• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
درمیانی صلاحیتیں رکھنے والے افراد میں بھی اگر ایمانداری اور کسی قدر خوبی موجود ہو تواُن کا بھی ایک اپنا کردار ہوتا ہے ۔ کوئی معاشرہ بھی ایسے محنتی اور ایماندار افراد کے بغیرنہیں چل سکتا ۔ ایسے افراد جو شام کا اندھیرا پھیلتے ہی سو جاتے ہیں اور علی الصبح اٹھ جاتے ہیں، اور جن کی زندگی بھر کی کمر توڑ محنت دوسری دنیا میں ملنے والی جزا کے آسرے پر قانع رہتی ہے ۔ ہمیں یقین ہے کہ خوبصورت رومانوی باغات کا وسیع و عریض علاقہ ایسی ایماندارروحوں کیلئے مختص ہوگا ۔
تانگے میں جتے ہوئے گھوڑے یا چھکڑ ا کھینچنے والے بیل، جن کی آنکھوں پر چشم پوش اس طرح لگائے جاتے ہیں کہ وہ دائیں یا بائیں نہیں دیکھ سکتے ، صرف اپنے راستے پر ہی نگاہ رکھتے ہیں، کی طرح چپ چاپ محنت کے ستم جھیلنے والے مزارعین کے بغیر جاگیرداری، معمولی تنخواہ پر کام کرنے والے محنت کشوں کے تومند بازوں اور ماہرہاتھوں کے بغیر صنعت اور سرمایہ داری اورصبح نو بجے سے لے کر پانچ بجے تک سرجھکا کر کام کرنے والوں کے بغیر کارپوریشنز نہیں چل سکتیں ۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز آفس میں کام کرنے والوں ، چائے لانیوالے لڑکوں اور میک اپ کرنے والی لڑکیوں کے بغیر کیا ہیں؟یقینا شہد کے چھتے کی حکمران ملکہ ہی ہوتی ہے لیکن یہ کارکن مکھیاں ہیں جو پھولوں کا رس جمع کرتی ہیں، شہد بناتی ہیںاور چھتے کی حفاظت کرنے سمیت تمام کام سرانجام دیتی ہیں۔ یہی زندگی ہے ، اور تہذیب کے ارتقا سے لے کر اب یہ سلسلہ اسی طرح چل رہا ہے ۔ اس سے بڑا کوئی جھوٹ گھڑنا ممکن نہیں۔۔۔۔’’پیدائشی طور پر تمام انسان برابر ہیں‘‘ ، یا اسی طرح کا یہ جملہ، ’’تمام انسان پیدائشی طور پر آزاد ہوتے ہیں۔‘‘ اگر تمام انسان آزاد پیدا کیے ہوتے تو پھر کون کھانا پکاتا یاکپڑے اور برتن دھوتا؟ مذہب کے سرخیلوں، جنرلوں اور دیگر اشرافیہ کی فرماں روی کیلئے حالات کے ستم کون جھیلتا؟
چنانچہ کم تر ذہنی صلاحیتیں رکھنے والے افراد پر بہت کچھ کہا جاسکتا ہے ۔ قدیم دور سے لے کر موجودہ دور تک،تہذیب کی بنیادیں انہی کی استقامت پر استوار ہیں۔ تاہم جس عامیانہ پن کوہم اسلام کے اس قلعے میںدیکھتے ہیں، وہ ہر قسم کے مکر وفریب ، شارٹ کٹ اور بدعنوانی کا سرخیل ہے۔ فراڈ اور شارٹ کٹ کے ماہرین کے تعاون سے جیبیں بھرنے والوں کی بات چھوڑیں، قوم کو ان سے کیا فائدہ ؟اس قوم کی قسمت میں یہ طبقہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ اس قوم کے بانی افراد صاحب ِ کردارتھے ۔ عوام کی رقم اورسرکاری عہدے کا اپنے نجی مفاد کیلئے استعمال کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ کاروبار اور سیاست دومختلف میدان تھے ۔ انکے درمیان کوئی مطابقت نہ تھی ۔ سیاست کے کوچے میں صرف سیاست دان یا حکمران طبقہ ہی قدم رکھتا تھا، وہی انتخابات میں حصہ لیتے ۔اُن کا کوئی کاروبار نہ تھا، بلکہ اُن میں سے کچھ کو انتخابی اخراجات کیلئے زمین یا کچھ دیگر اشیا فروخت کرنا پڑتی تھیں۔
دوسری طرف سیٹھ لوگ بزنس اور کاروبار کرتے ۔ بائیس خاندان، کاروباری طبقہ، چنیوٹی شیخ، چکوالی سیگل، جو معقولیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی عطیات فراہم کردیا کرتے تھے لیکن خود اس کوچے میں قدم رکھنے سے گریز کرتے۔ تاہم یہ ایوب کا دور تھا جب سرمایہ دار طبقے کا جی سیاست کے میدان میں قدم رکھنے کیلئے للچایا۔ اس کی وجہ بنیادی جمہوریت کا نظام تھا جس میں ایم این اے اور ایم پی اے براہ ِراست بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب نہیں ہوتے تھے ، بلکہ مخصوص نمائندے اُنہیں منتخب کرتے۔ سیاست اور کاروبار کے درمیان روایتی سرحد کی ایک دو ’خلاف ورزیاں ‘ ہوئیں لیکن مجموعی طورپر اس کی پامالی سے گریز کیا جاتا رہا۔ تاہم جنرل ضیا کی آمد کے ساتھ ہی یہ تمام منظر نامہ بدل گیا۔ اُنہیں پی پی پی کے مقابلے پر کسی کو کھڑا کرنے کی ضرورت تھی۔ بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد پی پی پی ضیا کیلئے ایک ڈرائونا خواب بن چکی تھی ۔ ایسے سازگار عناصر ، جو اُن کی حکومت کے مفادات کا بھی تحفظ کرسکیں، کی تلاش میں اُن کے ہاتھ ایسے عناصر لگ گئے جو کاروبار کا تجربہ تو رکھتے تھے لیکن اُن کا کوئی سیاسی پس ِ منظر نہ تھا۔ یہ شریف سیاسی خاندان کی ابتداتھی۔ اس خاندان کی پہلی ترجیح اپنا کاروباری مفاد تھا، سیاست اور اختیار اس مقصد کے حصول کے ذرائع تھے ۔ باقی تاریخ ہے ۔
اب موجودہ دور کی بات کرلیں۔ پاکستان کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے ، لیکن ان سے عہدہ برا ہونے اور ملک کی قسمت بدلنے کیلئے اسے، اگر انتہائی باصلاحیت اور ایماندار قیادت نہ بھی سہی، قدرے سچے اور کھرے رہنما درکار ہیں ۔ ایسی قیادت جو اپنے نجی مفاد اور کاروبار کو اپنا مطمع نظر نہ بنا چکی ہواور جسے قومی امور کی بھی فکر ہو۔ پی ایم ایل (ن) اور پی پی پی کے پیش ِ نظر کچھ دیگر امور ہیں۔ اب ان امور کی تشریح کی ضرورت نہیں، قوم کی زبان پر ان کی کہانیاں ہیں۔ تاہم ملک صرف داستانوں پر ہی ترقی نہیں کرتے ۔ آج پاکستان کو متبادل کی ضرورت ہے ۔ پرانا سیاسی طبقہ جمود کا شکار ہے۔ آپ پی ایم ایل (ن) کو جتنی بار مرضی آزماتے رہیں، اس کا سیاسی محور وہی رہے گا جو گزشتہ پینتیس برس سے ہے ۔ آج پاکستان کو ماضی کی قید سے نکل کر حال اور مستقبل کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے ، لیکن ماضی کی علامت مستقبل کی نوید نہیں بن سکتی ۔
ماضی کے یہ ایجنٹ بھی اپنی کامیابیوں پر قانع نہیں، وہ اب پاکستان کے مستقبل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا ر ِ خیر کیلئے ان کی نئی نسل قیادت سنبھالنے کی تیار ی کررہی ہے ۔ پاکستان جب بمشکل ایک دریا سے پار اترے گا تو ایک اور دریا کا سامنا ہوگا۔ اگرچہ اس ملک کے قیام کے ساتھ بہت سی امیدیں وابستہ تھیں لیکن اب اس کے مقدر پر کہنے کیلئے کچھ نہیں ۔ اگر بڑی جماعتوں کی سیاست کا اس کی نئی نسل نے ہی وارث بننا ہے تو پھر ملک کی اس سے بڑی بدقسمتی کوئی ہونہیں سکتی۔ پتہ نہیں پاکستانیوں سے کون سا ناقابل ِ تلافی گناہ سرزد ہوگیا ہے۔ مشرقی ایشیا ، جیسا کہ جنوبی کوریا، میں بھی آمر حکمران رہے ہیںجنہوں نے ملک کیلئے حیرت انگیز کام کیے اور اپنے ملک کو صنعتی پاور ہائو س بنا دیا۔ لیکن ہماری قسمت میں تو آمر بھی کند ذہن نکلے ۔ دیگر خطوں میں جمہوریت نے بہت اچھی کارکردگی دکھائی ، لیکن پاکستانی جمہوریت نے ہم پر تخیلات سے عاری وہ اشرافیہ مسلط کردی جو بدعنوانی کی دنیا کی سرخیل ہے ۔
آج کو پا کستان کو دیکھتے ہوئے ایک سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ کیا قائد ِ اعظم کی وراثت دیر پا ثابت ہوئی یا جنرل ضیا کی؟ مجھے کہنے دیجے کہ جنرل ضیا کی ۔ محترم قائد کی وراثت کا تو ابھی دریافت ہونا باقی ہے ۔ تلاش کرکے دیکھ لیں، مایوسی ہوگی۔ دوسری طرف جنرل ضیاکی وراثت پھل پھول رہی ہے ۔ تخیلات سے تہی داماں کاروباری طبقہ ، جس کے ہاتھ سیاست کامیزان تھما دیا گیا، اب ہر چیز اپنے مفاد میں ہی تلے گی ۔ اگلے انتخابات میں قوم کو ایک موقع اور ملے گا۔ چونکہ خواب حقیقت کا جامہ مشکل سے ہی پہنتے ہیں،جنرل راحیل شریف کی صورت مصطفی کمال کا پاکستانی ورژن بکھر چکا۔ لیکن کیا کوئی ایسا طوفان، کوئی تیزوتند لہر کہیں خوابیدہ ہے جو اٹھے اور نہنگوں کے نشیمنوں کو تہہ وبالا کردے ؟نہیں ، ہر سمت سکوت کی حکمرانی ، ٹھہرا ہوا تعفن زدہ پانی ، کوئی ہلچل نہیں، کوئی لہر نہیں۔ اگر یہی ہماری قسمت ہے تو کیا کوئی اسے بدل سکتا ہے ؟ کیا اس تاریک سرنگ کی دوسری طرف روشنی کی کوئی کرن ہویدا ہے ؟




.
تازہ ترین