• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزرے ہوئے وقت کے شور اور ہنگاموں میں ہم اتنے ڈوبے رہتے ہیں کہ پردہ ہٹا کر پھیلے ہوئے منظر پر نظر ڈالنے کی زحمت ہمیں گوارا نہیں اور نہ ہی ہم خاموش بیٹھ کر سر پیچھے ٹکا کر اور آنکھیں موند کر تاریخ کی سرگوشی کو سننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہاں، بڑے واقعات کی گواہی دینے والی تاریخیں، وہ تاریخیں جو دیوار پر لگے کیلنڈر پر درج ہوتی ہیں، چند رسمی خیالات اور تحریروں کا ذریعہ بن جاتی ہیں، لیکن سوچ اور تحقیق کے دروازے بڑی حد تک بند ہی رہتے ہیں، میں سوچتا ہوں کہ یہ ہمارے پڑھے لکھے یعنی اصلی یا جعلی ڈگری والوں کا اچھوتا کارنامہ ہے کہ کتابیں پڑھے بغیر اور فکری سطح پر منعقد ہونے والے مباحثوں میں شرکت کئے بغیر انہیں سب کچھ معلوم ہے۔ ہر سوال کا جواب حاضر ہے، اپنی رائے پر اصرار کا اندازکچھ ایسا ہی ہوتا ہے کہ کسی ٹاک شو میں کوئی سیاست داں اپنی بات کہہ رہا ہو، یہ وہ صورت حال ہے جس کا احساس مجھے مسلسل رہتا ہے، تو اس وقت میں نے یہ مسئلہ کیوں اٹھایا ہے؟ گزرتے وقت کے حساب سے کالم 17؍دسمبر کو شائع ہو رہا ہے، 16؍دسمبر کے اگلے دن…اور 16؍دسمبر کو آپ کو یاد ہوگا…تاریخ تو ایک ہی ہے لیکن اب یہ دو مختلف واقعات کے لہو میں رنگی ہوئی ہے۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے والے المیے کو اب 45؍سال گزر چکے ہیں اور پاکستان کی موجودہ آبادی کی اکثریت کے زندہ حافظے میں اس کا کوئی نشان موجود نہیں، البتہ تاریخ کا حوالہ پاکستان کے قیام کے بعد کا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ پاکستان کے تاریخی سفر کا جائزہ لیں تو یہ ضروری ہے کہ آپ اس مقام پر ٹھہر جائیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہوا، خیر یہ تو 45؍سال پہلے کا ایک زلزلہ تھا کہ جس کے بعد ہم نے کسی نئے تعمیراتی منصوبے کا آغاز نہیں کیا…لیکن جس دوسرے واقعہ کا میں نے ذکر کیا وہ تو محض دو سال پہلے کا ہے، اس کی اہمیت کا بھی پتہ نہیں ہم نے کوئی ہمہ جہتی اور گہرا تجزیہ کیا ہے یا نہیں…ویسے زخم اتنا تازہ اور جاں گسل ہے کہ شاید اب بھی سوچ کو جذبات سے جدا کرنا مشکل ہے۔
ایک بظاہر ممنوعہ خیال دل میں آتا ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ 16؍دسمبر کے ان دونوں واقعات کا بھی ایک دور دراز کا رشتہ ہے…یہ میں نے کیوں سوچا اس کو بھی آپ تصور کی بے راہ روی کہہ سکتے ہیں…ہوا یہ کہ گزشتہ اختتام ہفتہ میں نے دو راتیں دبئی میں گزاریں ہمارے ایک سرکردہ ’’تھنک ٹینک‘‘ پلڈاٹ نے پاکستان اور ہندوستان کے منتخب نمائندوں اور فیصلہ سازوں کے درمیان ڈائیلاگ کے سلسلے میں ایک ایسا اجلاس منعقد کیا جس میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے عمل میں میڈیا کے کردار پر گفتگو کی گئی۔ یوں، دونوں ملکوں کے میڈیا سے منسلک افراد بھی وہاں موجود تھے، مسلسل جاری رہنے والے ٹیلی وژن کے کسی ڈرامائی سیریل کی طرح پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی سول سوسائٹی کی مہم سالہا سال سے چلتی چلی آرہی ہے… میں بھی ایسی چند تنظیموں میں شامل رہا ہوں جو دونوں ملکوں کے درمیان یا جنوبی ایشیاکے تناظر میں میڈیا یا امن کے حوالے سے دوستی اور مفاہمت کیلئے کوشاں ہیں…یہ ان دو بدنصیب ملکوں کے باہمی تعلقات کانتیجہ ہے کہ ایسے اجلاس پاکستان اور ہندوستان میں بہت مشکل سے ہو پاتے ہیں۔ اس طرح گزشتہ دو دہائیوں میں مجھے کولمبو، کھٹمنڈو اور ڈھاکہ جانے کے کئی مواقع ملے ہیں…
دبئی میں اس دل خراش اور دل گداز موضوع پر غور کرنے کا یہ پہلا موقع تھا…گویا ہم، جنوبی ایشیاکی افراتفری اور شورش کے پڑوس میں تو تھے لیکن یہ وہ دنیا ہے کہ جس کی مادی ترقی اور چکا چوند ایک خاص نوعیت کی ذہنی اور جذباتی ہلچل کا سبب بن سکتی ہے۔ بہرحال، پلڈاٹ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے اس اجلاس میں بڑی سنجیدہ گفتگو ہوئی۔ پرانی باتیں بھی دہرائی گئیں اور کئی نئے خیالات بھی سوچ کے اختلاط سے پیدا ہوئے۔اجلاس میں کی جانے والی گفتگو اس لئے فکر انگیز تھی کہ دونوں ملکوں کی نمائندگی کرنے والے سیاسی نمائندوں اور ماہرین نے جذباتی نعروں اور جنگجو قوم پرستی سے اجتناب کیا…ایسی گفتگو نہ میڈیا میں ہو پارہی ہے اور نہ سفارتی مذاکرات کی میز پر اس کے ہونے کا امکان ہے۔
اچھا، یہ جو میںنے 16؍دسمبر کے دونوں واقعات اور جنوبی ایشیا کے دیرینہ مناقشوں کے درمیان ایک رشتہ جوڑنے کی کوشش کی ہے تو اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دبئی کے اجلاس میں میں نے یہ محسوس کیا کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پیدا ہونے والی مشکلات کا ایک گہرا تعلق تقسیم سے پہلے کی آزادی کی اور پاکستان کے قیام کی جدوجہد سے ہے۔ ہم آج کے حالات کو برصغیر کی پر پیچ تاریخ کے تناظر ہی میں سمجھ سکتے ہیں…اس تاریخ کو سمجھنے کیلئے اس کو پڑھنا پڑے گا…خوش قسمتی سے اس موضوع پر وسیع مواد موجود ہے، مشکل یہ ہے کہ ہم اپنی دلیل اور نقطہ نظر کو تو جانتے ہیں…دوسرے کی دلیل اور نقطہ نظر کو ہمدردی سے دیکھنے کی ہمت نہیں کرتے… یہاں ہم کا مطلب ہے ہم دونوں… ہم اور ہمارا دشمن یا ہمارا ناراض دوست یا قدیم ہمسفر… اوراس طرح ہمیں پہلی 16؍دسمبر اور پھر دوسری 16؍دسمبر کے واقعات میں پنہاں سوالات سے نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے اور پھر دسمبر کے مہینے میں صرف ایک یہی تاریخ تو ایسی نہیں ہے جو فکرانگیز یادیں جگاتی ہے۔ 25؍دسمبر آرہا ہے اور یوں تو یہ قائداعظم کا یوم پیدائش ہے لیکن اس دن بھی ہم اس ملک کے بانی کی زندگی کے آئینے میں اس ملک کی موجودہ کیفیت کا مشاہدہ کرسکتے ہیں…پھر دو دن بعد، یعنی 27؍دسمبر کو، ہم ایک ایسے سانحے کو یاد کریں گے جس کا کچھ نہ کچھ تعلق دوسری 16؍دسمبر سے اور پہلی 16؍دسمبر کے بعد کی تاریخ سے ضرور ہے۔ 27؍دسمبر نے پاکستان کو کیسے اور کتنا بدل دیا یہ بھی ایک پہیلی جیسا مشکل سوال ہے۔ بینظیر بھٹو جیسی اچھوتی اور کرشمہ ساز سیاست داں کا دہشت گردی کے ایک واقعہ میں منظر سے ہٹ جانا ایک ایسا زخم ہے جو نو سال میں بھی نہیں بھرا…ہاں، گزرتے وقت کی دھما چوکڑی سے ہمارا دل بہلا رہتا ہے اور ہم سوچنے اور محسوس کرنے کی تکلیف سے بچے رہتے ہیں۔




.
تازہ ترین