• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک آمر،جنرل پرویز مشرف نے ہمیں ریگولیٹری باڈیز دیں، جن کا مقصدعوامی مفاد میںمختلف وزارتوں پر نظر رکھنی تھی۔ اب ایک جمہوری حکومت اُنہیں ختم کرنے جارہی ہے کیونکہ وہ اس کیلئے پریشانی کاباعث تھیں۔ اُن باڈیز نے حکومت کے ہاتھ باندھ رکھے تھے اسے تیل، مائع گیس اور بجلی کی قیمتوں میں من پسند اضافے کی اجازت نہیں دے رہی تھیں۔ اس ملک میں لطائف کی کمی نہیں لیکن نندی پور کا درجہ اس فہرست میں بہت اونچا ہے ۔ وزیر ِاعظم نے بہت ہی دھوم دھڑکے سے اس کا افتتاح کیا تھا۔ یہ بات ناقابل ِ یقین دکھائی دیتی ہے کہ اُسے اگلے ہی دن بند کردیا گیا کیونکہ اس میں کوئی تکنیکی خرابی وغیرہ تھی۔ اور پھر وہ ایک سفید ہاتھی تھا۔ اس پر اٹھنے والے اخراجات بڑھ رہے تھے ، لیکن حکومت اسے چلائے رکھنے کیلئے اس سے پیدا ہونے والی مہنگی بجلی فروخت کرنا چاہتی تھی، لیکن نیپرا، جو کہ بجلی کی قیمتوں پر نظر رکھنے والی باڈی ہے ، اس ڈکیتی کی اجازت نہیں دیتی تھی ۔ نیپرا کی طرف سے ساہیوال پاور پروجیکٹ، جو کہ کوئلے سے چلنے والا ایک اور ممکنہ طور پر تباہ کن منصوبہ ہے ،کے مجوزہ ٹیرف پر بھی اعتراضات اٹھا ئے جا رہے تھے ۔ چنانچہ نیپرا کا خاتمہ ضروری ہوچکا تھا۔ اسی طرح اوگرا کا بھی ، کیونکہ وہ مہنگی مائع گیس کی درآمدپر معترض تھا۔
چنانچہ بیک جنبش ِقلم پانچ ریگولیٹری باڈیز کے پر کاٹ کر اُنہیں متعلقہ وزارتوں کے ماتحت کردیا گیا۔ کہا گیاکہ ایسا ’’عوامی مفاد‘‘ میں کیا گیا ہے ۔ اب یہ وزارتیں انہیں ریگولیٹ کریں گی اور یوں عوامی مفاد کو چار چاند لگیں گے۔ یہ ہے پاکستانی جمہوریت۔ سندھ حکومت اس پر معترض ہے ، خیبرپختونخوا حکومت کے اس پر تحفظات ہیں، اور مشترکہ مفاد کونسل ، جہاں اس معاملے پر بحث ہونی چاہئے تھی، کو بالکل ہی بائی پاس کردیا گیا۔ اس کی منظوری وزیر ِاعظم نے اُ س وقت دی جب وہ غیر ملکی دورے کیلئے مختص کردہ پی آئی اے کے ایک طیارے میں محو ِ پرواز تھے ۔
وزیر ِداخلہ اپنے حقیقی فرائض کی انجا م دہی سے تو قاصر، لیکن افغانستان کے ساتھ تعلقات پر جناب کا بیان ضروری ، جیسا کہ اُنھوںنے خیبر ایجنسی کے دورے کے موقع پر دیا۔ اورجہاں تک احتساب کے نام پر پھوٹنے والے ایک اور شگوفے ، نیب کا تعلق تواس نے بلوچستان کے ایک افسر ، جس کے گھر سے دولت کا بھاری خزانہ برآمد ہوا، کروڑوں مالیت کے کرنسی نوٹ تو صرف گیراج میں چھپائے گئے تھے ، کے ساتھ پلی بارگین کرلی۔ خیر یہ کوئی چونکا دینے والے واقعات نہیں، اس اسلامی جمہوریہ کے معمولات زندگی اسی طرح ہیں۔ اپنے طویل سیاسی کیریئرکے دوران نواز شریف قاعدے، قانون اور مروجہ طریق ِ کار سے الرجک رہے ہیں ۔ اُنہیں وقتی ، ہنگامی اور من پسند اقدامات ہی مرغوب ہیں ۔ اپنی دوسری مدت کے دورا ن وہ بطور وزیر ِاعظم بھی مطمئن نہ تھے۔ وہ امیرالمومنین بننا چاہتے تھے ۔ مذاق کی بات نہیں، اس مقصد کیلئے ایک آئینی ترمیم پیش کی جانے والی تھی۔ خوش قسمتی سے اس حماقت پر پی ایم ایل (ن) کی پارلیمانی پارٹی کی اپنی صفوں سے ہی طاقتور مخالفت سامنے آئی۔ خاص طور پر خورشید محمود قصوری نے اس کے خلاف آواز بلند کی ۔ تاہم وہ کاوش چشم کشا ہے کہ نواز شریف پاکستانی اہل ِ ایمان کے خلیفہ بننا چاہتے تھے ۔ اس کے بعد ظاہر ہے کہ خلیفہ کی ذات ہرقسم کی تنقید ، بلکہ شک و شبہ سے بالا تر ہو گی۔ اور تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ خلیفہ کی مدت محدود نہیں بلکہ تاحیات ہوتی ہے ۔
تاہم وہ اس سنہری منزل کو نہ پاسکے ، اور جلد ہی ان معاملات میں خود کو الجھا لیا جن کانتیجہ آخر کار مشرف کے شب خون کی صورت نکلا۔ تاہم ، جیسا کہ کہاوت ہے ، ’رسی جل جاتی ہے پر بل نہیں جاتا‘۔ نہ چیتا اپنے نشانات بدل سکتا ہے ، نہ آدمی اپنی فطرت۔ چنانچہ ایڈہاک ازم موصوف کی فطرت ِ ثانیہ کا حصہ ، ریگولیٹری باڈیز سے اختیارات چھین لینا اسی اندازحکمرانی کا ایک اظہار ۔ پاناما اسکینڈل اور اس کے انکشافات نے اس خاندان ، جو اس ملک کے عوام اور قوانین کو کسی خاطر میں نہیں لاتا، کی مالی بدعنوانی کو آشکار کردیا ۔ ان کارویہ ظاہر کرتا ہے کہ قوانین اور ضابطے دوسروںکیلئے ہیں، جیسا کہ نیویارک کی ارب پتی لیونا ہمسلے(Leona Helmsley)کا کہنا ہے، ’’ہم ٹیکس ادا نہیں کرتے، صرف عام افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔‘‘پاکستان میں بھی اسی سوچ کی ہی کارفرمائی ہے ۔ قوانین عام افراد کیلئے ہیں نہ کہ مے فیئر جائیداد کے مالکوں کے لئے۔ الحمدﷲ۔
رہایہ سوال کہ نوازشریف نے یکایک شاہانہ انداز میں ہاتھ کیوں دکھانا شروع کردئیے ، تو اس پر ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ اُن کے سب سے بڑے درد ِسر، جنرل راحیل شریف کی روانگی ہے ۔ ایسا نہیںکہ سابق آرمی چیف وزیر ِاعظم کیخلاف سازشیں کررہے تھے ، لیکن اُن کی کارکردگی اور دبنگ انداز نے سویلین حکومت کی کارکردگی کوپس ِ منظر میں دھکیل دیا تھا۔ چنانچہ یہ بات قابل ِفہم کہ پی ایم ایل (ن) جنرل راحیل شریف کو ناپسندکرتی تھی ۔ وہ ایک ایک دن گن رہے تھے کہ کب جنرل صاحب رخصت ہوںگے۔کتنی دعائیں کی ہوں گی۔ اب جبکہ جنرل صاحب خاموشی سے اپنے گھر جاچکے ، پی ایم ایل (ن) نے آزاد فضائوں میں سانس لینا شروع کردیا ہے ۔ آصف زرداری درست کہتے تھے، آرمی چیف آتے جاتے رہتے ہیںبشرطیکہ اُن کے دماغ میں یہ نہ آجائے کہ وہ سب چیزیں اپنے ہاتھوں میں سمیٹ لیں،جیسا کہ ہمارے چار چیفس نے کیا۔ دوسری طرف سیاست دان اپنی جگہ پر موجود رہتے ہیں۔
یہ بھی جائے حیرت نہیں کہ رئیس زرداری نے اچانک پاکستان واپس آنے کا اچانک فیصلہ کیوں کیا ۔ وہ خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرکے ایک محتاط فاصلے سے اپنا کاروبار اور سندھ حکومت چلارہے تھے ، لیکن اب وہ فاتحانہ طور پر واپس آرہے ہیں۔ نواز شریف بھی اپنے پر پھیلا رہے ہیں۔ اس کی وجہ جی ایچ کیومیں آنے والی تبدیلی ہے ۔ اس تبدیلی سے پہلے سندھ میں تمام تر نامساعد حالات کے باوجود اچھا نام کمانے والے انسپکٹر جنرل پولیس، اے ڈی خواجہ کو اس نامناسب طریقے سے نہ ہٹایا جاتا۔ مسٹر زرداری ایسی من مانی کرنے پر خود کو قادرنہ پاتے ۔ تاہم اب سب کچھ تبدیل ہوچکا ۔ یہی اصل چارٹر آف ڈیموکریسی ہے ۔ نوازشریف اور آصف زرداری ، دونوں کی کھل کھیلنے کی آزادی۔ یہ انہی تبدیل شدہ حالات کا نتیجہ کہ ریگولیٹری باڈیز کو بے اثر کردیا گیا ہے ۔
جنرل مشرف نے کیا گناہ کیا جب اُنھوںنے کہا کہ وہ غداری کیس سے بچ کر باہر جانے میں مدد کرنے پر جنرل راحیل شریف کے مشکور ہیں؟کیا یہ بات پہلے ہی سب کو نہیں معلوم تھی؟جب اُنہیں آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ، جہاں اُنہیں فوج کاتحفظ حاصل تھا، سے چک شہزاد لے جایا گیا اور فارم کو ’سب اسپتال ‘ قرار دے دیا گیا تو یہ بات عیاں ہوچکی تھی کہ فوج اپنے سابق آرمی چیف کو بچانے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہے ۔ ہم آسمان کی طرف منہ کرکے دہائی دے سکتے ہیں کہ ایسا کرنا فوج کیلئے حدود سے تجاوز کے زمرے میں آتا ہے ، لیکن جب سیاست دان خود قانون کا احترام نہیں کرتے تو کیا جس کے ہاتھ میں بندوق ہوگی ، وہ من مانی نہیںکرے گا؟اس سے ہم کس نتیجے پر پہنچتے ہیں؟ یہی کہ پاکستان میں اصل قانون من مانی، خبط اور ایڈہاک ازم ہی ہے ۔ اگر ماڈل ٹائون ہلاکتوں پر کوئی دادرسی نہیں، اصغرخان کیس پر کوئی کارروائی نہیںاور جب پاناما پربھی کچھ نہیں ہوگا تو پھر جمہوریت ہی مقدس گائے قرار پائے گی۔ جنرل راحیل شریف کی کارکردگی نے ملک میںایک عدم توازن قائم کردیا تھا۔ اب اُن کی روانگی کے ساتھ ہی ’’حالات معمول ‘‘پر آ چکے ہیں۔

.
تازہ ترین