• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنے الوداعی فنکشن سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ قومی اداروںمیں کرپشن کا بازار گرم ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کے لئے ضروری ہے کہ ادارے نہ صرف مضبوط ہوں بلکہ ان میں مکمل ہم آہنگی ہو۔ اسی دن کے اخبارات دیکھنے سے ہمیں پتہ چلتاہے کہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میاں نوازشریف نے کہا کہ ہمارے خلاف کرپشن کا کوئی اسکینڈل نہیں۔ معلوم نہیں اس سے ان کی مراد ان کی ذاتی زندگی ہے یا ان کےزیرانتظام چلنے والے ادارے ہیں جن کے بار ےمیں چیف جسٹس جمالی کہہ رہےہیں کہ قومی اداروں میں کرپشن کا بازار گرم ہے۔
ذاتی زندگی کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس وقت شاید ہی کوئی شخص اس ملک میں ہوگا جسے اس بات کا یقین نہیں ہوگا کہ اس ملک کے سیاستدان کرپشن میں ملوث نہیں ہیں۔ لوگوں سے بات کریں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ اسکینڈل میں تو شاید ملوث ہوں گے مگر متبادل قیادت کوئی نہیں ہے سو ہمیں انہی سے گزارا کرنا پڑے گا۔
اداروں کی جس کرپشن کا ذکر جمالی صاحب نے کیا اس کا حال گاہے گاہے سپریم کورٹ کے کسی ریفرنس اور کبھی اخبارات کے ذریعے ہمیں پتہ چلتا رہتاہے صورتحال یہ ہے کہ اگر حکومتی ارکان سے پوچھا جائے کہ اداروں میں اس کرپشن کا ذمہ دار کون ہے تو وہ اس بات سے انکار نہیں کرسکیں گے کہ اس کرپشن کی ساری کی ساری ذمہ داری خودان کی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ چیف جسٹس جمالی نے جو عوام سے مدد مانگی ہے کہ وہ اس کرپشن کو ختم کرنےمیں مدد کریں تو یہ بھی ایک ایسا کمزور بیان ہے کہ جسے شاید وہ خود بھی جانتے ہوں گے کہ عوام تک کرپشن تب پہنچتی ہے جب اوپر سے ادارے بے لحاظ انداز میں کرپشن میں جکڑے ہوتے ہیں۔ اپوزیشن اس وقت یہ تاثر پھیلا رہی ہے کہ ایک حکومت جس کے اہم ترین لوگ اپنی اور اپنی اولاد کی جائیدادوں کی تفصیل فراہم نہ کرے، جس کے بچے اپنا سرمایہ ملک سے باہرشفٹ کردیں اور خود اپنی حکومت ہوتے ہوئے بھی اس سرمائے کو ملک میں نہ لے کرآئیں وہ عوام سے یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ کرپشن کے خاتمے میں مددکریں۔ ایک پرائم منسٹر کی پارلیمان میں تقریر کو اس کا وکیل ایک سیاسی بیان کہہ کر خانہ پری کرنا چاہے وہ باقیوں کا حساب کیسے لے گا؟ کرپشن کے خاتمے کیلئے بنایا گیا ادارہ خودایسے حال میں ہو کہ بارہا سپریم کورٹ خود اسی کو کرپشن کے تحفظ کاذمہ دار قرار دے اور اس کی اور اس کے سربراہ کی سرکوبی کرے کہ ان کے کام درست نہیں ہیں۔
چیف جسٹس جمالی نے تقریب میں کہا کہ آج ملک میں ہرطرف افراتفری، تفرقہ بازی، اقربا پروری، بدانتظامی اور معاشی ناانصافی کا دور دورہ ہے جس کی وجہ سے ملک و قوم کا ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے۔ اس کے نتیجےمیںعوام میں بے حسی اور ناامیدی کا احساس پیدا ہو رہا ہے جو قوم کے لئے تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ اکثر سرکاری ادارے بھی اپنے فرائض کی ادائیگی میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں۔ وہاں بھی اقربا پروری اور بدانتظامی کا بازار گرم ہے۔ ملک میں ہر کوئی اپنے حقوق کی بات کرتاہے لیکن اپنے فرائض کی ادائیگی اور ذمہ داریوں کے ادراک سے بے بہرہ ہے۔ چیف جسٹس کی اس تقریر کو ا گر پڑھیں تو ہمیں تو یہ نوازشریف صاحب کی حکومت اور ان کے نیچے چلنے والے اداروں کی کارکردگی کے بارے میں ایک وائٹ پیپر نظر آتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے شخص کے منہ سے نکل رہا ہے جو کافی مدت تک اس ملک کی سپریم کورٹ کا چیف جسٹس رہا۔ اس سے پہلے اس نے ایک لمبی مدت جج کے طور پر گزاری اور اس حوالے سے اسے حکومتی اداروں اور ان کی کارکردگی کو پرکھنے کا کافی موقع ملا۔
ریٹائر ہونے والے اس چیف جسٹس کےنام کافی نیک نامی ہے لیکن پھر بھی سوشل میڈیا کا ایک حصہ اسے پاناما لیکس کے حوالے سے کوئی ٹھوس فیصلہ نہ کرنے کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔ آخر میں احمد جاوید صاحب کی ایک نظم ہجو جو شایدایسے ہی حکمرانوں اور اداروںکے سربراہوں کے بارے میں ہے جس کا رونا جناب جمالی نے رویاہے۔
ہجو
میرادل چاہتاہے
گالیوں کی ایک قمیص تیار کروں
اور ان خدائی مجسموں کو پہنا دوں
جو ہمارے دارالحکومتوں کے قلب میں نصب کردیئے گئے ہیں۔
نجاست کے یہ مینار
خوں آشام چمگادڑوں کے مالک ہیں
اور ایسی آوازوں سے بھرے ہیں
جو کسبیوں کے رحم میں گونجتی ہیں
مگر میں کیا کروں
گالیاں بوئی نہیں جاتیں
انہیں کاتا نہیں جاسکتا
اور پھر مجھے خیاطی بھی نہیں آتی
انسان نے اگر صحیح سمت ترقی کی ہوتی
تو مجھے ان مجبوریوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا
جن کی وجہ سے میری نفرت بانجھ عورت کی طرح
ایک خودسوز شعلہ بن کر رہ گئی ہے
مجھے ایک آتش فشاں پہاڑ کی تلاش ہے
میں اسے شہد کے چھتے کی طرح نچوڑوں گا
اور اس کا سارا لاوا ان ایوانوں پر انڈیل دوں گا
جہاں چھپکلیاں فائلوں پر دستخط کرتی ہیں
اور بھیڑیئے قوم سے خطاب کرتے ہیں




.
تازہ ترین