• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل مایوسی پھیلانے والے دھڑے کے پیشواایک گمراہ کن بیانیہ پھیلانے کی سعی میں ہیں۔ اس کی حتمی لائن یہ کہ ہے ریاستی اداروں کے سربراہان صرف کٹھ پتلیاں ہیں، ان کے پاس آزادی ٔعمل، انسانی کاوش اور کردار کی سچائی نامی کوئی چیز نہیں، چنانچہ وہ غیر جانبدار ہوکر معروضی انداز میں درست فیصلے کرہی نہیں سکتے ۔ ہمارے مین اسٹریم میڈیا کی صفوں میں سوشل میڈیا کی ’’پشت پناہی ‘‘ سے ایک اور صنعت پروان چڑھ رہی ہے ۔ کیچڑ اچھالنے کے فن میں طاق ان ہنرمندوں کو اپنے ہدف کی کسی غلطی کی حاجت نہیں ہوتی، اور نہ ہی ان کے پاس ٹھوس حقائق ہوتے ہیں۔ خیر یہ درویش صفت ایسے رسمی ’’لوازمات‘‘ سے بے نیاز ، وجدانی کیفیت ( جو ان پر اکثر بوجوہ طاری رہتی ہے)میں ڈوب کر یہ دور افتادہ لنک اور التباسی ٹکرائو کی گنگاجمنامیں غوطہ لگاتے ہیں، اور کیچڑ بھرے ہاتھوں سے برآمد ہوتے ہیں۔ اس کے بعد ان کے ہدف کا بچ نکلنا محال۔
نئے آرمی چیف کی نامزدگی سے پہلے ہم نے اُن کے خلاف ایک شیطانی مہم دیکھی ۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ اُن کی تقرری کے پیچھے اہلیت کی بجائے کسی اور عامل کی کارفرمائی ہے ۔ اس کے بعد نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی نامزدگی کے موقع پر اس مہم کا رخ اُن کی جانب مڑگیا۔ آج کل ’’ِموصوفہ ‘‘(ابہام پیدا کرنے کی شیطانی مہم) کا ہدف نئے چیف جسٹس آف پاکستان ہیں۔ اپنے اپنے اداروں کی قیادت کرنے والی ان محترم شخصیات کو بدنام کرنے کی اس مہم کے جو بھی مقاصد ہوں، ایک بات واضح دکھائی دیتی ہے کہ اس کے ذریعے ان اداروں کی ساکھ کو تباہ کرنا ، چنانچہ ریاست کو کمزورکرنا، مقصود ہے ۔
پاکستان میں گہری جڑیں رکھنے والی سازشی ذہنیت ، اور سازش کی تھیوری پر آنکھ بند کرکے یقین کرلینے والوں کو ایسی مہم بطور ِ خاص مزہ دیتی ہے ۔ اُنہیں اس یاوہ گوئی کی کھنک اپنے من میں اس طرح محسوس ہوتی کہ …’’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں رونما ہونے والا ہر واقعہ نادیدہ ہاتھوں اور گمنام قوتوں کے کسی ’’عظیم منصوبے ‘‘ کا حصہ ہے ، اور ہر کوئی اس کھیل میں ایک مہرے کا کرداردانستہ طور پر ادا کررہا ہے ۔ ہر کوئی بدعنوان ، چنانچہ قابل فروخت ہے ۔ یہ سوچ دراصل اُس شکست خوردگی کا شاخسانہ ہے جو خود اعتمادی کے فقدان اور انتہائی لاچارگی کے احساس سے جنم لیتی ہے ۔
آرمی چیف کی نامزدگی بہت اہم ہے کیونکہ قانون جو بھی کہے، حقیقی زندگی میں وہ پاکستان کے سب سے طاقتور شخص ہیں ۔ ان کی طاقت کا انحصار وزیر ِاعظم کے ساتھ قربت پر نہیں بلکہ اُس ادارے پر ہوتا ہے جس کی قیادت اُن کے پاس ہوتی ہے ، اور جو وسائل اُن کی دسترس میں ہوتے ہیں، اور پھر ہماری تاریخ کے ایوان میں ایسے ہیولوں کامسکن ہے جو کبھی اقتدار پر قبضہ کرلیتے ہیں اور کبھی پس ِ پردہ رہ کر اپنی بات منوا لیتے ہیں۔ چنانچہ ایک آرمی چیف کسی دھڑ ے کا ’’بندہ ‘‘ نہیں ہوتا۔ عہدے پر تعیناتی کے ساتھ اُن پر وزیر ِاعظم کا اختیار ختم ہوجاتا ہے ۔ درحقیقت اس کارروائی میں نیوٹن کا تیسرا قانون لاگو ہوتا ہے کہ ہر عمل کا ایک رد ِعمل ہوتا ہے ۔ ہمارے ہاں یہ رد ِعمل گاہے زیادہ طاقتور بھی ہوجاتا ہے۔
چیف جسٹس کے پاس ریاست کے ایک ادارے کی سربراہی ہوتی ہے ، اور وہ ادارہ وزیر ِایگزیکٹو کا ماتحت نہیں ہوتا۔ ہمارے آئینی نظم میں ایگزیکٹو یا وزیر ِ اعظم کے پاس چیف جسٹس کی تقرری کا اختیار نہیں ہوتا ۔ ایک جج کو ترقی کرتے ہوئے سپریم کورٹ تک پہنچنے کے لئے سینیارٹی حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ، اور پھر جب موجودہ چیف ریٹائر ہو تو اُن کے بعد دوسرا انتہائی سینئر چیف جسٹس بن جاتا ہے ۔ اس طرح قانون کے مطابق ایک وزیر ِاعظم چیف جسٹس کو نامزد کرنے یا عہدے سے قبل از وقت ہٹانے یا کوئی اور رعایت دینے کامجاز نہیں ہوتا ۔ چیف جسٹس ہی عدلیہ کی سربراہی کرتے ہیں ، اور وہ ایگزیکٹو سے باز پرس کرسکتے ہیں ، چنانچہ چیف جسٹس بھی کسی کا ’’آدمی ‘‘ نہیں ہوتا۔
آرمی چیف اور چیف جسٹس کیخلاف چلنے والی مہم کے پیچھے اس ’’یقین ‘‘ کی کارفرمائی ہے کہ اگر انھوں نے پہلے سے ہی یہ ارادہ نہیں کیا ہوا کہ وہ منصب سنبھالتے ہی وزیر ِاعظم کو چلتا کریں گے تو وہ ضرور بدعنوان اور بکے ہوئے ہیں۔ ٹکرائو ، الزامات اور تقسیم سے بوجھل ہمارے سیاسی ماحول میں اگر آپ یہ کہیں کہ ایک وزیر ِا عظم کو ہٹانے کے لئے آرمی چیف کو سازش کرنا زیب نہیں دیتا، یا کیس کے دوران ججوں کا ذاتی عقائد اور تصورات کا اظہار مناسب نہیں، یا یہ پوچھنے کی جسارت کر بیٹھیںکہ اگر وزیر اعظم کو قبل از وقت ہٹا دیا گیا تو پھر منصب کو ن سنبھالےگا اور کیا اُس کے گھر جاتے ہی تمام بدعنوانی ختم ہوجائے گی ،تو آپ کو دوسری سوچ ذہن میں لائے بغیر حکومت کے چمچے قرار دے دیا جائے گا۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ بدقسمت واقعات ایسی سوچ کو تقویت بھی دیتے ہیں، جیسا کہ اسپیکر کی طرف سے اراکین کو وزیر ِاعظم کی تقریر ، جس میں اُنھوں نے لندن کے فلیٹس کی بابت اپنی فیملی کا موقف پیش کیا تھا، پر یہ کہہ کر بات کرنے کی اجازت نہ دینا کہ یہ معاملہ عدالت میں زیر ِ سماعت ہے ۔ تو کیا یہ وزیر ِاعظم کے لئے درست ہے کہ وہ عدالت میں آرٹیکل 66 کے پیچھے چھپنے کی کوشش کریں؟ اس آرٹیکل کے مطابق پارلیمنٹ میں کہی گئی باتوں پر عدالت باز پرس کرنے کی مجاز نہیں۔ اس آرٹیکل کے تحت ارکان ِ پارلیمنٹ کو آزادی اظہار کی اتنی طاقت کیوں دی گئی تھی ؟کیا قومی اسمبلی اور اس کی کمیٹی نے حکومت کے انکوائری بل پر بحث نہیں کی ، جس کا مقصد پاناما انکوائر ی کو سہولت دینا تھا۔ کیا اس وقت پاناما اسکینڈل پاکستان کا سب سے بڑا قانونی اخلاقی اور عوامی دلچسپی کا کیس نہیں ؟کیا وزیر ِاعظم کا نام ایک بدعنوانی کے اسکینڈل کی زد میں ہونے کا تاثر نہیں ؟
کیا سینیٹ سے منظور کردہ پاناما بل کو صرف یہ کہہ کر معطل کردیا جائے گا کہ معاملہ عدالت میں زیر ِ سماعت ہے ؟کیا اس بحث کو روک کرا سپیکر جانبدار ہونے کا تاثر نہیں دے رہے ؟ کیا اُنھوںنے یہ بات سوچی تھی کہ کیس کی ہر سماعت کے موقع پر پی ٹی آئی اپنی پریس ٹاک یا سپریم کورٹ یا پی آئی ڈی کے سامنے کھڑے ہوکر وزیر اعظم کے دفاع کی دھجیاں بکھیر دیں گے جبکہ کیس زیر ِ سماعت ہوگا؟کیا فاضل اسپیکر نے آرٹیکل 204 پر غور کیا تھا جو عدالت کو ایسے افراد کو سزا دینے کا اختیار دیتا ہے جو ’’عدالت میں زیر ِ سماعت کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کریں‘‘۔ آرٹیکل 63 عدلیہ کی تضحیک کرنے پر ایکشن لیتا ہے ۔ آرٹیکل 68 پارلیمنٹ کو جج حضرات کے رویے پر بات کرنے سے روکتا ہے ۔ اسی طرح آرٹیکل 66 بھی پارلیمنٹ کے اندر ہونے والی گفتگو اور بحث کا مکمل تحفظ کرتا ہے ۔
کیا اسپیکر نے یہ سوچا کہ پاناما اسکینڈل پر تو پی ٹی آئی، پی ایم ایل (ن) ، پی پی پی اور دیگر جماعتیں اس قدر بحث کرچکی ہیں کہ ان کے تبصروں سے پریس کے دفتر کے دفتر سیاہ ہیں۔ یقینا اس مرحلے پر عوامی مفاد کے ایک معاملے پر آزادی اظہار انصاف کی انجام دہی میں کسی طور پر رکاوٹ نہیں ۔ کیا فاضل اسپیکر نے اس بات پر غور کیا کہ جب وہ خود 2013 کے بعد سے دومرتبہ پی ایم ایل (ن) کے ٹکٹ پر منتخب ہوچکے ہیں تو اُن کی طرف سے پاناما کیس پر وزیر ِاعظم کا تحفظ اُن کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان تو نہیں لگا دے گا؟
کیس کے زیر ِ سماعت ہونے کے ڈاکٹرائن کا خاتمہ ضروری ہے ۔ اس کے پیچھے تصور یہ تھا کہ مقدمات کے دوران اہم شخصیات ، جو کمرہ عدالت میں موجود ہوتی تھیں، کو تبصرہ کرنے سے روک دیا جائے مبادہ وہ فیصلے پر اثر انداز ہوں۔ تاہم یہ انفارمیشن کے دور سے پہلے کی بات ہے ۔ پرنٹنگ پریس کے دور میںاس ڈاکٹرائن کو لاگو کیا ہی نہیں جاسکتا۔ ٹیکنالوجی میں ترقی، سوشل میڈیا کے فروغ اورا سمارٹ فون نے ہر کسی کو ’’پبلشر ‘‘ بنا دیا ہے ۔ چنانچہ عوامی مفاد کے معاملات میں زیر سماعت ہونے کے تصور کو لاگو کرنا ممکن نہیں رہا۔ یہ تصور بنیادی طور پر ہی غلط تھاکیونکہ اس کی بنیاد اس شک پر تھی کہ انسانی ذہن حقائق اور سنی سنائی باتوں میں فرق کرنے کے قابل نہیں۔ اگر یہ تھیوری درست تھی تو اس کا مطلب ہے کہ ماضی میں ہمیشہ عدل ہوتا تھا اور آج انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے دور میں ایسا ممکن نہیں رہا؟ بہتر یہ ہے کہ چیمبر آف جسٹس کو خفیہ خانہ نہ بنایا جائے ، اس کے لئے شفافیت ، نہ کہ پردے ، کی ضرورت ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایسے ججوں کو سامنے لایا جائے جو افواہ اور حقائق کی پرکھ کے اہل ہوں۔




.
تازہ ترین