• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمران خان کی تحریک ِ انصاف واپس پارلیمنٹ میں آچکی اور اس نے سپریم کورٹ سے بھی رجوع کرلیا ہے کیونکہ اس کی احتجاجی سیاست نواز شریف کومنصب سے ہٹانے میں ناکام رہی۔ تاہم اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ خاں صاحب نے پی ایم ایل (ن) کی حکومت کا اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا حق تسلیم کرلیا ہے ۔ اس کی بجائے اب وہ پارلیمنٹ کے فورم سے پارلیمنٹ کی اور سپریم کورٹ کے فورم سے عدلیہ کی ساکھ مجروح کرنے کی کوشش کریں گے اگر ان اداروں نے اُن کے انتہائی عزائم پورے نہ کیے ۔ 2013 ء کے عام انتخابات کے نتائج کے فوری بعد عمران خان نے تسلیم کیا تھا کہ نواز شریف کو ملنے والی کامیابی شفاف ہے ۔ تاہم ایک سال بعد اُنھوںنے پارلیمنٹ کو چھوڑ دیا اور اسلام آباد میں چار ماہ تک کنٹینر پر کھڑے ہوکر الیکشن کمیشن کے خلاف زہرا فشانی کی۔ ناقدین کا کہنا ہے اس دوران وہ حساس اداروں کے کچھ افسران کوساتھ ملا کر پی ایم ایل (ن) کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش بھی کرتے رہے ۔ جب وہ کاوش ناکام ہوئی تو پھر اُنھوںنے گلیوں کا رخ کیا اور الیکشن میں دھاندلی کے الزام کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن کے قیام کامطالبہ کیا۔ اُن کا موقف تھا کہ اُن کی انتخابی کامیابی ’’چرا‘‘ لی گئی ، ورنہ پی ٹی آئی راج کررہی ہوتی۔ جب جوڈیشل کمیشن نے خان صاحب کی منشا پوری نہ کی تو خاں صاحب نے اسے بھی الزامات کی باڑ پر رکھ لیا۔ دوماہ پہلے اُنھوںنے ایک مرتبہ پھر انتشار پھیلانے اور مقتدر اداروں کو مداخلت پر مجبور کرنے کی کوشش کی ۔ جب یہ کوشش بھی ناکام ہوئی تو وہ پھر سپریم کورٹ کی طرف واپس پلٹے اور نواز شریف کو نااہل قرار دلانے کے لئے پٹیشن دائر کردی ۔ اُنھوںنے عہد کیا کہ وہ کمیشن یا بنچ کے فیصلے کو تسلیم کریں گے ۔ لیکن جب عدالت نے کمیشن کے قیام کا اعلان کیا تو عمران خاںنے اسے ماننے سے انکار کردیااور کمیشن کا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دی کیونکہ اُنہیں خدشہ ہے کہ کمیشن ایک منتخب شدہ وزیر ِاعظم کو گھر نہیں بھیجے گا۔ اب وہ پارلیمنٹ میں آکر اس کی کارروائی برہم کرنے پر تلے ہوئے ہیں، نیز نئے چیف جسٹس صاحب کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے عدلیہ کو بھی دبائو میں لانے کی کوشش کررہے ہیں۔
اس دوران پی پی پی موقع پرستی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے احتیاط کا دامن تھامے ہوئے ہے ۔ اسے عمران خان کی غیر جمہوری کوششوں اور سازشوں پر تائو ہے ، چنانچہ اس نے پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست کا ساتھ نہیں دیا۔ یقینا اسے پی ایم ایل (ن) سے بہت سی شکایات ہیں ، جیسا کہ سندھ حکومت کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دینا، ڈاکٹر عاصم حسین کیس، جس کے نتیجے میں آصف زرداری کو ملک سے فرار ہونا پڑا، لیکن پی پی پی نہ تو تحریک ِ انصاف کے ساتھ کنٹینر پر کھڑی ہوئی اور نہ ہی گلیوں میں احتجاجی سیاست کا ساتھ دیا۔ اس وقت پی پی پی بلاول بھٹو کی قیادت میں خود کو 2018 ء کے انتخابات کے لئے تیار کررہی ہے ۔ تاہم اگر کو ئی قوت نواز شریف کو قبل از وقت گھر بھیج دیتی ہے تو پی پی پی اس کاوش کا برا نہیں منائے گی کیونکہ اس کی وجہ سے پی ایم ایل (ن) کمزور ہوجائے گی اور پی پی پی کی کامیابی کا امکان پیدا ہوجائے گا۔ تاہم پی پی پی کی تمام تر حکمت ِعملی پارلیمنٹ تک محدود ہے ۔ فی الحال عملی سیاست میں بلاول پی ایم ایل (ن) کے لئے خطرے کی گھنٹی نہیں بجا سکے ۔ پی پی پی نے ایکٹ آف پارلیمنٹ کا مطالبہ کیا ہے جس کا فوکس صرف نوازشریف پر ہواوراُنھوںنے ہی اپنی بے گناہی ثابت کرنی ہو۔ اس کے دیگر مطالبات میں سی پیک اور نیشنل سیکورٹی کی نگرانی کے لئے پارلیمانی کمیٹیوں کا قیام اور ایک کل وقتی وزیر ِ خارجہ کا عہدہ شامل ہے ۔ ان مطالبات پر باآسانی بات چیت ہوسکتی ہے ۔ اس دوران نئے آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے پہلے ہی سال سیاسی معاملات میں الجھنے سے گریز کریں گے ۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اُن کے پیش رو نے ایساکیا تھا۔ فوج کی اعلیٰ کمان میں کی جانے والی اہم تبدیلیوں سے تاثرملتا ہے کہ اُنھوں نے آئی ایس پی آر کی پروفائل کو کم کردیا ہے ۔ اسی طرح آئی ایس آئی کا بھی جارحانہ کردار دکھائی نہیں دے گا۔ اس دوران سندھ رینجرز سندھ حکومت کے ساتھ زیادہ تعاون کرے گی ۔ کراچی کی کور کمان اور سندھ رینجرز کی اصل توجہ دہشت گردی کے خاتمے پر ہوگی ۔ دوسرے الفاظ میں، ہم سول ملٹری تعلقات میں بہتر ی کی توقع کرسکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ سے ہم دیگر امور، جیسا کہ افغانستان، انڈیا اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے امکانات بھی پیدا ہوتے دیکھیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ پاکستان کی ریاست اور معاشرے کے استحکام کے لئے ایک اچھی خبر ہوگی ۔
اس کے بعد صرف دو تکلیف دہ معاملات باقی رہ جاتے ہیں۔ ایک تو وزیر اعظم کا اپنے دفاع میں پارلیمنٹ میں دیا گیا بیان جس میں اُنھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اُن کے پاس یو اے ای اور سعودی عرب سے جانے والی اُس رقم کا ریکارڈ موجود ہے جس سے لندن کے فلیٹس خریدے گئے تھے ۔ اُن کے وکلا کا کہنا ہے کہ یہ ایک’’ سیاسی بیان‘‘ تھا، جس کے لفظی معانی نہیں لینے چاہئیں،جبکہ اپوزیشن کاموقف ہے کہ اب وزیر ِ اعظم عدالت میں وہ ریکارڈ پیش کریں ۔ اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو پارلیمنٹ میں جھوٹ بولنے کی پاداش میں وہ نااہل قرار پائیں گے ۔ دوسرے معاملے کا تعلق اُس سوال سے ہے کہ کیا وزیر ِاعظم کے خلاف تحقیقات سپریم کورٹ کا بنچ کرے گا یا کوئی خصوصی کمیشن تشکیل دیا جائیگا۔ چنانچہ 2017 ء میں سپریم کورٹ کا کردار انتہائی اہمیت اختیار کرجائیگا۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا نئے چیف جسٹس، جناب ثاقب نثار عمران خان کے دبائو کے حربے برداشت کرپائیں گے یا نہیں؟کیا ہم مطمئن رہیں کہ اب ملک میںکبھی انصاف کا خون نہیں ہوگا؟ خوش قسمتی سے جسٹس ثاقب نثار کی اس عہدے پر ترقی میں وزیراعظم سمیت کسی کا عمل دخل نہیں ۔ وہ سینارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس آف پاکستان بنے ہیں۔ چنانچہ ہم امید کرنے میں حق بجانب ہونگے کہ کوئی دھڑا بھی آئین کی قیمت پر عمران خان کے مطلوبہ ’’انصاف ‘‘ کا آلہ کار نہیں بنے گا۔




.
تازہ ترین