• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی قومی رہنماکی زندگی کی پرتوں کے مطالعہ کے لئے لکھا پڑھا اصول ہے کہ اس دور کے معاملات اور اس کی شخصیت کا اجتماعی طور پر تجزیہ کیا جائے۔ بابائے قوم قائداعظمؒ تاریخ کی وہ شاندار شخصیت ہے کہ جنہوں نے اپنے دور کے معاملات میں اپنی شخصیت کو اصول پرستی اور قومی معاملات کے حل کی خاطر وقف کر ڈالا تھا۔ لیکن مقام افسوس ہے کہ ہندوستان کی تاریخ سے ناواقف افراد یا وہ جو خود ساختہ لبرل یا مذہبی انتہا پسندی کے حامی تھے اور قائداعظمؒ سے سیاست کے میدان میں ہزیمت اٹھا گئے۔ آج بھی یہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ مطالبہ پاکستان درحقیقت ان کے خیالات کی ترجمانی تھا۔ انتہا پسند قائد اعظمؒ میں ایک انتہا پسند مذہبی شخصیت کو تلاش کرتے رہتے ہیں جبکہ لبرلز ان میں لادینیت کو تلاش کرتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت اس کے مطابق نہیں ہے۔ قائد اعظم نہ تو مذہبی شدت پسند تھے اور نہ ہی لامذہب۔ وہ نہ جذباتی شخصیت تھے اور نہ جذبات سے عاری شخصیت۔ اگر وہ جذبات سے عاری شخصیت ہوتے تو رتی جناح کو قبرستان میں سپردخاک کرتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر نہ رو پڑتے۔ مگر ان کا پاکستان کی جانب بڑھنے کا فیصلہ کوئی جذباتی فیصلہ نہ تھا۔بلکہ برطانوی ہندوستان کے سماج کی ساخت اس بنیاد پر استوار ہو چکی تھی کہ مسلمانوں کا مفاد صرف اس میں ہی تھا کہ اپنی اکثریت کو ان لوگوں کے سامنے اقلیت نہ رہنے دیا جائے جو مسلمانوں کی ترقی سے جڑے مطالبات کو آئینی تحفظ فراہم کرنے سے قطعاً انکاری تھے۔ اور مسلم اکثریت کو آزاد حیثیت دلا دی جائے۔ مگر کچھ عناصر یہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ مطالبہ پاکستان یا قیام پاکستان سے قبل برطانوی نوآبادیاتی ہندوستان میں ہندو مسلم کشیدگی پائی نہیں جاتی تھی۔ اور تلخی ہی اس لئے در آئی کہ متحدہ ہندوستان کے تصور کو مسترد کر دیا گیا۔ اور اس فیصلے کے اثرات پاک بھارت کشیدگی اور بھارت میں بسنے والے مسلمان مذہبی تعصب اور فسادات کی صورت میں آج تک بھگت رہے ہیں۔ حالانکہ یہ حقائق سے کوسوں دور ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کشیدگی اور اس کے اثرات پورے برطانوی ہندوستان پر حاوی ہو چکے تھے اور اگر پاکستان کا قیام عمل میں نہ آتا تو یہ کشیدگی بدترین فسادات کی صورت میں ہمہ وقت عذاب کی مانند مسلط رہتی۔ برطانوی دور کے حالات اور کشیدگی کا تجزیہ کرنے کے لئے ہندوستان میں جا بجا تصادم کے واقعات کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم انیسویں صدی کے دوسرے اور تیسرے عشرے کے واقعات کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ لاہور، راولپنڈی، ملتان، کوہاٹ متحدہ صوبہ جات کلکتہ، دہلی اور ممبئی میں جابجا فسادات ہو رہے تھے۔ لاہور میں بڑے پیمانے پر فسادات ہو گئے تھے۔ صرف ممبئی میں فروری 1929ء سے اپریل 1938 تک دس بڑے فسادات کے واقعات رونما ہو چکے تھے۔ جن میں کم از کم ساڑھے پانچ سو افراد لقمہ اجل بن چکے تھے۔ جبکہ ساڑھے چار ہزار افراد زخمی ہوئے۔ ملتان میں محرم میں بار بار ہندو مسلم تصادم ہو رہا تھا۔ خیال رہے کہ یہ اعدادو شمار انڈیا ایکٹ کے تحت پیش کردہ سالانہ رپورٹوں پر مشتمل ہیں جو اس وقت کے ایوان میں ان سالوں کے دوران پیش کی جاتی رہی تھیں۔ صرف ان دو مختصر عشروں کو اگر مطالعاتی طور پر دیکھا جائے تو حالات کی درست منظر کشی ممکن ہو جاتی ہے۔ لیکن قائد اعظمؒ ہندوستان کی سماجی تقسیم اور اس بگڑے بد ترین حالات کے باوجود جمہوری جدوجہد جو دستور کے تحت ہو ان تلخیوں کو زائل کرنے کے واسطے کر رہے تھے۔ لکھنو پیکٹ سے کیبنٹ مشن پلان تک وہ معاملات کو دستور کے تحت حل کرنے کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں۔ مگر گاندھی کی کمزور شخصیت اور ہندومہاسبھا کی تنگ نظری نے کوئی دستوری سمجھوتہ نہ ہونے دیا۔ سرشفیع کی بیٹی جہاں آراشاہنواز نے اپنی کتاب Father and Daughter میں تحریر کیا ہے کہ "قائداعظمؒ نے لندن میں گاندھی اور لیگیوں کے درمیان بات چیت شروع کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔ گاندھی اور لیگی لیڈر تجاویز پر متفق ہو گئے تھے۔ حتیٰ کہ سرشفیع نے مٹھائی کا آرڈر بھی دے دیا تھا۔ گاندھی، سکھ اور مہاسبھائی ہندوئوں کی رضامندی لینے گئے مگر خالی ہاتھ لوٹے۔ گاندھی آئے اور آغا خان کے ایک طرف بیٹھ گئے۔ اور دوسری طرف ابا جان اور جناح صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ گاندھی نے کہا کہ حضرات مجھے یہ بتاتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ میں سمجھوتے کی کوشش میں ناکام ہو گیا ہوں۔ سکھ اور مہاسبھائی ہماری طے کردہ شرائط ماننے پر راضی نہیں ہیں۔ ہم میں سے بہتوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ سرشفیع کے پاس متبادل حل تھا۔ انہوں نے گاندھی کو کہا کہ آئو ہم مسلمان اور کانگریس آج ان شرائط پر سمجھوتہ کر لیں۔ مگر گاندھی نے انکار کر دیا۔ حالانکہ وہ خود شرائط سے متفق تھے۔"ذرا کیبنٹ مشن پلان کا حشر جو نہرو کے بیان سے ہوا تھا۔ اس کی روداد مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب India Wins Freedom سے دیکھ لیجئے۔ معلوم ہو جائے گا کہ ہندوستان میں کسی آئینی جمہوری سمجھوتے تک پہنچنے کے لئے قائد اعظمؒ کیسی سر توڑ کوششیں کر رہے تھے۔ اور دوسری طرف اکثریت کے زعم میں کیسے ان کو رائیگا ںکر دیا گیا۔ ہاں یہ بالکل درست ہے کہ قائد اعظم ؒ کسی آئینی سمجھوتے کے بغیر معاملات چھوڑ دینے کو زہر قاتل سمجھتے تھے اور یہ درست بھی تھا۔ پاکستان کو بدیسی حکومت کی سازش قرار دینے والے ان حقیقتوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ہندوستان کے طول و عرض میں بار بار ہندومسلم فساد برپا ہو رہے تھے۔ جبکہ کانگریس آئین میں تحفظات دینے کے لئے قطعاً تیار نہ تھی۔ وہ انگریزوں کے متعلق کیسے تھے اس کی گواہی بھارت کے آئین کے خالق اور آزادی کے بعد پہلے بھارتی وزیر قانون ڈاکٹر امبیدکر نے اپنی کتاب Pakistan or Partition of India میں ان الفاظ میں دی ہے کہ "لوگ کہتے ہیں کہ مسٹر جناح ؒ کے آدرشوں میں بڑی تبدیلی ہوئی تھی وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ان کے کٹر دشمن بھی ان پر انگریزوں کے پٹھو ہونے کا الزام نہیں لگا سکتے۔ " لیکن آج وطن عزیز میں ان کٹر دشمنوں کے بھی آگے کے لوگ موجود ہیں لیکن مشہور ہے کہ چاند پر تھوکا اپنے منہ پر آتا ہے۔




.
تازہ ترین