• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ایک دوست جو بہت زیادہ ’’حقیقت پسند ‘‘ ہیں اکثر کہتے ہیں کہ مجھے اس سیّارے یعنی ’’ زمین‘‘ کے بارے میں کوئی خاص فکر نہیں کہ یہ باقی بچتا بھی ہے یا نہیں کیونکہ کائنات کے نظام میں اسکی کوئی حیثیت نہیں۔ نظامِ کائنات اس قدر وسیع ہے کہ کرہ ارض کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا سائنسی لحاظ سے یہ بات تو درست ہو سکتی ہے لیکن انسانی حوالوں سے اسے درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔کیونکہ ہماری کائنات یہی کرہ ارضی ہی ہے البتّہ کائنات کی وسعت کے تناظر میں کرہ ارض کا محدود ہونا اور اس محدود کرہ ارض کے تناظر میں انسانی زندگی کا محدود تر ہونا اگر انسان کے اندر فخرو غرور، لالچ و حسد اور قتل وغارت کی جگہ عجزو انکساری، رحمدلی اور پیار و محبت کے جذبات پیدا کردے تو وہ سائنسی حقائق کے برعکس کرہ ارض کی اہمیت کو بڑھا سکتا ہے۔ لیکن دنیا بھر میں حالات جس تیزی سے خرابی کی طرف جا رہے ہیں۔ وہ اس کرہء ارض کی بقاء کے لئے سنگین خطرات کی نشاندھی کر رہے ہیں۔ انسان کی صنعتی، معاشی اور طبی میدانوں میں ترقی نے جہاں اسے بہت سی آسائشیں بہم پہنچائی ہیں وہیں اس کے لئے بہت سے مسائل بھی پیدا کر دئیے ہیں۔ ایک طرف دنیا بھر میں انسانی اوسط عمر میںخاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ تو دوسری طرف اس اضافے نے آبادی کی شرح کو خوفناک حد تک بڑھا دیا ہے۔ اس وقت دنیا کی آبادی 8ارب کے قریب ہے جو دوسری عالمی جنگ کے بعد تقریباََ 4ارب تھی۔ گویا جتنی آبادی لاکھوں سال میں بڑھی تھی۔ اس سے بھی زیادہ آبادی گزشتہ 70سال بعد میں بڑھ چکی ہے جبکہ آخری ایک ارب آبادی میں اضافہ محض دس پندرہ برس میں دیکھنے میں آیا ہے۔ آبادی میں اس ہو شربا اضافے نے جہاں خوراک اور پانی کے مسائل پیدا کئے ہیں وہیں ماحولیاتی آلودگی کے باعث دنیا بھر کے موسم تبدیل کر دیے ہیں۔ زرخیز زمین اور زیرِ سمندر مخلوق تباہ ہونے لگی ہے۔ گلوبل وارمنگ (Global Warming)کی وجہ سے برفانی تودے یعنی گلیشیر پگھلنا شروع ہو گئے ہیں جس سے سمندروں میں پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ ایک طرف انسان کے پینے اور کھیتی باڑی کے لئے پانی ختم ہو رہا ہے تو دوسری طرف سمندروں میں پانی کی سطح میں اتنا زیادہ اضافہ ہورہا ہے کہ اگلے پچاس سالوں میں مالدیپ، نیو یارک، کراچی اور ممبئی جیسے کئی ساحلی شہروں کے غرق ِ آب ہونے کی پیشین گوئیاں کی جار ہی ہیں۔ تیل اور دیگر معدنیات کی تلاش میں سمندروں اور پہاڑوں میں گہری کھدائیوں کی وجہ سے خوفناک سمندری طوفان سونامی کی شکل میں آرہے ہیں۔ گویا اس وقت کرہ ارض اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہے۔ ان قدرتی عوامل کے علاوہ انسانی حرص و طمع اور لوٹ کھسوٹ کی جنگ نے حالات کو مزید ابتر کر دیا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں پرانی سیاسی بساط پوری طرح الٹ چکی ہے۔ ماضی کے دوست حال کے دشمن اور رقیب بن چکے ہیں۔ اپنی ذاتی اور قومی بالادستی کے جنون میں تمام پرانے اصول متروک ہو چکے ہیں۔ اخلاقیات کی شکل بدل رہی ہے۔ تمام معاشی اور سیاسی نظام تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔ طبقاتی تضادات اور معاشی چیلنجز خوفناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ جنہوں نے تمام ممالک کی معاشی، معاشرتی اور اخلاقی حالت کو مخدوش بنادیا ہے۔ یہ صورتِ حال صرف ترقی پذیر ممالک ہی کو درپیش نہیں جہاں مسائل کی شدّت نے ایک ایسی بے چینی پیدا کر دی ہے کہ کوئی حکومت بھی اپنے عوام کو مطمئن کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتی اور روایتی پارٹیوں کا اقتدار عوامی بے چینی کی نذر ہو رہا ہے۔ بھارت میں کانگریس جیسی روایتی حکمراں پارٹی 550کے ایوان میں 10فیصد نشستیں بھی حاصل نہیں کر سکی۔ جبکہ اسکی جگہ لینے والی بی جے پی بھی قلیل عرصے کے اندر اپنی مقبولیت کھو بیٹھی ہے، پاکستان، سری لنکا اور ان جیسے تیسری دنیا کے ممالک کی حالت بھی اس سے مختلف نہیں۔ مایوسی کے عالم میں لوگ لسانی، مذہبی اورفرقہ واریت کا شکار ہو رہے ہیں کہ کہیں انہیں جائے پناہ مل جائے۔ مگر انہیں اس میں کامیابی نہیں مل رہی۔ معاشی ابتری کی یہ صورتِ حال اب ترقی پذیر ممالک تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ ترقی یافتہ ممالک بھی اس کی زد میں آچکے ہیں۔ فرانس، اسپین، یونان، انگلینڈ اور دوسرے ممالک خوفناک معاشی بحران کا شکار ہیں۔ یہاں تک کہ دنیا کی اکلوتی سپر پاور امریکہ کا حال بھی اس سے مختلف نہیں جس کا ثبوت حالیہ انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسے شخص کی کامیابی ہے۔ جو امریکی سیاسی روایات کی معدومی کا اظہار ہے۔ امریکی عوام نے ٹرمپ کی اخلاقی خامیوں کے باوجود محض اس وجہ سے اسے ووٹ دئیے ہیں کہ وہ اُن کیلئے روزگار کا بندوبست کرے گا، چاہے اس کیلئے اسے تارکین ِ وطن کو امریکہ بدر ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ یہ بھی امریکی معاشرتی روایات کیخلاف ہے کیونکہ تقریباََ سارا امریکہ ہی تارکین ِ وطن پر مشتمل ہے گویا عالمی سطح پر معاشی اور سیاسی بے چینی نے اُن قدرتی عوامل کی خوفناکی میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے۔ جو دنیا کے وجود کے لئے خطرہ بن چکے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے دنیا میں وہی حالات پیدا ہو رہے ہیں جو پہلی اور دوسری جنگ ِ عظیم سے پہلے پیدا ہو چکے تھے حالانکہ اُس وقت آبادی کے اضافے اور اس کی وجہ سے پیدا ہونیوالے مسائل موجود نہیں تھے اور یہ بھی کہ تیسری عالمی جنگ کے نتیجے میںجو خوفناک تباہی آسکتی ہے پہلی عظیم جنگیں ان کے عشر عشیر بھی نہیں۔ تیزی سے تباہی کی طرف بڑھتی ہوئی دنیا کو اس خطر ے سے نکالنے کیلئے ایک نئے عالمی سیاسی اور معاشی نظام کی جس قدر ضرورت اب ہے شاید کبھی نہ تھی۔ ایک ایسا نظام جو انسان کو ملک و مذہب رنگ و نسل اور طبقاتی تقسیم سے نجات دلا سکے۔ جو بڑھتی ہوئی آبادی کو روک سکے اور ارتکازِ زر کو ختم کر سکے۔ انسان کو اسکی ضرورت کے مطابق وسائل دے سکے نہ کہ ذاتی ملکیت کے نام پر اسکی ہوسِ زر کو مزید بڑھا وا دے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ممکن ہے کہ یہ کرہ ارضی صفحہ ہستی سے ہمیشہ کیلئے نیست و نابود ہو جائے۔




.
تازہ ترین