• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زندگی میں جن علاقوں کی سیاحت کا کبھی آپ کو موقع ملا ہو اور اگر وہ علاقے تباہی و بربادی کا شکار ہو جائیں تو انسان کو اتنا ہی صدمہ اور دکھ ہوتا ہے جتنا خدانخواستہ اپنے گھر پر بجلی گرنے سے ہوتا ہے۔ لبنان کی طرح شام بھی قدرتی حسن کا شاہکار تھا۔ دمشق اگرشام کا دل ہے تو حلب اس کا دماغ تھا۔ یہ شہر صنعت و تجارت اور تاریخی و ثقافتی ورثے کامرکز تھا۔ میں نے برسوں پہلے گاڑی پر ایک ساتھی کے ہمراہ دمشق اور حلب سمیت سارے شام کی سیاحت کی تھی اور خاص طور پر حلب سے بڑی خوشگواریادیں سمیٹ کر لایا تھا۔ حلب میں گزشتہ ہفتے جنگجو جمہوریت پسندوں اور بشار الاسد کے درمیان فائربندی کاایک عالمی معاہدہ طے ہوا۔ بشار الاسد کی حکومت نے ہولناک جنگی جرائم کا ارتکاب کرکے اس معاہدے کی دھجیاں اُڑا دیں۔ وہاںوسیع پیمانے پر قتل عام ، بڑے پیمانے پر تشدد، جبری فاقہ کشی، اشیائے خورونوش کی بندش، بیرل بم، لڑکیوں کی منظم آبرو ریزی، بچوں اور ہر عمر کے آدمیوں کی اذیت ناک حراستی مراکز میں قید اوربدترین قسم کے عقوبت خانوں میں ناقابل تصور تعذیب شامل ہے۔ باغوں، سیرگاہوں، سبزہ زاروں اور پہاڑ کنارے خوبصورت ساحلوں کا ملک شام اس وقت قتل گاہوں، عقوبت خانوں، زندانوں اور قبرستانوں کا جہنم بن چکا ہے۔ اب تک شام میں تقریباً پانچ لاکھ کے قریب شامی شہری ہلاک اور لاکھوں شدید زخمی ہوچکے ہیں۔ شام کی کل آبادی اڑھائی پونے تین کروڑ ہے۔ ہلاک اورزخمی ہونے والوں کے علاوہ اس وقت تک ساٹھ لاکھ سےزائد اندرون ملک بے گھرجبکہ پچاس لاکھ کے قریب ہجرت کرکے دربدر ہیں۔
شام میں 2015تک جمہوری محاذ مکمل کامیابی کے قریب تھا کہ جب روس اورایران نے شام کی بھرپور مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت روسی طیارے شام کے شہریوں پر بمباری کر رہے ہیں اورزمینی محاذ پر شامی فوجوں کے شانہ بشانہ ایرانی فوجی اورلبنانی حزب اللہ لڑ رہی ہے۔ لگتا یوں ہےکہ بشارالاسد نے دل میں تہیہ کرلیا ہے کہ اگراسے اپنے تمام شہریوں کو نیست و نابود کرکے صرف شام کے کھنڈروں، ویرانوں اور قبرستانوں پر حکومت کرنے کاآپشن ملےگاتو وہ اسے بھی مہنگا سودا نہیں سمجھے گا۔ اسی لئے تو بشارالاسد نے روانڈا اور بوسنیا میں ہونے والی نسل کشی کی یاد تازہ کردی ہے۔
شام 2011ءسے خانہ جنگی کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ شام کے جن جمہوریت پسندوں کو بشارالاسد ’’باغی‘‘ قراردے رہے ہیں دراصل وہ انسانی حقوق اور جمہوری آزادی کی جنگ لڑنے والا جمہوری محاذ ہے۔ شام کی خانہ جنگی کی حقیقت سمجھنے کے لئے ذرا سا ماضی میں جھانکنا ہوگا۔ فوجی آمر حافظ الاسد کے 29سالہ دورِاقتدار میں شام بدترین قسم کی ڈکٹیٹر شپ کے پنجوں میں جکڑا ہوا تھا۔ میں نے بچشم خود دمشق میں دیکھا کہ وہاں کسی کو چوں کرنے کی مجال نہ تھی۔ اس ہولناک آمریت سے تنگ آ کر 1982میں شامیوں نے پرامن مگر پرجوش احتجا ج کا سلسلہ شروع کیا۔ حافظ الاسد نے ٹینکوں، توپوں، مارٹرگنوں اور بمبار جہازوں سے مسلسل 27روز تک احتجاج کے مرکز حماۃ شہر پرگولہ باری اوربمباری کی اور اپنے ہی 20ہزار شہریوں کو ہلاک کردیا۔ شامی فوجوں نے 27روز تک شہر کا محاصرہ جاری رکھا۔ اس دوران لاشیں جلتی اور سڑتی رہیں۔ انہیں کوئی دفنانے والا نہ تھا۔ 2000میں حافظ الاسد کی وفات کے بعد اس کابیٹا بشارالاسد شامی اقتدارکا وارث بن بیٹھا۔ بشارالاسد ظلم و بربریت میں اپنے باپ کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ باپ نے 20ہزار کو حماۃ میں ہلاک کیا تھا تو بیٹا سارے شام میں کم از کم پانچ لاکھ اپنے ہی شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہے۔ رابرٹ فسک ایک ثقہ امریکی تجزیہ نگار ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ شام کی جنگ میں نہ صرف وہاں کی حکومت بلکہ کئی عالمی طاقتیں بھی جھوٹ، فریب اور منافقت سے کام لے رہی ہیں۔
2010ءمیں جمہوریت کے حق اور آمریت کی مخالفت میں شروع ہونیوالی عرب بادِبہاری کے جھونکوں سے متاثر ہو کر کئی عرب ملکوں میں جمہوری حکومتیں قائم ہوگئیں۔ شامی شہریوں نے جمہوریت کیلئے پرامن احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تو بشارالاسد کی فوجوں نے پرامن احتجاج کو کچلنے کے لئے بم چلائے۔ حکومت کی سیکورٹی فورسز آتشیں بم پھینک کر لوگوں کو زندہ جلا دیتی تھیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ اگر شام میں اقتدار ایک علوی اقلیت کے پاس ہے تو اکثریت سنی العقیدہ ہے تاہم اس خانہ جنگی کا ہرگز کوئی تعلق مذہبی اختلافات یافرقہ واریت سے نہیں ہے۔ یہ خالصتاً سیاسی جمہوری تحریک ہے۔ شروع شروع میں ترکی، امریکہ اور برادرعرب ملک نے شامی جمہوری محاذ کی مالی و عملی اعانت کی مگراب امریکہ نےاپنی مصلحتوں کےپیش نظر جبکہ برادر ملک نے اپنی ترجیحات کی بنا پر اور ترکی نےاپنے ناکام فوجی انقلاب کے بعد روس کی طرف جھکائو کی بنا پر شامی شہریوں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیاہے۔
افسوسناک امر ہے کہ حلب کی صورتحال کے بارے میں روس ، ترکی اور ایران کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ سے ایک روزپہلے انقرہ میں روسی سفیر کو گولی مار دی گئی۔ عرب دنیا میں جمہوری قوتوں کو غچہ دینے میں دو خواتین کا ہاتھ ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ ان میں پہلی سابق وزیرخارجہ کونڈا لیزا رائس ہے جس نے قاہرہ میں ببانگ ِ دہل کہا تھاکہ ہم مصر میں ہر صورت میں جمہوریت کا تحفظ کریں گے مگر جب منتخب جمہوری صدر محمدالمرسی کی حکومت کا صرف ایک سال بعد فوجی ڈکٹیٹر جنرل السیسی نے تختہ الٹ دیا تو امریکہ اس کے جمہوری صدر کے ساتھ نہیں فوجی آمر کے ساتھ کھڑا تھا۔ اسی طرح دوسری سابق امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا تھا کہ شام میں ہماری کمٹمنٹ جمہوریت کے ساتھ ہے مگر جب فیصلہ کن مرحلہ آیا تو نہ جانے کہاں سے جمہوری جنگ ِ آزادی میں داعش فیکٹر کو داخل کرکے امریکہ بدترین ڈکٹیٹر بشارالاسد کےساتھ کھڑا تھا اور اس نے وہاں روس کو مکمل طور پر فری ہینڈ دے دیا۔ شام میں انسانیت سوز مظالم پر عالمی ضمیر میں ہلکی سی جنبش بھی پیدا نہیں ہوئی تاہم سب سے زیادہ مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ 57ملکوں پر مشتمل عالم اسلام کر رہا ہے۔ شامی قتل گاہوں میں مجبور شہری ایک طرف اپنے رب کو پکار رہے ہیں تو دوسری طرف اپنے مسلمان بھائیوں سے بزبان شعر شکوہ کر رہے ہیں؎
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
حقیقت یہ ہے کہ کروڑوں شامی مسلمان خاک ہوچکے ہیں مگر ان کے مسلمان بھائیوں نے اپنی آنکھیں موند رکھی ہیں اور اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رکھی ہیں۔


.
تازہ ترین