• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوال عجیب نوعیت کا تھا۔ ’’امریکہ اور کینیڈا میں کیا فرق ہے‘‘ امریکی انتخابات کے سلسلے میں میرے قیام کا سلسلہ ختم ہونے کو ہے۔ سوال پوچھنے والے دوست کینیڈا میں کتابوں کے ادارے سے وابستہ ہیں۔ ان سے تعلق خاطر کی وجہ پاکستان میں چھپنے والی کتابوں کے حوالے سے ہے۔ امریکہ اور کینیڈا میں جو کتابیں پاکستان سے جاتی ہیں۔ ان پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اب امریکہ اور کینیڈا کے کتب خانوں میں اردو کی بھی کافی کتابیں نظر آتی ہیں۔ میں نے بتانا شروع کیا۔ امریکہ اور کینیڈا میں بنیادی فرق نظام کا ہے۔ بظاہر سب کچھ ایک سا ہے مگر دونوں ملک بالکل مختلف نظریات رکھتے ہیں۔ بظاہر امریکہ ایک آزاد خیال معاشرہ والا ملک لگتا ہے مگر یہ تاثر میڈیا کی طرف سے ملتا ہے۔ امریکہ ایک قدامت پسند معاشرہ کے حامل لوگوں کی سرزمین ہے جبکہ کینیڈا ایک روایت پسند معاشرہ ہے۔ اب دونوں ملکوں میں تبدیلیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ اور ان تبدیلیوں کی بڑی وجہ معیشت ہے۔
کسی معاشرہ کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس معاشرہ میں تعلیم کے معیار کو مدنظر رکھا جائے۔ اس تعلیم کی وجہ سے امریکہ ایک قدامت پسند معاشرتی نظریات کو اہمیت دیتا ہے۔ امریکی اسکولوں میں والدین کو اہمیت دی جاتی ہے۔ بچوں کے بارے میں خاندانی روایات کو حیثیت دی جاتی ہے۔ ہر گھر میں کتاب ضروری ہے۔ کتاب ہی معاشرتی نشو و نما میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ میں نے بات ختم کی اور ان سے ہی پوچھ لیا کہ اس سوال سے آپ دونوں ملکوں کا موازنہ کر رہے تھے یا مقابلہ۔ وہ مسکرائے اور بولے نہ موازنہ نہ مقابلہ۔ مگر ان انتخابات میں بڑی تبدیلی یہ ہے کہ کینیڈا کے لوگ صدارتی امیدواروں کے لئے تقسیم ہو گئے۔ امریکی منتخب صدر ٹرمپ نے اپنی تقاریر میں جو سچ اگلا ہے۔ اس پر کینیڈین حیران اور پریشان ہیں۔ پہلی دفعہ اندازہ ہو رہا ہے کہ سفید رنگت والے لوگ آزاد خیال نہیں۔ امریکی انتخابات نے دنیا بھر میں جمہوریت کے معنی بدل کر رکھ دیئے ہیں۔ جمہوریت ایک اعتبار کرنے والا نظام نظر نہیں آتا۔ اس سے شخصی آزادی متاثر ہو رہی ہے اور تو اور آزادی رائے کی حیثیت مشکوک ہو چکی ہے۔ وہ اتناسب کچھ کہنے کے بعد خاموش ہو گئے۔
میں نے ان سے کہا کہ ایسا تو ہونا ہی تھا امریکہ ایک عرصہ سے دنیا بھر کی تجارت اور سیاست کا راکھیل تھا۔ اس نے ملکوں کے نقشے بدل کر رکھ دیئے۔ مگر امریکی اپنے ملک میں کمزور ہو گئے۔ اور اس کمزوری کا احساس ان انتخابات میں نظر آیا۔ آنیوالے دنوں میں امریکہ کے اندر بڑی تبدیلیاں ہو سکتی ہیں اور ان میں اہم تبدیلی تو میڈیا کے حوالے سے ہو گی۔ میڈیا نے جو کردار ان انتخابات میں ادا کیا۔ اس کے بعد میڈیا کا حق اور سچ معنی بدل چکا ہے۔ نومنتخب صدر ٹرمپ واضح طور پر امریکی میڈیا کو نظر انداز کر رہا ہے۔ وہ اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا وہ سوشل میڈیا کو روایتی میڈیا کی جگہ استعمال کر رہا ہے اور اس کو اندازہ ہے کہ اس طرح سے میڈیا آسانی سے نظر انداز کر سکتا ہے۔ ٹرمپ امریکہ کو بدلنے جا رہا ہے۔ وہ دنیا کو مزید بدلنے کا خیال اور خواب نہیں رکھتا۔
جمہوریت کی بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ ایک نظام کو بدلتی ہے۔ مگر کوئی دوسرا نظام نہیں دیتی۔ بھارت اور پاکستان میں جو لوگ حکومت کر رہے ہیں ان کو تقریباً ایک ہی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ بھارت میں ادارے بُری طرح کرپشن کا شکار ہیں اور بھارتی جنتا اس سے باخبر ہے مگر وہ اس کو بدلنے کی سکت نہیں رکھتی۔ بھارتی سیاست دان اس سے مبرا نہیں۔ آپ بھارتی وزیراعظم پر کرپشن کا الزام نہیں لگا سکتے۔ مگر وہ جمہوریت کے دعوے دار ضرور ہیں۔دوسری طرف پاکستان میں جمہوریت مضبوط کرنے کے لئے قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا وہ کس تناظر میں ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم ایک سیاسی جماعت مسلم لیگ نواز کے سربراہ بھی ہیں۔ پاکستان میں بھی جمہوریت نے ہی ادارے کمزور کئے ہیں۔ اگر کارسرکار کے لوگ اصول اور قانون کو نظر انداز کریں گے تو جمہوریت تو مضبوط ضرور ہو گی مگر ملک کی معیشت اور نظام دائو پر لگ جائیں گے۔ ملکی سیاست میں مفادات کا تحفظ ہی مسائل پیدا کرتا ہے۔ دونوں ملک اپنے اختلافات پر بات کرنے کو بھی تیار نہیں۔ مگر جمہوریت کا ڈھول دونوں کے گلے میں ہے۔ دونوں ملکوں میں برداشت کا فقدان ہے۔ بھارت اور پاکستان کی سیاست کے پیچھے امریکی اور برطانوی مشاورت کرتے رہتے تھے مگر اب چین کی وجہ سے وہ مشاورت تو ختم نہیں ہوئی مگر مداخلت میں کچھ کمی آئی ہے۔ پھر پاکستان کے وزیراعظم نے امریکی نومنتخب صدر ٹرمپ سے کچھ زیادہ امیدیں وابستہ کر لی ہیں ٹرمپ ان کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ وہ آپ کے لئے بھارت کو راضی بھی کرے گا۔ مگر آپ اپناقبلہ کب درست کریں گے۔ ملکی معیشت اس وقت شدید دبائو میں ہے۔ چینی مدد اور منصوبوں کے لئے علاقائی امن ضروری ہے مگر اس پر دونوں فریق تیار نہیں۔ جو کچھ اسمبلی میں ہوا وہ اچھے مستقبل کی خبر نہیں دیتا اس وقت ضروری ہے نواز لیگ کا بھونپو گروپ میاں صاحب کی وکالت بند کر دے۔
ملک کو بچانے کا واحد راستہ انتخابات کی سیاست نہیں بلکہ لوگوں کے لئے زندگی آسان بنانا ہے۔ نوکر شاہی کسی کو خاطر میں نہیں لاتی اور اس وقت بھی نواز لیگ نوکر شاہی پر اعتبار کر رہی ہے اور کچھ ایسا ہی معاملہ صوبوں میں ہے۔ ہماری سرکار اس مشکلات کا حل جلد از جلد انتخابات میں دیکھ رہی ہے۔میں سوچنے لگ گیا۔ کرپشن پر ہماری قوم کو اعتبار اور یقین ہے۔ اب اس اعتبار کو جمہوریت مضبوط بنا سکتی ہے۔ ختم نہیں کر سکتی۔ پاکستان کی سیاست عوام کا عشق ہے۔

عشق میں کسی کو کیا ملتا ہے اپنی اپنی قسمت ہے
ایک ہی سکے کے چہرے میں عزت بھی رسوائی بھی




.
تازہ ترین