• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم نواز شریف کے معاون خصوصی طارق فاطمی کا دورہ امریکہ اس لحاظ سے مکمل ناکام رہا ہے کہ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی ٹیم نے انہیں ملاقات کا وقت نہیں دیا اور نہ ہی اہمیت دی۔ اگرچہ طارق فاطمی کا یہ دورہ طے شدہ نہیں تھا اور نہ ہی نو منتخب امریکی انتظامیہ سے ملاقاتیں بھی پہلے سے طے کی گئی تھیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے الٹا اپنے دور ے کو نہ صرف کامیاب قرار دے رہے ہیں بلکہ یہ بھی فرمارہے ہیں کہ مستقبل قریب میں اس دورے کے اچھے نتائج نکلیں گے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ جب نئے امریکی صدر کی ٹیم نے طارق فاطمی کو زیادہ اہمیت نہیں دی تو انہوں نے امریکی میڈیا اور نئی امریکی انتظامیہ کو متوجہ کرنے کے لیے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کا شوشا چھوڑ دیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ شکیل آفریدی پاکستان کا غدار ہے۔ اس نے اسامہ بن لادن تک رسائی دلوانے کے لیے قومی سلامتی اور خود مختاری کو دائو پہ لگایا تھا۔ ماضی میں اوباما حکومت بھی پاکستان سے شکیل آفریدی کو امریکہ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہے لیکن پاکستانی حکومت کا یہ موقف تھا کہ چونکہ وہ ایک غدار وطن ہے اور اسے کسی بھی قیمت پر امریکہ کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید نواز شریف حکومت امریکہ کے بارےمیں اپنی پالیسیوں کو بدلنا چاہ رہی ہے۔ یہ ملکی و قومی مفاد کے منافی ہے۔ اس سے قبل ماضی میں بھی یوسف رمزی، ایمل کانسی اور ریمنڈ ڈیوس کو امریکہ کے حوالے کیا گیا تھا۔ اب حکومت پاکستان کو ایسی کوئی غلطی نہیں کرنی چاہئے۔ ابھی تو ہم نام نہاد امریکی جنگ سے بھی چھٹکارا حاصل نہیں کر پائے۔ امریکہ افغانستان میں لاکھوں افغانیوں کا قتل عام کرکے خود تو واپس روانہ ہوگیا لیکن پاکستان دہشت گردی کی اس جنگ سے ابھی تک نکل نہیں پایا۔ پاکستان ایک خوددار اور خود مختار ملک بن کر ہی دنیا میں عزت حاصل کرسکتا ہے۔ ہمارے ارباب اقتدار کو اپنی خارجہ پالیسی کو ازسرنو تشکیل دینا ہوگا۔ مستقبل کے منظر نامے میں پاکستان، چین، افغانستان، ترکی، ایران، سعودی عرب اور دیگر اسلامی ملکوں کے ساتھ مل کر جنوبی ایشیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ سکتا ہے۔ لیکن اگر ہم نے امریکہ کے ساتھ حسب سابق پھر توقعات رکھیں تو ہم ذلت کی گھاٹیوں میں گرتے چلے جائیں گے۔ امریکہ سے تعلقات عزت و وقار کے ساتھ قائم رہنے چاہئیں۔ نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ نے اگر پاکستان اور دیگر اسلامی ملکوں کے درمیان اپنے روابط اور تعلقات کو بہتر بنانا ہے تو انہیں عالم اسلام کے دیرینہ مسائل حل کرنے ہوں گے۔ کشمیر اور فلسطین اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر طویل عرصہ سے حل طلب مسائل ہیں۔ اب امریکہ اور یورپی ممالک کو اسلامی ملکوں کے بارے میں اپنی سوچ میں واضح تبدیلی لانا ہوگی۔ امریکی جاسوس ڈاکٹر شکیل آفریدی کا معاملہ بھی عدلیہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بدلے میں عافیہ صدیقی کو بھی امریکی قید سے رہا کروایا جا سکتا ہے۔ عافیہ صدیقی پاکستان کی مظلوم بیٹی ہیں اور امت مسلمہ کی آبرو ہیں۔ ان کی رہائی کے لئے حکومت پاکستان کو نئے امریکی صدر سے رابطہ کرنا چاہئے اور انہیں جلد پاکستان واپس لانے کے لئے عملی اقدا مات کرنے چاہئیں۔ عافیہ صدیقی کو رہا کروائے بغیر ڈاکٹر شکیل آفریدی کو یکطرفہ طور پر امریکہ کے حوالے کرنا قوم سے سنگین غداری کے مترادف ہوگا بلکہ حکومت پاکستان کو کوشش کرنی چاہئے کہ عافیہ صدیقی کو نئی امریکی انتظامیہ کے ذریعے رہائی دلوائی جائے اور غدار وطن شکیل آفریدی کو بھی نہ چھوڑا جائے۔ ایسے غداروں کو عبرت ناک سزا دینی چاہئے تاکہ آئندہ کسی کو بھی ملکی سلامتی اور خود مختاری کے ساتھ کھیلنے کی جرأت نہ ہو۔ اسی تناظر میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی نے مجھے ایک چشم کشا خط بھجوایا ہے۔
محترمی و مکرمی محمد فاروق چوہان صاحب، السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ میں ایک مرتبہ پھر آپ سے رابطہ کر رہی ہوں کیونکہ مورخہ 17دسمبر کے تمام قومی اخبارات میں میاں محمد نواز شریف کے معاون خصوصی طارق فاطمی کے امریکی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹر ویو میں یہ بات کہی گئی ہے کہ پاکستان ڈاکٹر شکیل آفریدی کے معاملے کو حل کرنے اور آگے بڑھنے کی راہیں تلاش کرنے پر تیا رہے۔ 6دسمبر 2016کو قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی قید تنہائی کے5000 دن مکمل ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کی جدوجہد نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی جاری ہے۔ دنیا بھر کے معروف ماہرین قانون، ڈاکٹر عافیہ کو بےگناہ قرار دے چکے ہیں۔ جس میں سب سے معروف نام سابق امریکی اٹارنی جنرل رمزے کلارک کا ہے۔ جو کہ عافیہ کی امریکی جیل سے رہائی کے لئے پاکستان کا دورہ بھی کرچکے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کی بےگناہی کی بنیاد پر دانشور، صحافی، اساتذہ، وکلاء، حقوق انسانی و نسواں اور سیاسی و سماجی جماعتوں کے رہنما، کارکنان اور عوام ڈاکٹر عافیہ کو وطن واپس لانے کا مطالبہ کررہے ہیں جبکہ شکیل آفریدی کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکی سفیر بھی کہہ چکے ہیں کہ شکیل آفریدی کے بدلے عافیہ کو دینے پر تیار ہیں۔ ستمبر 2016میں معروف قانون دان بیرسٹر نسیم باجوہ نے برطانوی صحافی مریم ایون ریڈلے کے ہمراہ ایک اہم پریس کانفرنس کی تھی جس میں کہا گیا کہ ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کے بعد ہمیں لگتا تھا کہ یہ ہمارا آخری موقع قیدیوں کے تبادلے کا ختم ہو گیا ہے مگر قدرت نے ہماری مدد کی ہے کہ اب ڈاکٹر شکیل آفریدی کی شکل میں ہمارے پاس ایک اور امریکن جاسوس ہے جو زیر حراست ہے۔ امریکہ پاکستان کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ ان کا کوئی بھی جاسوس اپنی جیل میں رکھے اور وہ اب یہ طریقہ سوچ رہے ہیں کہ کانگریس کے ذریعے پاکستانی شہری کو امریکن شہری بنا دیں اور پاکستان سے کہا جا ئے گا کہ آپ ہمارے شہری کو کیسے جیل میں رکھ سکتے ہیں؟ اگر امریکہ پاکستانی شہری کو امریکن شہری بنا کر اپنے ملک لے جاسکتا ہے تو پاکستان اپنی بیٹی کو اپنے ملک کیوں واپس نہیں لاسکتا؟ جبکہ اس نے اپنی سزا کا زیادہ حصہ بھی پورا کرلیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومتی سطح پر شکیل آفریدی کو امریکہ بھیجنے کی باتیں شروع کردی گئی ہیں جبکہ ڈاکٹر عافیہ کو ایک بار پھر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ میں آپ سے التماس کرتی ہوں کہ اپنے کالم کے توسط سے حکومت پاکستان، پارلیمنٹ اور دیگر متعلقہ ریاستی اداروں کو پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی امریکی قید ناحق سے رہائی اور وطن واپس لانے کا دینی، قومی اور آئینی فریضہ ادا کرنے کا احساس دلائیں۔ والاسلام۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی
میری گزشتہ دنوں ڈاکٹر عافیہ کی والدہ محترمہ سے بھی ٹیلی فون پر تفصیلی بات ہوئی تھی، انہوں نے مجھے بتایا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے برسر اقتدار آتے ہی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو فوری وطن واپس لانے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ ابھی تک یہ امید لگائے بیٹھی ہیں کہ وزیر اعظم آخر کب اپنا وعدہ پورا کریں گے؟

.
تازہ ترین