ بھولا نہیں ہوگا۔امریکہ کی شام کی جنگ میں شمولیت دولت اسلامیہ کے خلاف تو ہے ہی لیکن وہ بشار الاسد کی حکومت کے حق میں بھی بالکل نہیں ہے۔یعنی یہ بات تو طے ہے کہ صدر بشار الاسد کی اقتدار سے علیحدگی تک شام کی جنگ ختم نہیں ہوسکتی ہے۔جس طرح سے شام میں کارروائیاں عروج پر ہیں ایسامحسوس ہوتا ہے کہ نیا سال بشار الاسد کی حکومت کا آخری سال ثابت ہوگا۔
ایک تخمینے کے مطابق 20 لاکھ شامی ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں جب کہ 65 لاکھ سے زائد ملک کے اندر بےگھر ہو گئے ہیں۔
تازہ ترین